جنگ کے باعث سیاحت اور گھر بسانے کا خواب چِھن جانے کے بعد یوکرینی نوجوان کی ٹی وی شو میں محبت کی تلاش
کیئو میں گلابوں کے ایک باغ میں انھوں نے ایک فوجی سے سیبلرٹی بننے تک کے سفر کے متعلق بی بی سی سے بات کی ہے۔اولیکسینڈر کا کہنا ہے کہ گذشتہ جنوری میں اپنی گرل فرینڈ سے علیحدگی کے بعد انھیں امید ہے کہ اس شو میں انھیں محبت مل جائے گی تاہم وہ مانتے ہیں کہ جب ٹی وی سکرینوں کے ذریعے لاکھوں لوگوں کی نظریں آپ پر ہوں، ایسے میں ساتھی کا انتخاب کرنا مشکل ہو سکتا ہے۔شو میں ان کا مقصد اپنے لیے صرف ایک ساتھی کی تلاش نہیں ہے بلکہ وہ اس کے ذریعے معذور یوکرینوں کو درپیش چیلنجوں کے بارے میں آگاہی بھی فراہم کرنا چاہتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ اس شو کو لاکھوں لوگ دیکھتے ہیں اور یہ ناظرین تک اپنی بات مثبت انداز میں پہنچانے کا بہترین موقع فراہم کرتا ہے۔وہ یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ زخمی ہونے والے سابق فوجی باہر سے نہیں بلکہ وہ اسی معاشرے کا حصہ ہیں اور اچھی زندگی گزار رہے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ ’میری اب کی زندگی جنگ سے پہلے کی زندگی سے بہتر ہے، حتیٰ کہ یہ میرے زخمی ہونے سے پہلے والی زندگی سے بھی بہتر ہے۔‘
اولیکسینڈر ہمیشہ چلتے پھرتے اور کوئی نہ کوئی کام کر رہے ہوتے ہیں۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ گذشتہ رات وہ ایک میوزک ویڈیو کی شوٹنگ میں مصروف تھے۔تاہم ان کی زندگی ہمیشہ ایسی نہیں تھی۔ روس کے حملے سے پہلے وہ گرافک ڈیزائن کی تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ کیئو کے ایک ریستوران میں ویٹر کے طور پر کام کر رہے تھے۔وہ بتاتے ہیں کہ ان کے عام سے خواب تھے جن میں دنیا کا سفر کرنا، نئی جگہیں دیکھنا اور پیشہ ورانہ زندگی میں آگے بڑھنا شامل تھا۔ وہ شادی کرکے خاندان اور بچوں کے ساتھ زندگی گزارنے کے خواب دیکھتے تھے۔لیکن اولیکسینڈر کی زندگی دو سال پہلے اس وقت بدل گئی جب دو سال قبل روسی حملے کے بعد وہ بھی لاکھوں یوکرینوں کی طرح فوج میں شامل ہوئے۔اگست 2022 میں روسی پیش قدمی کے دوران وہ فرنٹ لائن پر ایک مقبوضہ شہر ایزیوم کے قریب تعینات تھے۔ اس شہر پر جنگ کے ابتدائی دنوں میں حملہ کیا گیا تھا اور روس نے مشرق سے اپنی فوج کو سپلائی برقرار رکھنے کے لیے اس شہر کو ایک اہم فوجی مرکز کے طور پر استعمال کیا۔،تصویر کا ذریعہWarner/STB Channelاس شہر کو یوکرینی فوج نے اولیکسینڈر کے زخمی ہونے کے ایک ماہ بعد آزاد کروا لیا تھا۔اس دن کے متعلق اولیکسینڈر بتاتے ہیں کہ میں نے ایسے محسوس کیا کہ جیسے زمین میرے اوپر ہے اور میں اس میں دھنس چکا ہوں۔ میری ٹانگوں میں شدید درد تھا اور تب ہی مجھے احساس ہوا کہ شاید میری ٹانگیں کٹ جائیں گی۔وہ کہتے ہیں کہ میں شدید درد سے چیخ رہا تھا اور چاہتا تھا کہ لوگ میری آواز سن کر مدد کے لیے آئیں۔
اولیکسینڈر کا کہنا ہے کہ انھیں معلوم تھا کہ ان کے ساتھی زندہ ہیں۔ انھوں نے ملبہ ہٹا کر اولیکسینڈر کو ابتدائی طبی امداد فراہم کی۔ لیکن اسی وقت انھیں احساس ہوا کہ ان کی ٹانگیں بری طرح زخمی ہیں۔’میں سمجھ گیا تھا کہ جب وقت مجھے شدید درد محسوس ہوا اس کے دو یا تین سیکنڈ بعد ہی میں نے اپنی ٹانگیں کھو دی تھیں۔‘اولیکسینڈر بچ گئے لیکن ایزیوم کا زیادہ تر حصہ کھنڈرات بن گیا۔ اس وقت حکام کا کہنا تھا کہ انھیں شہر کے قریب قبروں میں 400 سے زائد لاشیں ملی ہیں۔،تصویر کا ذریعہEPAاولیکسینڈر کے لیے صحت یابی کا سفر آسان نہیں رہا تاہم زخمی ہونے کے چھ ماہ کے اندر وہ مصنوعی ٹانگوں کے ساتھ چلنے کے قابل ہو گئے تھے۔وہ کہتے ہیں کہ ’جب تک میری مصنوعی ٹانگیں نہیں لگیں تھیں تب تک مجھے وہیل چیئر پر گھومنا پڑتا تھا۔ مجھے پتا چلا کہ کیئو جو ملک کا دارالحکومت ہے، یہ وہیل چیئر استعمال کرنے والوں کے لیے کتنا ناقابل رسائی شہر ہے۔‘وہ کہتے ہیں ’شہر کے پرانے تاریخی حصے میں آپ کہیں نہیں جا سکتے۔ آپ خود سڑک پار نہیں کر سکتے اور کسی عمارت کے اندر نہیں جا سکتے کیونکہ ہر جگہ سیڑھیاں ہیں۔‘اولیکسینڈر کا کہنا ہے کہ یوکرین میں جنگ سے زخمی ہونے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔اگرچہ جنگ کے دوران زخمی ہونے والے افراد کی تعداد کے بارے میں ابھی تک کوئی سرکاری اعداد و شمار موجود نہیں ہیں لیکن ایک اندازے کے مطابق دسیوں ہزاروں افراد اپنے جسمانی اعضا کھو چکے ہیں۔اسی باعث ایک علیحدہ رئیلٹی شو بنایا گیا ہے جس کا نام ’لیگز آف‘ یعنی ٹانگوں کے بغیر ہے۔ اس شو کو اولیکسینڈر پیش کرتے ہیں اور اس میں وہ یوکرین کے شہروں میں گھومتے پھرتے معذور افراد کو درپیش مشکلات کے متعلق بتاتے ہیں۔جنگ میں آنے والے زخموں سے صحت یابی کے دوران اولیکسینڈر نے اس شو کو پیش کرنے کے ساتھ ساتھ ایک کتاب بھی لکھی ہے، کئی کھیلوں میں متعدد تمغے جیتے ہیں اور امریکہ میں ایک بیلے ٹروپ کے ساتھ بھی پرفارم کیا ہے۔،تصویر کا ذریعہGetty Imagesوہ یوکرین میں اس قدر مقبول ہیں کہ جب بیچلرز نامی شو نے اعلان کیا کہ ’اولیکسینڈر آئندہ سیزن میں مرکزی کردار ادا کریں گے‘ تو اس کے فوراً بعد شو کا ایپلیکیشن پورٹل ہی کریش کر گیا۔دی بیچلر کے پروڈیوسر انھیں ایک ’امید کی کرن‘ کے طور پر کاسٹ کر رہے ہیں۔جس نیٹ ورک (ایس ٹی بی) پر یہ شو براڈکاسٹ ہو گا، اس سے منسلک نیٹلیا فرنچوک کہتی ہیں کہ ’اپنی ٹانگوں سے محروم ہو جانے کے باوجود اولیکسینڈر موٹر سائیکل چلاتے ہیں، کار چلا لیتے ہیں اور پہاڑوں پر بھی پہنچ جاتے ہیں۔ وہ بھرپور زندگی گزار رہے ہیں۔‘’اگر ٹیلی ویژن کا مقصد حقیقت دیکھانا ہے تو جنگ زدہ ملک میں بیچلر کا سٹار ان سے بہتر اور کون ہو سکتا ہے؟‘
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.