جنوبی غزہ کے وہ ’محفوظ‘ مقامات جہاں پر اسرائیلی فوج نے حملے کیے

غزہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, میرلن تھامس، شیرین شریف اور احمد نور
  • عہدہ, بی بی سی ویری فائی اور بی بی سی عریبک

اسرائیل کی جانب سے شمالی غزہ پر حملوں اور شہریوں کی ہلاکت کے بعد اسرائیلی فوج نے شہریوں کو شمالی غزہ سے انخلا کی متعدد ہدایات کیں، جس کے بعد غزہ کے لاکھوں شہری اس پٹی کے جنوب میں منتقل ہو چکے ہیں۔

لیکن جنوبی غزہ میں بھی اسرائیلی بمباری کا سلسلہ جاری ہے، جس کی وجہ سے اقوام متحدہ اور دیگر امدادی تنظیموں نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں کوئی بھی جگہ عام شہریوں کے لیے محفوظ نہیں۔

جنوبی غزہ میں اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں شہریوں کو درپیش خطرات کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے بی بی سی نے اس خطے میں ہونے والے چار حملوں کا جائزہ لیا۔

ہم نے چند ایسی تنبیہات اور ہدایات کا بھی جائزہ لیا، جو غزہ کے شہریوں کے لیے جاری کی گئی تھیں جن میں سے کچھ وہ تھیں جن میں انھیں جنوبی غزہ کے چند مخصوص علاقوں میں جانے کو کہا گیا تھا۔

ان میں سے کچھ تنبہیات میں نقشے بھی جاری کیے گئے تھے جن پر اشاروں کی مدد سے بتایا گیا تھا کہ انھیں حملوں سے محفوظ رہنے کے لیے کن علاقوں کی طرف جانا ہے مگر ہم نے ایسے تین حملوں کی نشاندہی کی ہے جو وارننگ دیے جانے کے باوجود انہی علاقوں یا ان کے قریب ہوئے ہیں۔

اسرائیلی ڈیفنس فورسز نے کہا ہے کہ وہ غزہ کے شہریوں کے ساتھ مختلف طریقوں سے رابطے کرتے ہیں۔ جن میں کتابچے پھینکنا، عربی زبان میں سوشل میڈیا پوسٹس کرنا اور سویلین اور بین الاقوامی تنظیموں کے ذریعے تنبیہات جاری کرنا ہے۔

اس تحریر میں ہم نے سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی اسرائیلی فوج کی ہدایات کا جائزہ لیا ہے۔

10 اکتوبر، خان یونس پر حملہ

غزہ

اسرائیلی فوج نے 10 اکتوبر کو کہا تھا کہ اس کے لڑاکا طیاروں نے رات کو غزہ کے شمالی علاقے رمل اور جنوب میں خان یونس میں 200 سے زیادہ اہداف کو نشانہ بنایا۔

بی بی سی نے اس دن خان یونس کے وسط میں ہونے والے حملے کی جگہ اور بڑے پیمانے پر ہونے والے نقصان کا جائزہ لیا ہے۔

حملے کے بعد جاری ہونے والی فوٹیج میں شہر کے مرکز میں ملبے اور منہدم عمارتوں کو دکھایا گیا۔ ہم نے ویژوئل اشاروں کا استعمال کرتے ہوئے اس کے مقام کی تصدیق کی ہے جیسا کہ خان یونس کی جامع مسجد کے مینار وغیرہ۔

ہم نے تباہ حال عمارتوں اور لوگوں کو ملبے تلے دبی گاڑیاں اور گھروں سے چیزیں نکالتے ہوئے جاری تصاویر کا بھی جائزہ لیا، جس کے بعد ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ تصاویر اور جاری ویڈیو ایک ہی مقام کی ہیں کیونکہ دنوں میں ایک ہی فارمیسی کا بورڈ دکھائی دے رہا ہے۔ اس کے لیے ہم نے ریورس امیج سرچ کا بھی استعمال کیا تاکہ اس بات کی تصدیق کی جا سکے کہ یہ کسی پہلے پیش آئے واقعے کی تصاویر تو نہیں۔

آٹھ اکتوبر کی صبح اسرائیلی فوج کے ترجمان آویچی آدرے نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر عربی زبان میں ایک تنبیہ پوسٹ کرتے ہوئے غزہ کے محتلف علاقوں کے رہائشیوں کو ہدایات دی تھیں کہ وہ اپنے گھروں سے نقل مکانی کرتے ہوئے اپنی حفاظت کے پیش نظر کہیں اور چلے جائیں۔

اگرچہ انخلا کے علاقوں کو اکثر واضح طور پر بیان کیا جاتا ہے لیکن وہاں کے رہائشیوں کو اکثر زیادہ مبہم انداز میں محفوظ علاقوں کے بارے میں بتایا گیا۔

اس واقعے میں وہ لوگ جو اباسان الکبیرہ اور اباسان الصغیرہ میں رہائشی پذیر تھے، انھیں آٹھ اکتوبر کو واضح طور پر کہا گیا کہ وہ ’وہاں سے نکل کر خان یونس کے وسط میں چلے جائیں۔‘

دونوں علاقوں میں رہنے والوں کے لیے ٹویٹ کی گئی ویڈیو میں شامل نقشہ ان کی موجودہ رہائش گاہوں کو نمایاں کرتا ہے، اور اس پر ایک تیر کا نشان لگا ہوا ہے جو صرف خان یونس کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔

ہم اس امکان کو رد نہیں کرتے کہ اس کے بعد ان شہریوں کو کوئی اور ہدایات دی گئی ہوں لیکن بی بی سی کو ایسی کوئی ہدایات کے شواہد نہیں ملے۔

11 اکتوبر رفح پر حملہ

غزہ

بی بی سی نے ایسے ہی ایک اور حملے کی تصدیق کی ہے۔ اگلے دن یعنی 11 اکتوبر کو مزید جنوب کی طرف مصر کی سرحد سے ملحقہ علاقے رفح کے وسط میں نجمہ سکوائر پر ایک اور حملہ ہوا۔

بی بی سی نے سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو کو دیکھا جس میں حملے کے نتیجے میں ہونے والی تباہی کو دکھایا گیا۔ حملے سے پہلے سکوائر کی دستیاب تصاویر کا استعمال کرتے ہوئے، ہم نجمہ سکوائر کے اطراف عمارتوں کو پہچاننے میں کامیاب ہوئے۔

آٹھ اکتوبر کو ہی اسرائیلی فوجی کی جانب سے جاری وارننگ میں رفح کے باسیوں کے لیے بھی ہدایات تھیں جن میں انھیں فوری طور پر رفح شہر کے وسط میں ایک پناہ گزین کیمپ میں ’اپنی حفاظت کے لیے‘ جانے کو کہا گیا تھا۔

ویڈیو میں دکھائے گئے نقشے میں رفح کے ارد گرد رہنے والوں کو تیر کا نشان لگا کر رفح جانے کے لیے کہا گیا تھا۔

بی بی سی نے عربی زبان میں جاری کردہ اسرائیلی فوج کی تمام سوشل میڈیا انتباہی پوسٹس کا تجزیہ کیا، جو اس عرصے کے دوران جاری کی گئی۔

بی بی سی اس کے بعد کسی مختلف ہدایات جاری ہونے کے ثبوت تلاش کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا لیکن ہم اس امکان کو رد نہیں کرتے کہ کوئی اور ہدایات جاری کی گئی ہوں۔

19 اکتوبر خان یونس پر حملہ

غزہ

آٹھ دن بعد خان یونس کی گمال عبدالنصر سٹریٹ کے علاقے پر دوبارہ ایک حملہ ہوتا ہے۔

ہم نے شہر کے اہم راستوں میں سے ایک میں منہدم عمارتوں کی ویڈیوز دیکھ کر اس کی تصدیق کی۔ ویڈیو میں موجود عمارتوں کو، اسی جگہ کی دیگر تصاویر کے ساتھ ملا کر ہم اس بات کی تصدیق کرنے میں کامیاب ہو گئے کہ یہ وہی جگہ تھی۔

اس کے بعد کی اضافی فوٹیج میں دکھایا گیا ہے کہ مرنے والوں اور زخمیوں کی لاشوں کو ملبے سے نکال کر قریبی النصر ہسپتال لے جایا جا رہا ہے۔

اسرائیلی فوج نے 16 اکتوبر کو غزہ شہر کے رہائشیوں کو خان یونس کے جنوب میں منتقل ہونے کی وارننگ جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’اگر آپ کو اپنی اور اپنے پیاروں کی حفاظت عزیز ہے تو اس طرف چلے جائیں۔‘

یہاں بھی امکان ہے کہ بعدازاں کوئی اور ہدایات جاری کی گئی ہوں لیکن ہمیں اس حملے سے قبل بھی کسی اور ہدایات یا وارننگ کے شواہد نہیں ملے۔

یہ بھی پڑھیے

17، 18 اور 25 اکتوبر کو وسطی غزہ کے کیمپوں پر حملے

وسطی غزہ کے شمال میں چار پناہ گزین کیمپ ہیں۔ بی بی سی نے ان میں سے دو پر حملوں کی تصدیق کی ہے۔ 17 اکتوبر کو البوریج کیمپ پر ہونے والے حملے کے بعد کی سوشل میڈیا فوٹیج میں بڑے پیمانے پر ملبہ، آگ کے شعلے اور خون آلود لاشیں دیکھی جا سکتی ہیں۔

ہم نے اس فوٹیج میں عمارتوں کو اس کے بعد کی خبر رساں ایجنسیوں کی تصاویر کے ساتھ ملا کر فوٹیج کی تصدیق کی۔ ہم نے نظر آنے والی مسجد کا استعمال کرتے ہوئے فوٹیج کے مقام کی بھی تصدیق کی۔

اس کے اگلے ہی دن یعنی 18 اکتوبر کو اس کے قریب ہی واقع ایک اور کیمپ النصرت پر حملہ کیا گیا۔

ہم نے اس کے بعد کی سوشل میڈیا فوٹیج کی تصدیق کی ہے، جس میں ایمبولینس، عمارتوں کا ملبہ، آگ بجھانے کی کوشش کرتے ہوئے لوگ اور تباہ شدہ بیکری کو دکھایا گیا ہے۔ ہم نے اس کا پتا ان دکانوں کے ناموں سے ملایا جو حملے سے قبل جاری ہونے والی تصاویر اور ویڈیو میں دیکھی جاسکتی ہیں۔

غزہ

آٹھ اکتوبر کی قبل ازیں وارننگ کے باوجود مشرقی اور جنوبی مغازی کے علاقے کے مکینوں کو وسطی غزہ میں کیمپوں میں جانے کی ہدایت کی ٹویٹ میں جاری نقشے پر بتائی گئی جگہ پر کوئی کیمپ دکھائی نہیں دیتا۔

ہم نے البتہ تین قریبی کیمپوں کی نشاندہی کی ہے جن میں النصرت کیمپ اور البیروج کیمپ پر 17 اور 18 اکتوبر پر حملے کیے گئے اور ایک اور کمپ دارالبلاہ پر بھی حملہ کیا گیا۔

ہم دوبارہ اس بات کا امکان رد نہیں کرتے کے بعدازاں کوئی مختلف ہدایات جاری کی گئی لیکن بی بی سی کو اس کے کوئی شواہد نہیں ملے۔

النصرت کیمپ پر ایک اور حملے کے بعد کی تباہی کو 25 اکتوبر کو الجزیرہ پر دکھایا گیا۔

آن لائن پوسٹ کی گئی فوٹیج میں دکھایا گیا کہ الجزیرہ کے غزہ کے چیف نمائندے وائل الدہدوہ ہسپتال میں اپنی سات سالہ بیٹی کی لاش کو تھامے ہوئے اور اپنے نوعمر بیٹے کی لاش پر گھٹنوں کے بل بیٹھے رو رہے ہیں۔ اس حملے میں ان کی اہلیہ بھی ہلاک ہو گئی۔

انھوں نے الجزیرہ کے ساتھ انٹرویو کے دوران انگریزی میں کہا کہ ’غزہ میں کوئی بھی جگہ محفوظ نہیں۔‘ انھوں نے کہا کہ اسرائیل کی جانب سے رہائشیوں کو ان کی حفاظت کے لیے جنوب کی طرف جانے کی انتباہ کے بعد ان کا خاندان شمال سے منتقل ہوا تھا۔

GAZA

،تصویر کا ذریعہGetty Images

اسرائیلی فوج کا موقف

بی بی سی نے اس تحریر میں جائزہ لیے گیے حملوں کے حوالے سے اسرائیلی فوج کو مخصوص مقامات اور تاریخیں فراہم کیں۔

ہم نے پوچھا کہ کیا ان مقامات پر اسرائیلی فوج نے حملہ کیا تھا اور کیا ان حملوں سے پہلے وارننگ دی گئی تھی۔

اپنے جواب میں اسرائیلی فوج نے کہا کہ وہ ’ان مخصوص مقامات کے بارے میں مزید معلومات فراہم نہیں کر سکتی۔‘

اسرائیلی فوج نے کہا کہ اس نے ’غزہ کے شہریوں سے کہا ہے کہ وہ اپنی حفاظت کے لیے جنوب کی طرف بڑھیں لیکن غزہ کے تمام حصوں میں دہشتگردوں کے ٹھکانوں پر حملے جاری رکھیں گے۔‘

اسرائیلی فوج کا مزید کہنا ہے کہ ’بین الاقوامی قانون کے مطابق، اسرائیلی افواج شہری آبادی کو نقصان سے بچانے کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرتی ہیں۔ ان اقدامات میں ایسے معاملات میں جہاں ایسا کرنا ممکن ہو، حملوں سے پہلے وارننگ دینا شامل ہیں۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ