جنسی غلامی اور شوہر کے تشدد سے بھاگ کر آسٹریلیا آنے والی خاتون ایک سال سے ’پراسرار طور پر غائب‘ ،تصویر کا ذریعہSuppliedایک گھنٹہ قبلسعودی عرب سے تعلق رکھنے والی للیتا جب سنہ 2022 آسٹریلیا آئی تھیں تو وہ اس وقت ایک عمر رسیدہ شخص سے بھاگ رہی تھیں جس سے انھیں بچپن میں شادی کرنے پر مجبور کیا گیا تھا۔ انھوں نے اپنے ساتھیوں کو بتایا تھا کہ وہ لگاتار تشدد اور جنسی غلامی سے بھاگ کر آئی تھیں جس کی وجہ سے انھیں بار بار ہسپتال میں داخل ہونا پڑتا تھا۔لیکن پھرآسٹریلیا آمد کے ایک سال سے بھی کم عرصے میں وہ اچانک غائب ہو گئیں۔ انھیں آخری بار دیکھنے والے ان کے ایک دوست کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے سعودی مردوں کے ایک گروہ کو للیتا کو ان کے فلیٹ سے کالے رنگ کی وین میں لے جاتے دیکھا تھا۔ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ للیتا جن کی عمر تقریباً 30 سال ہے انھیں مئی 2023 میں میلبورن سے کوالالمپور جانے والی پرواز میں سوار کیا گیا تھا۔ ان کی وکیل کا خیال ہے کہ وہاں سے انھیں سعودی عرب واپس بھیج دیا گیا اور حراست میں لے لیا گیا۔

لیکن للیتا کے صحیح ٹھکانے اور سلامتی کے بارے میں کسی کو کچھ معلوم نہیں۔ یہ پہلا موقع ہے جب اپنے وطن سے فرار ہونے والی ایک سعودی خاتون کی پراسرار صورتحال خبروں کی زینت بنی ہے۔وکیل ایلیسن بیٹسن کا کہنا ہے’لاپتہ ہونے والی سعودی خواتین کے دیگر کیسز کے مقابلے میں جنھیں یا تو غائب کر دیا جاتا ہے یا مار دیا جاتا ہے اس معاملے میں خاص بات یہ ہے کہ اس کا ہمارے پاس ایک گواہ ہے۔‘کینبرا میں سعودی عرب کے سفارت خانے نے اس پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔تاہم بی بی سی کو دیے گئے ایک بیان میں آسٹریلوی وفاقی پولیس نے کہا کہ اسے جون میں اس مبینہ اغوا کے بارے میں ’علم‘ ہو اور اس وقت سے اس نے ملک کے اندر اور بیرون ملک ’فوری تحقیقات‘ شروع کر دی ہیں۔وکیلوں کو خدشہ ہے کہ للیتا کا معاملہ آسٹریلیا میں بڑھتے ہوئے اس رجحان کا حصہ ہے جس میں دوسرے ممالک کے ایجنٹ اپنے غیر ملکیوں کی نگرانی کر رہے ہیں، ہراساں کر رہے ہیں یا ان پر حملہ کر رہے ہیں۔حکومت نے ہر قسم کی غیر ملکی مداخلت کو قومی سلامتی کے لیے ’سب سے بڑا‘ خطرہ قرار دیا ہے اور کریک ڈاؤن کا وعدہ کیا ہے۔تاہم بیٹسن اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے دیگر کارکن یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ ایک خاتون جنھوں نے امیگریشن حکام کو بتایا تھا کہ وہ تشدد سے فرار ہو کر آئی ہیں اسے مبینہ طور پر دن کے وقت ان کے گھر سے کیسے اٹھایا جا سکتا ہے۔

اٹھائے جانے کے بعد سے لاپتہ

فلائٹ ریکارڈ کے مطابق للیتا پہلی بار مئی 2022 میں میلبورن آئی تھیں۔ اگرچہ وہ زیادہ تر اکیلی رہیں لیکن پھر انھوں نے ایک سوڈانی پناہ گزین کے ساتھ دوستی کر لی جو سعودی عرب میں غیر قانونی تارکین وطن کے طور پر بھی مقیم رہے ہیں۔یہ علی (فرضی نام) تھے جنھوں نے للیتا کا رابطہ وکیل بیٹسن کے ساتھ کروایا کیونکہ انھوں نے خاتون کی پناہ کی درخواست میں ان کی مدد کی تھی۔اس کے بعد سے انسانی حقوق کی وکیل کی للیتا کے ساتھ اکثر بات ہوتی رہی اور ان کے مطابق وہ ایک ’نرم مزاج‘ خاتون ہیں جو اپنی زندگی واپس حاصل کرنا چاہتی تھیں۔ لیکن ان کا رابطہ گذشتہ سال مئی میں اچانک ختم ہو گیا جب وکیل بٹیسن کو للیتا کی طرف سے ایک ’عجیب‘ ٹیکسٹ میسج موصول ہوا۔انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ بہت زیادہ رسمی زبان میں تھا ان کی معمول کی گفتگو سے مختلف اور اس میں لکھا تھا کہ ’میرا ویزا سٹیٹس کیا ہے۔‘للیتا کی جانب سے اپنے آبائی ملک میں ظلم و ستم کے خطرے سے دوچار افراد کے لیے پروٹیکشن ویزا کے دعوے کو پہلے ہی مسترد کر دیا گیا تھا لیکن بیٹنسن اس فیصلے کے خلاف ان کی اپیل میں مدد کر رہی تھیں۔وہ کہتی ہیں کہ یہ ایک ایسی چیز ہے جس کے بارے میں ان کے موکل کو بخوبی علم تھا کیونکہ دونوں اکثر اس پر تبادلہ خیال کرتی تھیں۔وکیل بیٹیسن کہتی ہیں کہ ’مجھے اب یقین ہے کہ یہ پیغام دراصل ان لوگوں کی طرف سے تھا جنھوں نے للیتا کو پکڑا تھا۔‘ان کا خیال ہے کہ وہ شاید جاننا چاہتے تھے کہ آیا للیتا کے پاس مستقل ویزا ہے یا نہیں جس سے انھیں سعودی عرب میں آسٹریلوی قونصلر کی معاونت کا حق مل جاتا۔اس بعد خاموشی چھا گئی۔ جیسے جیسے ہفتے مہینوں میں بدلتے گئے وکیل بٹیسن کو شک ہو گیا کہ ’کچھ بہت غلط ہو رہا ہے۔‘ان کا علی سے بھی کوئی رابطہ نہیں تھا جو انتہائی غیر معمولی تھا کیونکہ دونوں باقاعدگی سے رابطے میں رہتے تھے۔ جب علی نے آخر کار بٹیسن کی کالز کا جواب دیا تو ان کے بدترین خوف کی تصدیق ہو گئی۔انھوں نے بتایا کہ انھوں نے للیتا کو لے جاتے ہوئے دیکھا تھا لیکن اس واقعے نے انھیں اپنے خاندان کے تحفظ کے خوف سے اتنا مفلوج کر دیا تھا کہ وہ روپوش ہوگئے تھے۔انھوں نے للیتا کے ساتھ اپنی آخری بات چیت کے بارے میں تفصیل سے بتایا کہ وہ کافی پریشان تھیں اور انھوں نے علی سے ان لوگوں سے بچانے میں مدد کرنے کی درخواست بھی کی تھی جو انھیں سعودی عرب لے جانے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔للیتا نے علی کو اپنے بیگز اور سامان کی تصاویر بھی بھیجی تھیں جن کے بارے میں ان کا دعویٰ تھا کہ وہ لوگ انھیں پیکنگ کرنے پر مجبور کر رہے تھے۔ ،تصویر کا ذریعہSupplied

،تصویر کا کیپشنللیتا نے کہا کہ وہ تھیلے پیک کرنے کے لیے بنائے گئے تھے
علی نے بٹیسن کو بتایا کہ وہ ان کے فلیٹ پر پہنچے لیکن وہاں پہنچنے پر ایک عربی بولنے والے شخص نے ان کی ذاتی تفصیلات بتا کر انھیں دھمکی دی جو علی کے خیال میں صرف کینبرا میں سعودی سفارت خانے سے ہی حاصل کی جا سکتی تھیں۔انھوں نے اپنے ایک دوست سے رابطہ کیا اور اسے ہوائی اڈے جانے کے لیے کہا تاکہ وہ دونوں ’ہنگامہ کر کے سکیورٹی کی توجہ حاصل کرسکیں۔ لیکن انھیں ٹرمینل پر للیتا نظر ہی نہیں آئیں۔‘بیٹیسن کہتی ہیں کہ ’مجھے اس بات کی تصدیق کرنے میں مجموعی طور پر ایک سال لگ گیا کہ للیتا کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔ بغیر معاوضے کے کام کرنے والی وکیل اس کے بعد سے ایک کاغذی ٹریل بنا رہی ہیں تاکہ جو کچھ ہوا اسے یکجا کرنے کی کوشش کی جا سکے۔وہ کہتی ہیں کہ ’ہمارے پاس ان کے فون ریکارڈ اور میسج ریکارڈ ہیں جن میں وہ خوفزدہ ہونے کے بارے میں بات کر رہی ہیں، اس خوف کی وجہ سے ان کے بار بار گھر بدلنے کا سلسلہ بھی ہے۔‘بٹیسن کہتی ہیں کہ ’پھر ایک رشتہ دار کی حالیہ گواہی ہے۔ جہاں تک وہ جانتے ہیں للیتا اب سعودی جیل یا حراستی مرکز میں ہیں۔‘مگر اس ساری کہانی میں جھول نظر آتا ہے لیکن ایک چیز جس کے بارے میں بیٹسن واضح طور پر کہتی ہیں وہ یہ ہے کہ للیتا کے لیے ان کے آبائی ملک میں ’کوئی محفوظ آپشن نہیں ہے۔‘سنہ 2017 سے سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے خواتین پر دیرینہ پابندیوں میں کسی حد تک نرمی کرکے سعودی عرب کو جدید بنانے کی کوشش کی ہے۔تاہم اہم بات یہ ہے کہ تمام خواتین کو اب بھی جیل سے باہر آنے کے لیے ایک مرد سرپرست کی ضرورت ہوتی ہے اور للیتا کے معاملے میں یہ ذمہ داری اس شوہر کی ہے جس سے وہ مبینہ طور پر فرار ہوئی تھیں۔بیٹیسن کہتی ہیں کہ صرف یہی حقیقت آسٹریلوی حکام کو اس بات پر قائل کرنے کے لیے کافی ہے کہ ’وہ اپنی مرضی سے سعودی عرب واپس نہیں جا سکتی تھیں۔‘

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنمحمد بن سلمان نے خواتین کو بہت سے آزادیاں دی ہیں

’خطرہ حقیقی ہے‘

جب للیتا آسٹریلیا آئی تھیں اس وقت وہاں دو دیگر سعودی خواتین کی پراسرار موت کا معاملہ چل رہا تھا۔جون 2022 میں دو بہنوں اسرا اور امال السہلی کی بری طرح گلی سڑی لاشیں مغربی سڈنی کے علاقے میں ان کے اپارٹمنٹ سے ملی تھیں۔ان کی موت کے بارے میں بہت کم معلومات ہیں لیکن پولیس نے اس معاملے کو ’مشکوک‘ اور ’غیر معمولی‘ قرار دیا ہے۔اسرا اور امال 2017 میں پناہ حاصل کرنے کے لیے سعودی عرب سے آسٹریلیا آئی تھیں۔ انھیں دیکھنے والوں کے مطابق وہ خوف میں زندگی گزار رہے تھے۔سعودی خواتین کے بیرون ملک قیام کے دوران مردہ حالت میں پائے جانے یا پناہ حاصل کرنے کی کوشش کے دوران انھیں واپس سعودی عرب لے جانے کی خبریں کوئی نئی بات نہیں ہیں۔ہائی پروفائل مثالوں میں دو بہنوں تالا فریا اور روتانا فریا کا معاملہ بھی شامل ہے جو 2018 میں امریکہ میں سیاسی پناہ کی درخواست دینے کے بعد دریائے ہڈسن میں ایک ساتھ پائی گئیں۔ یا دینا علی لسلوم، جن کا دعویٰ ہے کہ 2017 میں منیلا ہوائی اڈے پر ٹرانزٹ کے دوران ان کے چچا نے انھیں اس وقت روکا تھا جب وہ آسٹریلیا فرار ہونے کی کوشش کر رہی تھیں۔حالیہ برسوں میں چینی، ایرانی، انڈین، کمبوڈیائی اور روانڈا سے تعلق رکھنے والے متعدد آسٹریلوی باشندوں نے بھی شکایت کی ہے کہ ایجنٹس ان کی نگرانی کر رہے ہیں، انھیں ہراساں کیا گیا یا ان پر حملہ کیا گیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ ایسا کرنے کے لیے انھیں ان کی متعلقہ حکومتوں نے کہا تھا۔آسٹریلیا کے انٹیلی جنس چیف نے کہا ہے کہ ملک کے اندر جاسوسی اور غیر ملکی مداخلت کے الزام میں پہلے سے کہیں زیادہ لوگوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ مائیک برگس نے فروری میں کہا تھا کہ یہ خطرہ آپ کی سوچ سے کہیں زیادہ گہرا اور وسیع ہے۔ آسٹریلوی لوگوں کو یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ خطرہ حقیقی ہے۔‘اس سال کے اوائل میں غیر ملکی مداخلت سے متعلق قانون سازی کے پارلیمانی جائزے میں ’اس کے ڈیزائن اور نفاذ میں نمایاں خامیاں‘ پائی گئیں اور یہ کہ یہ اپنے مطلوبہ مقصد کو حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔‘اس کے جواب میں حکومت نے اصلاحات کا اعلان کیا جس میں تارکین وطن برادریوں کو مشکوک رویوں کی شناخت اور رپورٹ کرنے میں مدد کے لیے ایک سپورٹ نیٹ ورک کا قیام اور ایک مستقل غیر ملکی مداخلت ٹاسک فورس شامل ہے۔آسٹریلیوی وزیر داخلہ کلیر او نیل نے ان اقدامات کے بارے میں ایک بیان میں کہا کہ ’یہ پیچیدہ مسائل ہیں، اور ہم مسلسل اپنی ایجنسیوں کے ساتھ کام کر رہے ہیں لیکن یہ اندازہ لگانا قبل از وقت ہوگا کہ یہ تبدیلیاں کتنی مؤثر ثابت ہوں گی۔‘تاہم وکیل بٹیسن کا کہنا ہے کہ حکومت کے لیے للیتا کی مدد کرنے میں ابھی دیر نہیں ہوئی ہے۔ وہ انھیں ویزا جاری کر سکتے ہیں اور انھیں آسٹریلیا واپس لانے میں مدد کرسکتے ہیں۔ یہ فیصلہ امیگریشن کے وزیر، ٹونی برک پر منحصر ہو گا۔وہ کہتی ہیں کہ ’اب ایک ملک کی حیثیت سے ہمارے پاس یہ یقینی بنانے کا موقع ہے کہ صنفی تشدد کا شکار ہونے والے افراد محفوظ رہیں۔ تمام خواتین ایک محفوظ ماحول کی حقدار ہیں جس میں وہ پھل پھول سکیں۔ ‘
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}