بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

جنگ کے بعد مذاکرات کی میز پر پوتن یوکرین اور نیٹو سے اب کیا چاہتے ہیں؟

یوکرین جنگ: روس کے صدر ولادیمیر پوتن کیا چاہتے ہیں اور کیا نیٹو روس کے ساتھ کوئی معاہدہ قبول کرے گا؟

  • پال کربی
  • بی بی سی نیوز

صدر پوتن

،تصویر کا ذریعہAFP

ولادیمیر پوتن نے چار کروڑ چالیس لاکھ کی آبادی والے ایک جمہوری ملک یوکرین کے خلاف جنگ چھیڑ کر یورپ میں امن کو تہس نہس کیا۔

اس جنگ کے جواز میں صدر پوتن کا یہ خیال بنا کہ جدید، مغرب نواز یوکرین روس کے لیے ایک مستقل خطرہ ہے اور روس ایسے پڑوسی کے ہوتے ہوئے ’عدم تحفظ کا شکار‘ ہے اور ایسے میں وہ اسے اپنی ترقی اور وجود کے لیے بھی خطرہ سمجھتا ہے۔

کئی ہفتوں کی بمباری کے بعد جہاں ہزاروں افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور لاکھوں پناہ گزین بن چکے ہیں، وہیں ایسے میں یہ سوال اپنی اہمیت رکھتا ہے کہ صدر پوتن کی جنگ کا مقصد کیا ہے اور کیا اس کے خاتمے کا بھی کوئی امکان ہے؟

صدر پوتن نے یوکرین پر حملہ کیوں کیا؟

روس کے حملے کے آغاز میں صدر پوتن نے جو اہداف طے کیے تھے وہ اس جنگ کے دوران ختم ہو گئے تھے جو انھوں نے سوچا تھا کہ وہ تیزی سے جیت جائیں گے۔

وہ ’خصوصی فوجی آپریشن‘ کے افسانے کو ترجیح دیتے ہوئے یہ تسلیم بھی نہیں کر سکتے تھے کہ یہ حملہ یا جنگ تھی۔

لیکن جو بات واضح ہے وہ یہ ہے کہ وہ اسے روس کی تاریخ کے ایک اہم لمحے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ فارن انٹیلیجنس چیف سرگئی ناریشکن کا کہنا ہے کہ ’روس کا مستقبل اور دنیا میں اس ملک کا مقام خطرات سے دوچار ہے۔‘

صدر پوتن کا ابتدائی مقصد یوکرین پر تسلط قائم کرنا اور اس کی حکومت کو معزول کرنا تھا، جس سے اس کی مغربی دفاعی اتحاد نیٹو میں شمولیت کی خواہش کا خاتمہ ہو جائے۔

صدر پوتن نے روسی عوام کو بتایا کہ ان کا مقصد یوکرین کو غیر فوجی بنانا اور یوکرین کو نازی اثرات سے باہر نکالنا ہے، تاکہ ان لوگوں کی حفاظت کی جا سکے جنھیں، ان کے مطابق، یوکرین کی حکومت کی طرف سے آٹھ سال کی غنڈہ گردی اور نسل کشی کا سامنا ہے۔

انھوں نے زور دے کر کہا کہ ’یوکرینی سرزمین پر قبضہ کرنا ہمارا منصوبہ نہیں ہے۔ ہم طاقت کے ذریعے کسی پر کچھ مسلط کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔‘

لیکن وہاں کوئی نازی نہیں تھے اور کوئی نسل کشی نہیں ہوئی اور روس نے درجنوں قصبوں اور شہروں پر وحشیانہ طاقت مسلط کر دی ہے اور یوکرینیوں کو اس کے قبضے کی مخالفت میں متحد کر دیا ہے۔

یوکرین پر روس کی بمباری جاری ہے۔ لیکن امن مذاکرات کی تازہ ترین رپورٹس کے مطابق روس اب حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش نہیں کر رہا ہے اور اس کے بجائے اب وہ ایک غیر جانبدار یوکرین دیکھنا چاہتا ہے۔

cross amid rubble of a damaged bridge in the Irpin city near from Kyiv (Kiev), Ukraine, 06 March 2022

،تصویر کا ذریعہEPA

پوتن ایک غیر جانبدار یوکرین دیکھنے کے متمنی کیوں؟

جب سووت یونین کا خاتمہ ہوا تو یوکرین نے سنہ 1991 میں اپنی آزادی کے بعد آہستہ آہستہ اپنا قبلہ مغرب یعنی یورپی یونین اور نیٹو کی طرف موڑنا شروع کردیا۔ سوویت یونین کے زوال کو ’تاریخی روس کے ٹوٹنے‘ کے طور پر دیکھتے ہوئے صدر پوتن کا مقصد اس کو تبدیل کرنا ہے۔

انھوں نے دعویٰ کیا ہے کہ روسی اور یوکرینی ایک ہی لوگ ہیں۔ یوکرین کی تاریخ کا انکار کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یوکرین میں کبھی بھی حقیقی اور ذمہ دار ریاست ہونے کے احساس جیسی روایت نہیں رہی۔

سنہ 2013 میں صدر پوتن نے یوکرین کے روس نواز رہنما وکٹر یانوکووچ پر دباؤ ڈالا کہ وہ یورپی یونین کے ساتھ معاہدے پر دستخط نہ کریں، جس سے مظاہروں کا آغاز ہوا۔ اس طرح بالآخر فروری 2014 میں یوکرین کے رہنما کو جانا پڑا۔

روس نے سنہ 2014 میں یوکرین کے جنوبی علاقے کریمیا پر قبضہ کر کے اور مشرق میں بغاوت کو ہوا دے کر جوابی کارروائی کی اور علیحدگی پسندوں کی پشت پناہی کی جنھوں نے آٹھ سالہ جنگ میں یوکرینی افواج کا مقابلہ کیا۔ اس میں 14,000 افراد ہلاک ہوئے۔

اس کے بعد سیزفائر ہوا اور پھر سنہ 2015 میں ’منسک امن معاہدہ‘ بھی ہوا جو کبھی نافذ نہیں ہوسکا۔ یوکرین پر حملے سے پہلے صدر پوتن نے امن معاہدے کو توڑ دیا اور روس کی حمایت یافتہ دو ریاستوں کو یوکرین سے آزاد تسلیم کر لیا۔

فوج بھیجنے کے ساتھ ہی صدر پوتن نے نیٹو پر الزام لگایا کہ ’بطور قوم ہمارے تاریخی مستقبل کو خطرہ ہے‘ اور یہ بے بنیاد دعویٰ کیا کہ نیٹو ممالک کریمیا میں جنگ لانا چاہتے ہیں۔

کیا اس جنگ سے نکلنے کا کوئی راستہ ہے؟

یوکرین کے صدارتی مشیر میخائیلو پوڈولیاک کا خیال ہے کہ آنے والے دنوں میں جنگ بندی ہو سکتی ہے کیونکہ روسی افواج اپنی موجودہ پوزیشن پر پھنسی ہوئی ہیں۔

ان کے مطابق فریقین نے مذاکرات میں پیش رفت کے بارے میں مثبت بات کی ہے اور صدر پوتن نے اپنے مؤقف میں نرمی پیدا کی ہے۔

جنگ کے آغاز پر صدر پوتن چاہتے تھے کہ یوکرین کریمیا کو روس کا حصہ تسلیم کرے اور علیحدگی پسندوں کے زیر انتظام مشرق کی آزادی کو تسلیم کرے۔ یوکرین کو اس بات کی ضمانت کے لیے اپنا آئین تبدیل کرنا ہوگا کہ وہ نیٹو اور یورپی یونین میں شامل نہیں ہوگا۔

کریمیا کی مستقبل کی حیثیت اور لوہانسک اور ڈونیٹسک میں روسی حمایت یافتہ دونوں ریاستیں ابھی تک حل ہونے سے بہت دور ہیں، لیکن اگر دونوں فریق بعد کی تاریخ میں اس مسئلے کو حل کرنے پر راضی ہو جائیں تو یہ معاہدہ توڑنے والا نہیں ہو سکتا۔

ایسا لگتا ہے کہ روس نے قبول کر لیا ہے کہ وہ یوکرین کی قیادت کو نہیں ہٹا سکتا اور اس کی جگہ ایک کٹھ پتلی حکومت نہیں لا سکتا جیسا کہ بیلاروس میں موجود ہے۔ صدر ولادیمیر زیلنسکی نے کہا کہ جنگ کے آغاز پر انھیں خبردار کیا گیا تھا کہ ’دشمن نے مجھے ہدف نمبر ایک کے طور پر نامزد کیا ہے جبکہ میرا خاندان ہدف نمبر دو ہے۔‘

تجزیہ فرم آر پولیٹک اور کارنیگی ماسکو سینٹر کی تاتیانا سٹانووایا کہتی ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ [پوتن] کو بہت زیادہ محدود فہرست کو قبول کرنا پڑے گا۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ روس آسٹریا یا سویڈن کی خطوط پر اپنی فوج اور بحریہ کے ساتھ ایک ’غیر جانبدار، غیر فوجی‘ یوکرین پر غور کر رہا ہے، جو دونوں یورپی یونین کے رکن ہیں۔ آسٹریا غیر جانبدار ہے مگر سویڈن نہیں ہے۔ درحقیقت یہ غیر منسلک ہے اور نیٹو کی مشقوں میں حصہ لیتا ہے۔

ہر کوئی اس بات پر قائل نہیں ہے کہ روس نیک نیتی سے مذاکرات کر رہا ہے۔ فرانس کے وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ ماسکو کو پہلے جنگ بندی کا اعلان کرنا چاہیے، کیونکہ آپ ’سر پر بندوق رکھ کر مذاکرات نہیں کرتے۔‘

یوکرین کے مطالبات کیا ہیں؟

صدارتی مشیر کا کہنا ہے کہ یوکرین کی ضروریات واضح ہیں: جنگ بندی اور روسی فوجیوں کا انخلا۔

ان کے مطابق اس کے ساتھ یوکرین کو قانونی حفاظتی ضمانتیں بھی چاہئیں، جو یوکرین کو اتحادی ممالک کے ایک گروپ سے تحفظ فراہم کریں گی جو حملوں کو صحیح فعال ہو کر روکیں گے اور جنگ کی صورت میں یوکرین کی طرف سے فعال طور پر حصہ لیں گے۔

بین الاقوامی قانون کے پروفیسر اور اقوام متحدہ کے سابق ثالثی کے ماہر مارک ویلر کا کہنا ہے کہ جنگ سے پہلے کی پوزیشنوں پر روسی فوج کے انخلا کو یقینی بنانا نہ صرف یوکرین کا مطالبہ ہو گا بلکہ یہ مغرب کے لیے ایک ’ریڈ لائن‘ بھی ہو گی، جو روس کے ایک اور ’منجمد تنازعات‘ کو قبول کرنے سے انکار کر دے گا۔

یوکرین نے بھی روس کے حملے کے بعد سے اپنا مؤقف نرم کیا ہے، صدر زیلنسکی نے کہا کہ یوکرین کے عوام اب سمجھ گئے ہیں کہ نیٹو انھیں رکن کے طور پر تسلیم نہیں کرے گا: ’یہ ایک سچائی ہے اور اسے تسلیم کیا جانا چاہیے۔‘

یوکرین کے صدارتی مشیر میخائیلو پوڈولیاک نے امریکی نشریاتی ادارے پی بی ایس کو بتایا کہ ’ہم ایسی دستاویزات پر کام کر رہے ہیں جن پر صدر مزید بات چیت کر سکیں گے اور اس پر دستخط کر سکیں گے۔

’ظاہر ہے کہ یہ جلد ہی آنے والا ہے کیونکہ اس جنگ کو ختم کرنے کا یہی واحد راستہ ہے۔‘

Presentational grey line

روس کا یوکرین پر حملہ: ہماری کوریج

Presentational grey line

Ukrainian President Volodymyr Zelensky visiting positions on the frontline with pro-Russian militants in the Donetsk region, Ukraine, 06 December 2021

،تصویر کا ذریعہEPA

کیا صدر پوتن نیٹو کے ساتھ کسی معاہدے تک پہنچ سکیں گے؟

اگر اس تنازع میں سے کچھ سامنے آیا ہے تو روسی صدر نے مغرب اور اس کے 30 رکنی دفاعی فوجی اتحاد کے بارے میں اپنی نفرت کو دگنا کر دیا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ وہ یوکرین کے ساتھ سمجھوتہ کرنے پر غور کر رہے ہوں لیکن ان کے لیے مغرب کا ایک ہی مقصد ہے: روس میں معاشرے کو تقسیم کرنا اور بالآخر اسے تباہ کرنا۔

جنگ سے پہلے صدر پوتن نے نیٹو اتحاد سے مطالبہ کیا کہ وہ سنہ 1997 کی پوزیشن پر چلا جائے اور اپنی مشرق کی طرف توسیع کو واپس کر دے، سنہ 1997 سے اتحاد میں شامل ہونے والے رکن ممالک سے اپنی افواج اور فوجی ڈھانچے کو ہٹا دے اور ’روس کی سرحدوں یعنی وسطی یورپ، مشرقی یورپ اور بالٹکس کے قریب ’سٹرائیک ہتھیار‘ تعینات نہ کرے۔

صدر پوتن کی نظر میں مغرب نے سنہ 1990 میں وعدہ کیا تھا کہ نیٹو ’مشرق میں ایک انچ بھی نہیں‘ آگے بڑھے گا لیکن اس فوجی اتحاد نے اپنی توسیع کو جاری رکھا۔

یہ سوویت یونین کے ٹوٹنے سے پہلے کی بات ہے۔ تاہم اس وقت کے سوویت صدر میخائل گورباچوف سے کیے گئے وعدے میں دوبارہ متحد جرمنی کے تناظر میں صرف مشرقی جرمنی کا حوالہ دیا گیا تھا۔ صدر گورباچوف نے بعد میں کہا کہ اس وقت ’نیٹو کی توسیع کے موضوع پر کبھی بات نہیں کی گئی۔‘

اپنے مقاصد کے حصول کے لیے صدر پوتن کی یورپی شہروں کو برباد کرنے پر آمادگی کا مشاہدہ کرنے کے بعد مغربی رہنما اب کسی وہم میں مبتلا نہیں۔

جرمنی کے چانسلر اولف شولز کا خیال ہے کہ روس کے صدر ’اپنے عالمی نقطہ نظر کے مطابق یورپ پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں‘ اور صدر جو بائیڈن نے انھیں جنگی مجرم قرار دیا ہے۔ اولف شولز اور فرانس کے ایمانویل میکخواں دونوں نے اسے براعظم کی تاریخ کا اہم موڑ کہا ہے۔

جنگ سے پہلے روس نے مطالبہ کیا کہ تمام امریکی جوہری ہتھیاروں پر ان کے علاقوں میں پابندی عائد کی جائے۔ امریکہ نے مختصر اور درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کو محدود کرنے کے ساتھ ساتھ بین البراعظمی میزائلوں کے نئے معاہدے پر بات چیت شروع کرنے کی پیشکش کی تھی لیکن فی الحال اس کا امکان بہت کم ہے۔

تاتیانا سٹینوایا کو یہ خدشتہ ہے کہ اس بار پھر سرد جنگ جیسا تصادم ہو سکتا ہے: ’مجھے بہت محکم احساسات ہیں کہ ہمیں مغرب کے لیے ایک نئے الٹی میٹم کے لیے تیار رہنا چاہیے جو اس سے کہیں زیادہ عسکری اور جارحانہ ہو گا جس کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔‘

روس کے لیے آگے کیا ہے؟

صدر پوتن یوکرین کے خلاف جنگ شروع کرنے کے بعد مغربی ردعمل پر حیران رہ گئے ہیں۔ وہ جانتے تھے کہ نیٹو کے ارکان کبھی بھی یوکرین میں زمین پر قدم نہیں رکھیں گے۔ لیکن وہ اس بات کا اندازہ نہیں لگا سکتے تھے کہ روس کی معیشت پر پہلے سے ہی ڈرامائی اثرات مرتب کرنے والی پابندیوں سے کیا ہوسکتا ہے اور اب وہ ان متعدد پابندیوں اور ان کے اثرات کو دیکھ کر غصے میں ہیں۔

یورپی یونین، امریکہ، برطانیہ اور کینیڈا نے روس کی معیشت کو مختلف طریقوں سے نشانہ بنایا:

روس کے مرکزی بینک کے اثاثے منجمد کر دیے گئے ہیں اور بڑے بینک بین الاقوامی ادائیگی کی منتقلی کے نیٹ ورک سے باہر ہیں۔

امریکہ نے روسی تیل اور گیس کی درآمد پر پابندی لگا دی ہے۔ یورپی یونین کا مقصد ایک سال کے اندر گیس کی درآمدات میں دو تہائی کمی کرنا ہے۔ اور برطانیہ کا مقصد سنہ 2022 کے آخر تک روسی تیل کو مرحلہ وار ختم کرنا ہے۔

جرمنی نے روس کی نارڈ سٹریم 2 گیس پائپ لائن کی منظوری روک دی ہے، یہ روس اور یورپی کمپنیوں دونوں کی بڑی سرمایہ کاری ہے۔

روسی ایئر لائنز کو یورپی یونین، برطانیہ، امریکہ اور کینیڈا کی فضائی حدود سے روک دیا گیا ہے۔

صدر پوتن، وزیر خارجہ سرگئی لاوروف اور کئی دیگر افراد پر ذاتی پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔

یوکرین کے ساتھ کوئی بھی امن معاہدہ ان پابندیوں کو ختم نہیں کرے گا۔

تقریباً 15,000 جنگ مخالف مظاہرین کو جیلوں میں ڈال دیا گیا ہے اور عملی طور پر تمام آزاد میڈیا کو خاموش کر دیا گیا ہے۔

کوئی بامعنی سیاسی اپوزیشن باقی نہیں رہی کیونکہ وہ یا تو ملک سے فرار ہو چکے ہیں یا اپوزیشن لیڈر الیکسی نوالنی کے معاملے میں انھیں جیل بھیج دیا گیا ہے۔ روس کے صدر کا کہنا ہے کہ ’روس کی عوام ہمیشہ سچے محب وطنوں اور دھوکے باز اور غداروں میں فرق کر سکیں گے۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.