یوکرین پر روس کا حملہ: جنگ کی فرنٹ لائن پر موجود پانچ یوکرینی خواتین کی کہانیاں
- ہیریئٹ اورل
- بی بی سی، عالمی سروس
یارینا اریوا کہتی ہیں کہ ’مجھے جس چیز سے پیار ہے وہ کئیو میں ہے، میں اس شہر کو نہیں چھوڑ سکتی‘
یوکرین کی خاتون اول نے اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر اسے ’خواتین کی مزاحمت‘ کا نام دیا ہے۔
یوکرین پر روسی حملے کے بعد صدر ولادیمیر زیلنسکی کی اہلیہ اولینا زیلنسکا سوشل میڈیا پر خواتین کی کوششوں کو نمایاں کرنے والی تصاویر شیئر کر رہی ہیں۔
اور اولینا اکیلی نہیں۔ فروری کے آخر سے سوشل میڈیا ایسی تصاویر سے بھرا پڑا ہے جن میں فوجی وردی میں ملبوس اور ہتھیار اٹھائے خواتین لڑائی کے لیے تیار نظر آتی ہیں۔
خاندان بکھر گئے ہیں۔ خواتین اور بچوں کی اکثریت حفاظت کے لیے مغربی ممالک کا رخ کر چکی ہے جبکہ کئی عورتوں کے شوہر اور باپ روسی حملوں کے دفاع کے لیے پیچھے رہ گئے ہیں۔
تاہم خطرے کے باوجود زیلنسکا سمیت بہت سی خواتین بھی پیچھے رہ گئی ہیں۔
ہم یہاں جنگ کی فرنٹ لائن پر موجود پانچ خواتین کی کہانیاں بیان کر رہے ہیں۔
کیرا رودک: ’میں ڈری ہوئی ہوئی ہوں لیکن مجھے غصہ بھی ہے‘
،تصویر کا ذریعہKira Rudik
رکن پارلیمنٹ ہونے کی وجہ سے کیرا رودک کو بھی حکومت کی طرف سے اسلحہ فراہم کیا گیا ہے
رکن پارلیمنٹ کیرا رودک کہتی ہیں کہ ’جنگ شروع ہونے سے پہلے تک مجھے کبھی بندوق کو ہاتھ تک لگانے کی ضرورت نہیں پڑی۔‘
’لیکن جب روس نے یوکرین پر حملہ کیا تو مجھے اتنا صدمہ ہوا کہ میں نے بندوق اٹھانے کا فیصلہ کیا۔‘
’یہ خاصی وزنی تھی اور اس میں سے دھاتوں اور تیل کی بو آ رہی تھی۔‘
رودک نے کیئو شہر میں ایک مزاحمتی گروہ بنا لیا ہے، اور یہ تمام خواتین مل کر یوکرین کے دارالحکومت کے دفاع کے لیے تربیت لے رہی ہیں۔
یہ بھی پڑھیے:
وہ جہاں موجود ہیں اس جگہ کا نام خفیہ رکھنا چاہتی ہیں کیونکہ خفیہ اداروں نے انھیں خبردار کیا ہے کہ وہ روسی صدر ولادیمیر پوتن کی ’کِل لسٹ‘ (ایسے افراد کی فہرست جنھیں پوتن نے مارنے کا حکم دے رکھا ہے) پر ہیں۔
اپنے یونٹ کے ساتھ علاقے کا گشت کرنے کے ساتھ ساتھ وہ پارلیمنٹ میں ’وائس پارٹی‘ کی رہنما کے طور پر بھی اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔
رودک کی بندوق اٹھائے ایک تصویر انٹرنیٹ پر بہت مشہور ہو چکی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ اس تصویر نے دوسری خواتین کی حوصلہ افزائی کی اور وہ بھی رودک کی پیروی کرتے ہوئے ہتھیار اٹھانے پر آمادہ ہوئی ہیں۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا ’مجھے خواتین کی طرف سے بہت سے پیغامات موصول ہوئے ہیں جن میں انھوں نے بتایا کہ وہ لڑ رہی ہیں۔‘
’ہمیں جنگ کے بارے میں کوئی وہم نہیں ہے، لیکن ہم سب جانتی ہیں کہ اپنی عزت، اپنے جسم اور اپنے بچوں کی حفاظت کے لیے ہمیں لڑنا ہے۔‘
’میں ڈری ہوئی ہوئی ہوں لیکن مجھے غصہ بھی ہے اور میرا خیال ہے کہ ملک کے لیے لڑنے کے لیے یہی بہترین موڈ ہے۔‘
عالمی بینک کے مطابق یوکرین میں رہنے والے چار کروڑ 40 لاکھ افراد میں سے دو کروڑ 30 لاکھ خواتین ہیں اور یوکرین ان ممالک میں شامل ہے جہاں مسلح افواج میں خدمات انجام دینے والی خواتین کی تعداد خاصی زیادہ ہے۔
یوکرین کی فوج کا کہنا ہے کہ ان کی افواج میں خواتین کی شرح 15.6 فیصد ہے۔ 2014 کے بعد سے یہ تعداد دگنی سے بھی زیادہ ہو گئی ہے۔
دسمبر میں کیے گئے ایک اعلان کے بعد اب یہ تعداد اور بھی زیادہ ہو سکتی ہے۔ اس اپیل میں اچھی صحت کی حامل 18-60 سال کی تمام خواتین کو فوج میں رجسٹر ہونے کی دعوت دی گئی تھی۔
لڑنے کے لیے پیچھے رہ جانے والی خواتین کی جان کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
روسیوں کے حملے کے بعد سے لڑائی میں کتنے لوگ مارے گئے ہیں، ابھی اس بارے میں درست معلومات میسر نہیں ہیں۔ لیکن یوکرینی حکام کا دعویٰ ہے کہ 24 فروری کے بعد سے اب تک ایک ہزار سے زیادہ شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔
ان اعداد و شمار کی تصدیق ممکن نہیں ہے لیکن اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق 8 مارچ تک 516 شہری مارے جا چکے تھے۔
دونوں فریقوں کے ہزاروں جنگجو ہلاک ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ بتایا جا رہا ہے کہ ہلاک ہونے والوں کی تعداد زخمیوں سے کہیں زیادہ ہونے کا امکان ہے۔
صدر زیلنسکی کے مطابق جنگ کے پہلے دو ہفتوں کے دوران 1300 یوکرینی فوجی مارے گئے ہیں۔
لڑائی کے قریبی علاقوں میں موجود بہت سے یوکرینی لوگ میزائلوں اور فضائی حملوں سے بچنے کے لیے اب تہہ خانوں اور زیر زمین میٹرو سٹیشنوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔
ہر طرف بلا امتیاز گولہ باری جاری ہے۔ ہر روز ایسی تصاویر اور ویڈیوز سامنے آتی ہیں جن میں گھروں سے لے کر ہسپتال تک تباہ ہو چکے ہیں اور جس محفوظ راستے پر انسانی ہمدردی کی بنیاد پر اتفاق کیا جا چکا ہے، اس راہدری کی پاسداری بھی نہیں کی جا رہی۔
جن لوگوں نے یوکرین کے جنگی علاقوں میں رہنے کا انتخاب کیا، یہی ان کی زندگی کی حقیقت ہے۔
مارہریتا ریواچینکو – ’کوئی ایسی جگہ نہیں تھی جہاں میں بھاگ کر جا سکوں‘
مارہریتا ریواچینکو نے بتایا کہ یہ پھول ان کی یونٹ نے خواتین کے عالمی دن پر دیے تھے
سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ عام عورتیں بھی اس لڑائی میں بطورِ رضاکار شامل ہیں۔
روسی حملے سے چند دن پہلے پی آر مینیجر مارہریتا ریواچینکو نے ہنگری کے شہر پوڈاپسٹ میں دوستوں کے ہمراہ اپنی 25ویں سالگرہ منائی۔
اب وہ روسی حملے کے دوران بجنے والے سائرن کی آوازوں کے ساتھ سونے کی عادی ہو گئی ہیں۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا، ’جب جنگ شروع ہوئی تو میرا خاندان خارخیو میں تھا اور میں کیئو میں اکیلی تھی۔ میرے پاس بھاگ جانے کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی۔‘
’میں شہر چھوڑ کر نہیں جانا چاہتی تھی، میں کچھ کرنا چاہتی تھی۔ اسی لیے میں نے اپنے علاقے کے دفاعی یونٹ میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا۔‘
ریواچینکو نے اپنی بٹالین میں ابتدائی طبی امداد دینے کا کورس کیا ہے اور اب وہ رضاکارانہ طور پر نرسنگ اسسٹنٹ کا کام کرتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں ’میں بہت خوفزدہ ہوں، میجھے اپنی زندگی بہت عزیز ہے اور میں جینا چاہتی ہوں ۔ ۔ ۔ لیکن اس کا انحصار اس جنگ پر ہے، اس لیے مجھے اسے ختم کرنے کے لیے کچھ کرنا چاہیے۔‘
یُستینا دوسن – ’میری ترجیح زندہ رہنا ہے‘
،تصویر کا ذریعہYustyna Dusan
جنگ سے پہلے یُستینا دوسن جانوروں کے حقوق کے لیے سرگرم رہتی تھیں لیکن اب کے پاس اس کام کے لیے وقت نہیں ہے
رضاکار فوج میں ہر کسی کو شامل نہیں کیا جا سکتا کیونکہ پہلے ہی رضاکاروں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور اکثریت کے پاس ضروری حفاظتی اقدامات کا تجربہ نہیں ہے۔
یُستینا دوسن پیشے کے لحاظ سے انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) کی کنسلٹنٹ ہیں لیکن اب جنگ کے لیے تیار ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے بحفاظت لویو پہنچا دیا گیا ہے کیونکہ ہتھیاروں اور اپنی کار کے بغیر میں لئیو میں مؤثر ثابت نہیں ہو سکتی تھی۔‘
’اسی لیے میں اس محفوظ علاقے میں رضاکارانہ خدمات سرانجام دے رہی ہوں تا کہ میں یہاں سے ہتھیار اور انسانی امداد جمع کر کے اگلے محاذ تک پہنچانے میں مدد کر سکوں۔‘
جنگ سے پہلے دوسن جانوروں کے حقوق کی سرگرم کارکن تھیں، لیکن اب ان میں ہمت نہیں رہی کہ وہ جانوروں کی فکر کر سکیں۔‘
’ یہ بہت بڑا سانحہ ہے کہ کئی شہروں میں جانوروں کو بے یارومددگار مرنے کے لیے چھوڑا جار رہا ہے۔ لیکن اس وقت میری ترجیح زندہ رہنا ہے تاکہ میں اپنی ان مسلح افواج کی مدد کر سکوں جنھوں نے آخری وقت تک کھڑے رہنا ہے۔ ‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہمارے بچے مر رہے ہیں، اور وہ (روسی) ہر ایک یوکرینی کو مار دینا چاہتے ہیں۔ ہم ان حالات میں خود کو بہت تنہا محسوس کر رہے ہیں۔‘
’میں صرف اتنا چاہتی ہوں کہ ہمیں مارا نہ جائے۔‘
اولینا بیلٹسکی ۔ میں چاہتی ہوں میری بیٹی ایک آزاد یوکرین میں پیدا ہو‘
اولینا بیلٹسکی سنہ 2014 سے عام شہریوں کو فوجی تربیت دینے کا کام کر رہی ہیں
سابقہ وکیل، اولینا بیلٹسکی کا گھرعملی طور پراب خواتین کی رضاکار تنظیم، یوکرین وومنز گارڈ‘ کا ہیڈکوارٹر بن چکا ہے۔
اولینا چھ ماہ کے حمل سے ہیں اور انھوں نے اپنے شہر کے دفاع کے لیے اپنے شوہر اور 11 اور 16سالہ بیٹیوں کے ساتھ کئیو میں ہی رکنے کا فیصلہ کیا۔
انھوں نے بتایا کہ ’ہم پورے ملک میں خواتین کی مزاحمت کا اہتمام کر رہے ہیں۔‘
’شہر میں رہ کر لڑنے کا فیصلہ پورے خاندان کا فیصلہ تھا، کیونکہ ہم (روسی) قبضے میں نہیں رہنا چاہتے۔‘
’یہ سوال ہے غلامی اور آزادی کا، اور ملک بھر میں خواتین کے یہی جذبات ہیں۔ اس لیے ہم جب تک ممکن ہے ہم لوگ کئیو میں رہیں گے۔‘
اولینا اور ان کے شہر اولیکسندر عام شہریوں کو جنگ کے لیے تیار کر رہے ہیں، جو کہ نہ صرف جسمانی بلکہ نفسیاتی طور پر بہت مشکل کام ہے۔
یہ دونوں عام لوگوں کو بوتل والے بم بنانے کے علاوہ، بندوق چلانے اور 33 مختلف زبانوں میں اپنی ویب سائیٹ پر معلومات شائع کرنے کی تربیت فراہم کر رہے ہیں۔
اس کے علاوہ ان کی تنظیم کئیو میں مختلف مقامات پر کمیائی مادے سے لگائے گئے نشانات کو تلاش کر کے ختم کرنے کا کام بھی کر رہے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ روسی فوجی کئیو شہر اور دیگر علاقوں میں اہم تنصیبات وغیرہ پر الٹروائیلٹ نشانات لگ رہے ہیں تاکہ انھیں میزائلوں کا نشانہ بنایا جا سکے اور چھاتہ بردار روسی فوجیوں کو اندھیرے میں بھی معلوم ہو سکے کہ انھوں نے کہاں اترنا ہے۔ اسی قسم کا ایک الٹراوائلٹ آلہ اولینا کو اپنے گھر کے باغ میں بھی ملا تھا۔
اولینا کہتی ہیں کہ ’شروع کے چند دن خوف اور ذہنی دباؤ کے دن تھے، لیکن اب خوف نہیں رہا، اب صرف دشمن کو شکست دینے کی خواہش بچی ہے۔‘
’میں فرار نہیں ہونا چاہتی اور نہ ہی میں اس کا کوئی منصوبہ بنانا چاہتی ہوں۔‘
’میں نہیں جانتی کہ ہم زندہ رہیں گے لیکن میں اس خواب کے ساتھ زندہ رہنا چاہتی ہوں کہ میری تیسری بیٹی ایک آزاد یوکرین میں پیدا ہو۔‘
ہارینا اریوا – ’مجھے اپنی جان کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔‘
یارینا اریوا اور فرسن نے اسی روز شادی کی جب روسی فوجیں یوکرین میں داخل ہوئیں
پوتن نے جس صبح یوکرین پر چڑہائی کی، اس وقت یارینا کے ذہن پر ایک ہی چیز سوار تھی، چنانچہ انھوں نے شادی کا فیصلہ کر لیا۔
وہ ایک عرصے سے اپبے بوائے فرینڈ، اور موجود شوہر سویاتوسلوو فُرسن سے الگ رہ رہی تھیں اور ان دونوں کی خواہش تھی کہ جب تک جنگ جاری رہتی ہے یہ دونوں اکھٹے ہی رہیں۔
چنانچہ اس نوبیاہتا جوڑے نے کئیو کا دفاع کرنے کے لیے رضاکار فوج میں شمولیت کا فیصلہ کر لیا۔
یارینا کے بقول ’میں اپنے ملک اور شہر کو بچانے کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہوں۔‘
’میری جائداد یہاں ہے، میرے والدین یہاں ہیں، اور میری بلی بھی یہاں ہے۔ مجھے جس چیز سے بھی پیار ہے، وہ سب یہاں پر ہیں۔ اس لیے میں کئیو سے نہیں جا سکتی اور اگر مجھے اس کے لیے لڑنا پڑا تو میں لڑوں گی۔‘
یارینا کئیو کی سِٹی کونسل میں کام کرتی ہیں، جس وجہ سے انھیں حکومت کی طرف سے بندوق بھی دی گئی اور زرہ بکتر یا حفاظتی لباس بھی۔ اس کے بعد وہ اپنے شوہر کے ساتھ رضاکار فوج کی بیرک میں منتقل ہو گئیں، لیکن ابھی تک ان کا تجربہ اتنا نہیں ہوا ہے کہ انھیں کسی مشن پر بھیجا سکتا۔
یہی وجہ ہے کہ وہ کئی دن تک اپنے شوہر کا انتظار کرتی رہتی ہیں جو فرنٹ لائن پر لڑنے جاتے ہیں۔ یارینا کا تمام دن دعائیں کرتے، بے چینی میں سگریٹ پیتے اور دوسرے کام کرتے گزر جاتا ہے۔
21 سالہ یارینا کہتی ہیں کہ ’شروع سے پہلے مجھے ہر چیز سے ڈر لگتا تھا۔ مجھے کُتوں سے، اندھیرے سے ڈر لگتا تھا۔ لیکن اب میرے ذہن میں صرف یہی خوف ہے کہ میرے شوہر کو کچھ نہ ہو جائے۔ مجھے اپنی پرواہ نہیں ہے۔‘
،تصویر کا ذریعہYaryna Arieva
یارینا کے شوہر کو گزشتہ ہفتوں میں دو مرتبہ اگلے محاذ پر لڑنے کے لیے بھیجا چکا ہے
خطرناک کام
اگلے محاذ پر بھیجے جانے والے رضاکار فوجی بھی مارے جا رہے ہیں، جن میں خواتین بھی شامل ہیں۔
24 فروری کو جب پہلی مرتبہ روسی ٹینک سرحد عبور کر کے یوکرین میں داخل ہوئے تھے تو سابقہ فوجی خاتون 52 سالہ اریانا سویلا کئیو میں ماری گئی تھیں۔ وہ پانچ بچوں کی ماں تھیں۔ وہ اپنے شوہر دیمترو کے ساتھ شہر کی حفاظت پر معمور تھیں۔ اطلاعات کے مطابق ان کے شوہر بھی اسی دن مارے گئے تھے۔
اس کے ایک ہفتے بعد جب 26 سالہ انستازیا یلنسکیا اور ان کے دو ساتھی ایک کار میں کئیو کے نواح میں جانوروں کو خوراک دینے جا رہے تھے تو ان کی کار پر حملہ ہوا اور وہ تینوں ہلاک ہو گئے۔
جانوروں کی اس پناہگاہ میں رکھے گئے کُتوں کو تین دن سے کھانا نہیں ملا تھا اور اطلاعات کے مطابق انستازیا نے علاقے سے نکلنے سے انکار کر دیا تھا۔ ان کا اصرار تھا کہ وہ کُتوں کو یوں بھوکا نہیں چھوڑ سکتیں۔
اس کے علاوہ امریکی امدادی ادارے یو ایس ایڈ کے مطابق ان کی ایک نوجوان رضاکار خاتون ولیریا کو ایک روسی ٹینک سے اس وقت نشانہ بنایا گیا جب وہ کار میں اپنی والدہ کے لیے دوا لینے جا رہی تھیں
چند ہی دن بعد ان کی 23ویں سالگرہ تھی۔
Comments are closed.