- مصنف, ریچل لی
- عہدہ, بی بی سی کورئین سروس
- مقام سیول
- ایک گھنٹہ قبل
سورج نکلا ہوا تھا لیکن اپریل کی اس صبح جنوبی کوریا کے سیوکموڈو جزیرے پر اب بھی ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں۔سمندر کے کنارے پر پارک جنگ اوہ کھڑے تھے اور بے تابی کی حالت میں پانی میں چاولوں سے بھری بوتلیں پھینک رہے تھے۔ ان بوتلوں کی منزل شمالی کوریا تھی۔پارک جنگ اوہ یہ بوتلیں تقریباً پچھلی ایک دہائی سے شمالی کوریا کی طرف بھیج رہے ہیں لیکن وہ یہ سب کھلے عام نہیں کرسکتے تھے کیونکہ جون 2020 میں جنوبی کوریا نے سرحد کی دوسری طرف شمالی کوریا مخالف مواد بھیجنے پر پابندی عائد کردی تھی۔گذشتہ برس ستمبر میں جنوبی کوریا کی ایک آئینی عدالت نے اس پابندی کو ختم کردیا تھا۔
پارک جنگ اوہ کی عمر 56 برس ہے اور وہ کہتے ہیں کہ ’ہم یہ بوتلیں اس لیے بھیج رہے ہیں کیونکہ اسی قوم کے لوگ دوسری طرف بھوک سے مر رہے ہیں۔ اس میں غلط کیا ہے؟‘پابندی ختم ہونے کے باوجود بھی پارک جنگ اوہ چاہتے تھے کہ ان کی سرگرمیوں پر لوگوں کی توجہ کم سے کم رہے۔ انھوں نے مہینوں انتظار کیا اور آخر کار 9 اپریل کی صبح انھوں نے دن کی روشنی میں چاول کی بوتلوں کو شمالی کوریا کی طرف بھیجنے کا فیصلہ کیا۔اس دن بتایا گیا تھا کہ سمندر میں لہریں تیز ہوں گی جس کا مطلب یہ تھا کہ ان بوتلوں کے شمالی کوریا پہنچنے کے امکانات زیادہ ہیں۔پارک جنگ اوہ کہتے ہیں کہ ’میں اپنی سرگرمیوں کا دوبارہ آغاز کر رہا ہوں۔‘پارک جنگ اوہ کے والد شمالی کوریا کے جاسوس تھے لیکن انھوں نے 26 سال پہلے جنوبی کوریا کی طرف فرار ہونے کا فیصلہ کیا۔ ان کے اس فیصلے کے سبب پارک جنگ اوہ اور پورے خاندان کو بھی جنوبی کوریا آنا پڑا۔شمالی کوریا نے ان کے خلاف ایک منظم مہم کا آغاز کیا اور اعلان کیا کہ وہ ان تمام لوگوں کا پیچھا نہیں چھوڑیں گے۔جب پارک جنگ اوہ شمالی کوریا میں مقیم تھے تو وہ اکثر بھوک کے سبب ہلاک ہونے والے افراد کی لاشیں سڑکوں پر پڑی دیکھا کرتے تھے۔لیکن وہ اس وقت حیران رہ گئے جب تواتر سے چین جانے والی ایک مذہبی شخصیت نے انھیں بتایا کہ شمالی کوریا میں مسلح فوجی اہلکار ہوانگہائے صوبے میں گُھس آتے ہیں اور تمام اناج لے جاتے ہیں، جس کے سبب وہاں کسان بھوک سے مر رہے ہیں۔اس سے قبل چاول اُگانے والے سب سے بڑے علاقے میں کسی کے بھوک سے مرنے کی خبر پارک جنگ اوہ نے نہیں سُنی تھی۔،تصویر کا ذریعہJungmin Choi / BBC Korean
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.