جنس کی تبدیلی اور نیا پاسپورٹ حاصل کرنے کی کوشش: ’انھوں نے مجھے برہنہ کیا، چھوا اور ریپ کی دھمکی دی‘
- مصنف, ابرت سافو
- عہدہ, بی بی سی نیوز، ازبک
- 2 گھنٹے قبل
اس نے مجھے کہا کہ ’تمھارا جسم بہت اچھا ہے، تم کس طرح کا سیکس پسند کرتی ہو؟‘پچیس سالہ ٹرانسجینڈر خاتون کمیلا نوروا ازبکستان کے ایک حراستی مرکز میں اپنے ساتھ ہونے والے جنسی تشدد کی روداد سُناتے ہوئے پریشان نظر آ رہی تھیں۔کمیلا صرف 17 سال کی عمر میں روس چلی گئی تھیں جہاں وہ اپنا جنس تبدیل کرنے کے لیے آپریشن کروانا چاہتی تھیں لیکن انھوں نے اپنی اُزبک شہریت نہیں چھوڑی تھی۔
اُزبکستان میں جنس کی تبدیلی کتنی مشکل ہے؟
اُزبکستان میں ایسی سرجریاں کروانا کوئی عام بات نہیں۔ایسے اعداد و شمار میسر نہیں جس سے یہ معلوم ہو سکے کہ ملک میں کتنے افراد نے جنس کی تبدیلی کے لیے آپریشن کروایا ہے، تاہم ثبوت اس طرف اشارہ کرتے ہیں کہ اُزبکستان میں لوگ ہارمون تھراپی کروا سکتے ہیں اور کبھی شاذ و نادر جنس کی تبدیلی کے لیے بھی آپریشن کیے جاتے ہیں۔لیکن زیادہ تر وہ اُزبک باشندے جو جنس کی تبدیلی کے لیے آپریشن کے خواہاں ہوتے ہیں وہ روس یا دیگر ممالک جاتے ہیں۔کمیلا اپنے آپریشن کے بعد اُزبکستان کے درالحکومت تاشقند لوٹ آئیں تھیں تاکہ اپنا پاسپورٹ کی تجدید کروا سکیں۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ انھیں یہاں بے بنیاد الزامات کی بنیاد پر حراست میں رکھا گیا اور انھوں نے دورانِ حراست 25 دنوں تک جنسی حراسانی، تشدد، قتل کی دھمکیوں اور ایسے طبی معائنوں کا سامنا کرنا پڑا جو انھیں سخت ناگوار گزرے۔اُزبکستان کے قوانین میں ٹرانس جینڈر افراد کے حوالے سے کوئی شق موجود نہیں۔تاہم کسی اور ملک میں سرجری ہونے کی صورت میں بھی لوگ اپنے جنس کی تبدیلی کی تصدیق کر کے نئے شناختی کارڈ یا پاسپورٹ وصول کر سکتے ہیں۔،تصویر کا ذریعہKamilla Norova
’مجھے اپنا سینہ عریاں کرنے کا کہا گیا‘
بابر نے کہا ’آپ کا جسم بہت پرکشش ہے اور چھاتی بھری ہوئی ہے۔ آپ کو کس قسم کا سیکس پسند ہے؟ کیا آپ دو آدمیوں کے ساتھ بیک وقت سیکس پسند کریں گی۔‘اگرچہ کمیلا نے جنسی نوعیت کے ان تبصروں سے ناراضگی کا اظہار کیا تاہم بابر نے اس سے اور بھی آگے بڑھ کر ان سے کہا کہ وہ ’اپنا سینہ برہنہ کر دیں تاکہ وہ ان کو چھو سکے۔‘کمیلا نے ایسا نہیں کیا اور اس کے بجائے انھوں نے بابر کی پیش قدمی پر اسے دھکا بھی دیا تاہم اس کا اصرار بڑھتا جا رہا تھا۔پھر بابر نے اپنی نوٹ بک سے کاغذ کا ایک ٹکڑا پھاڑ کر اس پر اپنا نمبر لکھا اور میرا نمبر بھی فون پر محفوظ کر لیا۔اس نے مجھ سے پوچھا کہ میں کہاں رہتی ہوں؟ اور پھر مجھ سے ہوٹل میں ملنے کی آفر کی۔ اس نے کہا کہ ’ہم ایک ہوٹل میں مل سکتے ہیں۔‘ میں نے اسے نظر انداز کرنے کی کوشش کی اور پوچھا کہ میرا پاسپورٹ کب تیار ہو گا۔ اس کے جواب میں بابر نے کہا کہ ’اچھا، ہم ایک ہوٹل میں ملیں گے اور پھر کچھ دیر میں پاسپورٹ تیار ہو جائے گا۔‘میں رونے لگی تو پھر مجھے جانے دیا گیا۔بعد میں انھیں پاسپورٹ آفس کے سربراہ نے بتایا کہ بابر کا تعلق پولیس فورس کے انسداد دہشت گردی یونٹ سے ہے۔،تصویر کا ذریعہKamilla Norova
’تم سب ٹرانس جینڈر پیشہ ور جسم فروش ہو ‘
ان افسران نے کمیلا کی بے عزتی کی اوران پر الزامات لگانے کا سلسلہ جاری رکھا۔ انھوں نے کمیلا سے کہا کہ ’تم سب ( ٹرانس جینڈرز خواتین) ایک سی ہوتی ہو، تم سب جسم فروش ہو۔ انھوں نے مجھ پر ایم پیز جیسی بڑی شخصیات کو محبت میں پھانسنے کا الزام لگایا۔‘تھوڑی دیر بعد کمیلا نے پانی منگوایا تو ایک نے ان سے انتہائی بے ہودہ باتیں شروع کر دیں۔ ’میں ایک بوتل میں پیشاب کروں گا، اور تم میرا پیشاب پیو گی۔‘ پھر دوسرا مرد بولا: ’تم نے بابر کے بارے میں شکایت کیوں کی؟ اب تم اس کی قیمت چکاؤ گی۔‘کمیلا کہتی ہیں کہ ان کی دھمکیاں اور توہین جلد ہی پرتشدد جسمانی حملوں میں بدل گئی۔افسران میں سے ایک نے ان کا گلا دبوچا اور انھیں دیوار کے ساتھ لگا دیا اور اپنے سائیڈ ہولسٹر سے اپنی ہینڈ گن نکالی اور کہا ’اب تم یہاں مرو گی۔‘
- ’لڑکی کی حیثیت سے خوش نہیں، جنس تبدیل کرنے کی اجازت دیں‘26 جون 2020
- سوئٹزرلینڈ: میری جنس میری مرضی28 دسمبر 2021
کمیلا یہ سب دہراتے ہوئے مسلسل رو رہی تھیں۔ انھوں نے بتایا کہ تھوڑی دیر بعد پھر دروازہ کھلا اور ایک مرد اور ایک خاتون افسر اندر آئے۔اس دوران میرے حملہ آور نے مجھے تھپڑ مارنا شروع کر دیے، پھر مجھے دھکا دیا اور میں اونچی ایڑی کے جوتوں کی وجہ سے توازن کھو بیٹھی اور فرش پر گر گی۔ باقی سب یہ تماشہ دیکھ کر ہنس رہے تھے۔ ’جب میں اٹھ رہی تھی تو انھوں نے مجھے دوبارہ مارنا شروع کر دیا۔ میں نے خاتون افسر سے مدد کی التجا کی اور کہا کہ تم بھی ایک عورت ہو، کیا تم اپنے جیسی لڑکی کو مار کھاتے دیکھ سکتی ہو۔ تو میرے سوال پر وہ بولی کہ تم عورت نہیں ہو، تم جیسے لوگوں کو مارا جانا چاہیے۔‘کمیلا کی وکیل کے لیے کی گئی درخواستوں کو نظر انداز کر دیا گیا بلکہ اس کے بعد انھیں مزید تشدد سہنا پڑا۔ وہ کہتی ہیں کہ ’اس کے بعد مزید پولیس اہلکار آئے اور ان کی بدسلوکی کا سلسلہ جاری رہا۔ پھر انھیں دھمکی دی گئی اور ازبک زبان میں لکھی دستاویز پر دستخط کرنے پر مجبور کیا گیا لیکن چونکہ ان کو ازبک زبان پر عبور نہیں تھا اس لیے انھیں کچھ اندازہ نہیں ہوا کہ ان کاغذات پر کیا لکھا ہوا ہے۔ اس کے بعد جب انھیں اوپر کمرہ عدالت میں لے جایا گیا تو وہ یہ سن کر حیران رہ گئیں کہ ان پر کیا الزام لگایا جا رہا تھا۔ کمیلا نے بتایا کہ ’جج کہہ رہا تھا کہ وہ سڑک پر مشکوک انداز میں کام کرتے پکڑی گئیں۔ جب شناخت کے لیے پولیس افسران نے سوال کیے تو انھوں نے افسران کے ساتھ جانے کے احکامات کی تعمیل کرنے سے انکار کر دیا تھا۔‘کمیلا نے ان الزامات کو مسترد کر دیا لیکن انھیں 15 دن کی قید کی سزا سنا کر جیل بھیج دیا گیا۔
’شکایت کا حق‘
کمیلا کا کہنا ہے کہ ان کی آزمائش کا سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوا بلکہ جیل میں ایک جارحانہ، تکلیف دہ اور ذلت آمیز طبی معائنہ سے وہ گزریں۔ کمیلا کی 15 دن کی جیل کی مدت کے اختتام پر انھیں مزید آٹھ دن کی سزا سنائی گئی۔ان پر ایک اہلکار کو اپنی دستاویزات کے حصول کے لیے رشوت دینے کا الزام لگایا گیا جس سے انھوں نے صاف انکار کیا۔ بی بی سی نے کمیلا کے الزامات کی تفصیلی وضاحت کے ساتھ ازبکستان کی وزارت داخلہ سے رابطہ کیا اور پوچھا کہ کیا ملوث افسران میں سے کسی سے تحقیقات کی جائیں گی۔ جس کے جواب میں وزارت کے پریس آفس کے سربراہ نے شکایت کے حق سے متعلق ان الفاظ میں آگاہ کیا گیا۔ ’قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کام سے ناخوش شہری کو ایک مقررہ طریقہ کار کے ذریعے شکایت کرنے کا حق حاصل ہے،
ٹرانس کمیونٹی کے ساتھ منفی سلوک
،تصویر کا ذریعہReuters
اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کا حق
کمیلا نے روس میں ایک گلوکارہ اور گیت لکھنے والی سانگ رائٹر کے طور پر اپنے کیریئر کا آغاز کیا جس کے بعد سے اب تک ان کے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر20 لاکھ سے زیادہ فالوئرز ہیں جہاں وہ اپنے میوزک ویڈیوز کی تصاویر اور کلپس پوسٹ کرتی ہیں۔کمیلا کو ازبک حکام نے بالآخر ایک نیا پاسپورٹ دیا ہے جس میں ان کی نئی جنس کی نشاندہی کی گئی ہے۔وہ کہتی ہیں کہ انھیں آگاہ کیا گیا ہے کہ ان کے خلاف تمام الزامات بھی ختم کر دیے گئے ہیں۔کمیلا کا خیال ہے کہ وہ اپنی تمام مشکلات کے بعد اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کی مستحق ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’اب میں اپنا ایک خاندان بنانا چاہتی ہوں اور اگر قانون اجازت دے تو ایک چھوٹی بچی کو گود لینا چاہتی ہوں۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.