جنوبی کوریا کے سیاستدان مردوں میں خودکشی کے رحجان کا ذمہ دار خواتین کو کیوں ٹھہرا رہے ہیں؟،تصویر کا ذریعہGetty Images
،تصویر کا کیپشنپروفیسر سونگ کا کہنا ہے کہ مردوں میں بڑھتے ہوئے خودکشی کے رجحان کا سائنسی تجزیہ کیا جانا چاہیے

  • مصنف, جین میکنزی
  • عہدہ, بی بی سی نیوز، سیول
  • ایک گھنٹہ قبل

جنوبی کوریا میں ایک سیاستدان نے مردوں میں بڑھتے ہوئے خودکشی کے رجحان کا ذمہ دار معاشرے میں خواتین کی بڑھتی ہوئی ’برتری‘ کو قرار دیا ہے اور اپنے اس خطرناک اور غیرمصدقہ تبصرے پر وہ ہدفِ تنقید بھی بنے ہوئے ہیں۔اپنی ایک رپورٹ میں سیول سٹی کے کونسلر کم کی ڈک نے لکھا کہ گذشتہ چند برسوں میں ملازمت کرنے والوں میں خواتین کی بڑھتی ہوئی تعداد کے سبب مردوں کو ملازمتیں اور شادی کے لیے لڑکیاں ڈھونڈنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ حالیہ دنوں میں ’ہمارے معاشرے میں خواتین کا غلبہ‘ ہو گیا ہے اور شاید اسی سبب ’مردوں میں خودکشی کا رجحان بڑھ رہا ہے۔‘دنیا کے امیر ملکوں میں جنوبی کوریا ایک ایسا ملک ہے جہاں خودکشی کی شرح زیادہ پائی جاتی ہے اور معاشرہ جنسی طور پر عدم توازن کا شکار ہے۔

کونسلر کم کی ڈک اپنے تبصرے کے سبب تنقید کی زد میں ہیں اور ان کے اس بیان کو مرد سیاستدانوں کے خواتین مخالف بیانات کی کڑی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے کونسلر کم کی ڈک اس نتیجے پر اس وقت پہنچے جب وہ سیول کے دریائے ہان پر ہونے والی خودکشی کی کوششوں کا تجزیہ کر رہے تھے۔سٹی کونسل پر چھپنے والی رپورٹ کے مطابق 2018 میں ہان ریور پر خودکشی کی کوشش کرنے والے افراد کی تعداد 418 تھی جو 2023 میں بڑھ کر 1 ہزار 35 تک پہنچ گئی ہے۔رپورٹ کے مطابق جن افراد نے خودکشی کی کوشش کی ان میں مردوں کا تناسب 67 سے 77 فیصد کے درمیان ہے۔خودکشی کی روک تھام کے لیے کام کرنے والے ماہرین نے کونسلر کم کی ڈک پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

سیول کی ایک یونیورسٹی سے منسلک دماغی صحت کی پروفیسر سونگ اِن ہان نے بی بی سی کو بتایا کہ ’بغیر مصدقہ شواہد کے ایسے دعوے خطرناک اور غیردانشمندانہ عمل ہے۔‘انھوں نے کہا کہ بین الاقوامی طور پر خواتین کے مقابلے میں مردوں نے اپنی جانیں زیادہ لی ہے۔ برطانیہ سمیت متعدد ممالک میں 50 سال سے کم عمر مردوں میں موت کا سب سے بڑا سبب خودکشی ہے۔پروفیسر سونگ کا کہنا ہے کہ مردوں میں بڑھتے ہوئے خودکشی کے رجحان کا سائنسی تجزیہ کیا جانا چاہیے اور یہ ایک ’افسوسناک‘ بات ہے کہ کونسلر کم ان ڈک نے اسے جنسی تنازع کا حصہ قرار دے دیا ہے۔جنوبی کوریا میں فُل ٹائم ملازمتوں پر نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ وہاں مرد اور عورت ملازمین کی تعداد میں توازن نہیں ہے، زیادہ تر خواتین عارضی یا پارٹ ٹائم نوکریاں کرتی ہیں۔ملک میں مردوں اور عورتوں کے درمیان پایا جانے والا عدم توازن بھی آہستہ آہستہ کم ہو رہا ہے لیکن اس کے باوجود بھی اوسطاً خواتین کو مردوں کے مقابلہ میں 29 فیصد کم تنخواہ دی جاتی ہے۔حالیہ برسوں میں مایوس نوجوانوں کی طرف سے ایک اینٹی فیمنسٹ تحریک چلائی گئی ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ خواتین کی زندگیاں بہتر کرنے کی کوششوں کے سبب مردوں کو نقصان ہوا ہے۔کونسل کم ان ڈک کی رپورٹ بھی ایسے ہی خیالات کا عکس معلوم ہوتی ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’خواتین کے غلبے کے رجحان‘ پر قابو پانے کے لیے جنسی برابری کے حوالے سے لوگوں کو آگاہی دینی ہوگی تاکہ ’مرد اور عورت برابری کی سطح پر مواقع حاصل کر سکیں۔‘جنوبی کوریا میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے سوشل میڈیا پر کونسلر کم ان ڈک کی مخالفت کی ہے اور کہا ہے کہ ان کا بیان’غیر مستند‘ اور ’عورت سے نفرت‘ کو تقویت دینے کے مترادف ہے۔بی بی سی کے رابطہ کرنے پر کونسلر کم ان ڈک نے کہا ان کا ’ارادہ خواتین کی برتری والے معاشرے کی مخالف کرنے کا نہیں تھا‘ اور وہ بس اس کے ممکنہ نتائج پر اپنا ذاتی خیال پیش کر رہے تھے۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Imagesاس سے قبل بھی جنوبی کوریا میں مرد سیاستدانوں کی جانب سے خواتین کے متعلق بیانات دیے جاتے رہے ہیں۔گذشتہ مہینے سیول کے ایک اور کونسلر کی طرف سے بھی سرکاری ویب سائٹ پر مضامین چھاپے گئے تھے جن میں کہا گیا تھا کہ خواتین جمناسٹک میں حصہ لیں اور بچوں کی ولادت کی شرح بڑھانے کے لیے ورزش کریں۔اسی دوران ایک سرکاری تھنک ٹینک نے تجویز کی کہ لڑکیوں کو لڑکوں کے مقابلے میں پہلے سکول بھیجا جانا چاہیے تاکہ شادی کی عمر تک پہنچنے تک کلاس فیلوز ایک دوسرے کی طرف مائل ہوتے رہیں۔کورین ویمن ٹریڈ یونین کی ڈائریکٹر یوری کم کہتی ہیں کہ ’ان بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ جنوبی کوریا میں عورت سے نفرت کتنی بڑھ چکی ہے۔‘انھوں نے دعویٰ کیا کہ سیاستدان اور پالیسی ساز خواتین کو درپیش چیلنجر کو سمجھنے کی کوشش بھی نہیں کر رہے بلکہ انھیں قربانی کا بکرا بنا رہے ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ملازمتیں اختیار کرنے پر خواتین پر الزامات لگانے سے صرف معاشرے میں عدم توازن بڑھے گا۔‘اس وقت جنوبی کوریا کی پارلیمنٹ میں خواتین کی تعداد 20 فیصد جبکہ سیول سٹی کونسل میں ان کی تعداد 29 فیصد ہے۔سیول کی سٹی کونسل نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے پاس کوئی ایسا طریقہ نہیں جس سے وہ سیاستدانوں کے ویب سائٹ پر چھپنے والے مواد کو ایڈٹ کرسکیں، ایسا اس ہی صورت میں ممکن ہے جب حھاپا گیا مواد غیر قانونی ہو۔بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ سیاستدان اپنے پیش کیے گئے مواد کے خود ہی ذمہ دار ہیں اور اس کے نتائج انھیں اگلے انتخابات میں بھگتنے پڑیں گے۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}