- مصنف, مائیکل شوفال اور عائشہ خیر اللہ
- عہدہ, بی بی سی عربی
- ایک گھنٹہ قبل
اسرائیل میں غمزدہ والدین کی ایک بڑھتی تعداد اپنے مردہ بچوں کی لاشوں سے سپرم حاصل کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے۔ مرنے والوں کی اکثریت فوجیوں پر مشتمل ہے اور والدین چاہتے ہیں کہ سپرم حاصل کر کے اسے منجمد کر دیا جائے۔ حماس کے سات اکتوبر کے حملے کے بعد اس حوالے سے بعض قوانین میں نرمی کی گئی ہے۔ تاہم خاندانوں کو اس بات کا غصہ ہے کہ سپرم کے استعمال کے لیے انھیں ایک مشکل قانونی عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔ ایوی ہاروش کہتے ہیں کہ فوجی افسران جب ان کے گھر آئے تو انھیں لگا کُچھ ’خوفناک یا انتہائی تکلیف دہ‘ ہونے والا ہے۔
ایوی ہاروش جب چھ اپریل 2024 کے دن اپنے 20 سالہ نوجوان بیٹے ریف کی ایک جھڑپ کے دوران ہلاکت کی خبر ملنے کے لمحے کو یاد کرتے ہیں تو ان کی آواز کانپ اُٹھتی ہے۔فوجی افسران نے انھیں ان کے بیٹے کی ہلاکت کی خبر دی اور ساتھ ہی ان سے پوچھا کہ وہ ریف کے سپرم حاصل کرنا چاہتے ہیں یا نہیں کیونکہ اس سب میں کُچھ وقت لگ سکتا ہے۔ایوی ہاروش نے فوراً ہی ہامی بھر لی کیونکہ ان کے مطابق ریف نے ’بھرپور زندگی گزاری تھی‘ تاہم اس ’ناقابلِ برداشت اور بڑے نقصان کے باوجود ہم نے زندگی کو چنا۔‘انھوں نے بتایا کہ ’ریف کو بچے بہت پسند تھے اور وہ چاہتے تھے کہ ان کے اپنے بھی بچے ہوں۔‘ایوی ہاروش بتاتے ہیں کہ ریف غیر شادی شدہ تھے اور ان کی کوئی گرل فرینڈ بھی نہیں تھی۔ تاہم جب انھوں نے ریف کی کہانی لوگوں کو سُنانی شروع کی تو کئی ایسی خواتین سامنے آئیں جنھوں نے ریف کے بچے کو جنم دینے کی خواہش کا اظہار کیا۔ایوی کہتے ہیں کہ ریف کے بچے کو اس دُنیا میں لانا اب اُن کی زندگی کا مقصد ہے۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.