میڈلین البرائٹ: ’جمہوریت کی چیمپیئن‘ کہلائی جانے والی پہلی خاتون امریکی وزیر خارجہ کی وفات ہو گئی
نوے کی دہائی میں کوسوو میں ہونے والی نسلی کشی کا خاتمہ کرنے والے اہم ترین ناموں میں سے ایک، اور ‘جمہوریت کی چیمپیئن’ کہلائی جانے والی امریکہ کی پہلی خاتون وزیر خارجہ میڈلین البرائٹ 84 برس کی عمر میں وفات پا گئی ہیں۔
خارجہ پالیسی امور سے طویل عرصے تک منسلک رہنے والی میڈلین البرائٹ امریکی صدر بل کلنٹن کے دوسرے دور حکومت میں سیکریٹری آف سٹیٹ یعنی وزیر خارجہ تعینات ہوئی تھیں۔
ان کی وفات کی تصدیق ان کے خاندان نے ایک بیان میں کی اور کہا کہ وہ اپنے گھر والوں اور چاہنے والوں کے درمیان تھیں۔ ‘ان کی وفات سے ہم ایک ماں، ایک دادی، نانی، بہن، آنٹی اور ایک دوست سے بچھڑ گئے ہیں۔’
ان کی وفات کے بعد میڈلین البرائٹ کو خراج تحسین پیش کرنے والوں میں سابق صدر بل کلنٹن، ان کی اہلیہ اور بعد میں وزیر خارجہ رہنے والی ہلیری کلنٹن بھی شامل ہیں۔
سنہ 1937 میں چیکوسلاوکیہ کے شہر پراگ میں ماریا جانا کوربیلووا کے نام سے پیدا ہونے والی میڈلین البرائٹ اپنے گھر والوں کے لیے ماڈلا کے نام سے جانی جاتی تھی اور بعد میں پھر بطور میڈلنکا۔
بعد میں 1950 کی دہائی میں باضابطہ طور پر انھوں نے اپنا نام تبدیل کر لیا جب انھیں امریکی شہریت مل گئی تھی۔
سفارت کاری ان کے خاندان میں بسی ہوئی تھی۔ جب ان کی پیدائش ہوئی تو ان کے والد جوزف کوربل چیک حکومت کے لیے کام کرتے تھے۔ 1939 میں نازیوں کے حملے کے بعد ان کے گھر والے ملک بدر ہو کر لندن منتقل ہو گئے لیکن ان کے والد نے چیک حکومت کے لیے کام جاری رکھا اور بی بی سی کے لیے بھی نشریات میں حصہ لیا۔
دوسری جنگ عظیم ختم ہونے کے بعد وہ سفیر بھی رہے اور انھوں نے اقوام متحدہ کے مندوب کی حیثیت سے کشمیر کے تنازع پر انڈیا اور پاکستان کے درمیان ثالثی بھی کروائی۔
بعد ازاں چیکوسلاوکیہ میں کمیونزم کی آمد کے بعد انھوں نے امریکہ میں سیاسی پناہ لینے کی درخواست کی جس کے بعد وہ وہاں ریاست کولوراڈو منتقل ہو گئے۔
بل کلنٹن کے دوسرے دور اقتدار میں انھیں بطور وزیر خارجہ چنا گیا۔
برطانوی اخبار گارجئین کو 2018 میں انھوں نے انٹرویو دیتے ہوئے اس بارے میں کہا: ‘جب اس عہدے کے لیے میرا نام سامنے آیا تو ایسا لگا جیسے میں کوئی خلائی مخلوق ہوں۔ لوگوں نے کہا کہ عرب عورت سے بات نہیں کریں گے۔’
بطور وزیر خارجہ انھوں نے نیٹو کے کردار میں اضافے پر زور دیا اور فلسطین اسرائیل تنازع پر گفتگو کروانے کے عمل شروع کرنے میں کردار ادا کیا۔
اس کے علاوہ وہ شمالی کوریا کے ساتھ بات چیت میں بھی شامل تھیں تاکہ ان کے جوہری پروگرام کو روکا جا سکے لیکن وہ مشن ناکام رہا۔
Comments are closed.