بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

جمال خاشقجی کے قتل کی امریکی رپورٹ میں سعودی ولی عہد پر الزام عائد ہونے کا امکان

جمال خاشقجی: امریکہ میں جمال خاشقجی کے قتل کی رپورٹ منظر عام پر لانے کی تیاریاں

جماا خاشقجی

جمال خاشقجی کئی بین الاقوامی نشریاتی اداروں سے وابستہ تھے

امریکہ میں صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کی تحقیقات پر مبنی خفیہ رپورٹ کو جاری کرنے کی تیاریاں کر رہی ہے جس کے بارے میں عام خیال یہ ہے کہ اس رپورٹ میں قتل کا الزام سعودی ولی عہد شہزادے محمد بن سلمان پر عائد کیا گیا ہے۔

امریکی ایوان صدر وائٹ ہاؤس کے مطابق صدر نے یہ رپورٹ پڑھ لی ہے اور اب وہ سعودی عرب کے فرما روا شاہ سلمان سے جلد بات کریں گے۔

صدر بائیڈن سعودی عرب سے امریکہ کے تعلقات کو ’از سر نو ترتیب دینے‘ کا ارادہ رکھتے ہیں۔

امریکی صحافی اور امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے نمائندے جمال خاشقجی کو سنہ 2018 میں استنبول کے سعودی سفارت خانہ میں بڑی بے رحمی سے قتل کر دیا گیا تھا۔ سعودی عرب کے سفارت خانے کی عمارت کے اندر سعودی اہلکاروں کے ہاتھوں ہونے والے اس قتل میں ملوث ہونے کے تمام الزامات کی سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے تردید کی تھی۔

سعودی حکام نے کہا تھا کہ سعودی ایجنٹس کی ایک ٹیم کو جمال خاشقجی کو سعودی عرب لانے کے لیے بھیجا گیا تھا اور اس کارروائی کے دوران صورت حال بگڑ جانے کی وجہ سے وہ ہلاک ہوگئے۔

سعودی عرب کی ایک عدالت نے اس قتل کے جرم میں پانچ اہلکاروں کو موت کی سزا سنائی تھی لیکن گزشتہ سال ستمبر میں ان کی سزا میں کمی کر کے اس کو 20 سال قید میں بدل دیا گیا تھا۔

ہمیں رپورٹ کے بارے میں کیا معلوم ہے؟

اس رپورٹ کے بارے میں خیال کیا جا رہا ہے کہ اسے جمعرات کو کسی وقت عام کر دیا جائے گا۔ برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز نے چار نامعلوم امریکی حکام کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے جمال خاشقجی کے قتل کی منظوری دی اور ’ممکنہ طور پر احکامات‘ جاری کیے تھے۔

یہ بھی پڑھیے

ان حکام نے مزید کہا ہے کہ جمال خاشقجی کے قتل کی رپورٹ کا زیادہ حصہ امریکی خفیہ ادارے سی آئی آے کی تحقیقات پر مشتمل ہے۔

سعودی عرب میں استغاثہ کا کہنا تھا کہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کو اس قتل کے بارے میں کچھ علم نہیں تھا۔ لیکن سنہ 2019 میں ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے ایک بیان میں کہا تھا کہ کیونکہ یہ قتل سعودی اہلکاروں کی غفلت سے ہوا ہے اس لیے وہ سعودی عرب کی حکومت کے ایک اہم ترین رکن ہونے کی حیثیت سے اس قتل کی ذمہ دار قبول کرتے ہیں۔

محمد بن سلمان اور ڈونلڈ ٹرمپ

ڈونلڈ ٹرمپ کی شہزادہ محمد بن سلمان سے اپنے داماد کے توسط سے ذاتی تعلقات تھے

امریکی نشریاتی ادارے این بی سی نیوز نے اطلاع دی ہے کہ خفیہ اداروں کا یہ تجزیہ کوئی نیا نہیں ہے اور یہ سی آئی اے کی تحقیقات کی بنیاد پر کیا گیا ہے جس کو سنہ 2018 میں وسیع پیمانے پر شائع کیا گیا تھا جس کی بعد میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تردید کر دی تھی۔

اس تجزیے میں کہا گیا تھا کہ محمد بن سلمان کے ملوث ہونے کا کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں ہے لیکن امریکی حکام کا خیال ہے کہ اس نوعیت کی کارروائی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی منظوری کے بغیر نہیں کی جا سکتی۔

امریکی جریدے واشنگٹن پوسٹ جس کے لیے جمال خاشقجی کام کرتے تھے، کا کہنا تھا کہ سی آئی اے کی تحقیقات کی بنیاد وہ فون کالیں ہیں جو امریکہ میں سعودی سفیر ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے بھائی خالد بن سلمان نے قتل کے بعد کی تھیں۔

یہ بھی پڑھیے

شہزادہ خالد جو ملک کے نائب وزیر دفاع بھی ہیں مبینہ طور پر انھوں نے اپنے بھائی محمد بن سلمان کی ہدایت پر جمال خاشقجی کو فون کر کے یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ استنبول کے سعودی سفارت خانے چلے جائیں اور انھیں کچھ نہیں کہا جائے گا۔ شہزادہ خالد نے جمال خاشقجی سے بات کرنے کی تردید کی تھی۔

سنہ 2019 میں اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندہ ایگنس کالامرڈ نے سعودی عرب کی ریاست پر جمال خاشقجی کو ’سوچ سمجھ کر‘ قتل کرنے کا الزام عائد کیا تھا اور اس قتل کے مقدمے کو انصاف کے ساتھ ایک مذاق قرار دیا تھا۔

یہ معاملہ اب کیوں اٹھایا جا رہا ہے؟

جمال خاشقجی کے قتل کی تحقیقاتی رپورٹ کو شائع کرنا امریکہ کے صدر جو بائیڈن کی سعودی عرب سے امریکہ کے تعلقات کو از سر نو ترتیب دینے کی پالیسی کا حصہ ہے اور وہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسی کے برخلاف سعودی عرب کے بارے میں زیادہ سخت رویہ رکھتے ہیں۔

ٹرمپ انتظامیہ نے اس قتل کی تفتیشی رپورٹ کو عام کرنے کے قانونی تقاضوں کو سعودی عرب سے تعلقات بہتر رکھنے کی بنیاد پر رد کر دیا تھا۔

وائٹ ہاؤس کی ترجمان جان پاسکی نے بدھ کو کہا تھا کہ صدر بائیڈن سعودیحکمران فرما روا شاہ سلمان سے براہ راست بات کریں گے اور ان کے بیٹے ولی عہد شہزاد محمد بن سلمان سے بات نہیں کریں گے جو کہ علماً اس وقت سعودی عرب کے حکمران ہیں۔

وائٹ ہاؤس کی ترجمان نے کہا تھا کہ سعودی عرب کے 85 سالہ حکمران شاہ سلمان سے صدر بائیڈن کی اقتدار میں آنے کے بعد یہ پہلی بات چیت ہو گی۔

انھوں نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ‘ہم نے اقتدار میں آنے کے فوراً بعد یہ بات واضح کر دی تھی کہ ہم سعودی عرب سے اپنے تعلقات کا از سر نو جائزہ لیں گے۔’

نئی امریکی انتظامیہ نے اس سلسلے میں پہلے ہی پالیسی کی سطح پر کئی اہم تبدیلیاں کی ہیں۔ صدر بائیڈن نے یمن کے خلاف سعودی عرب کی قیادت میں لڑی جانے والی جنگ کی حمایت ختم کر دی ہے اور سعودی عرب کو اسلحے کی فروخت بھی بند کر دی ہے۔

جماا خاشقجی

استنبول کے سعودی سفارت خانے میں جمال خاشقجی کو قتل کیا گیا

جمال خاشقجی کو کیسے قتل کیا گیا؟

انسٹھ سالہ صحافی جمال خاشقجی کو آخری مرتبہ دو اکتوبر سنہ کو 2018 ترکی کے دارالحکومت استنبول کے سعودی سفارت خانے میں جاتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔

سعودی عرب کے حکام کے مطابق جمال خاشقجی پر قابو پانے کے لیے انھیں ایک انجیکشن لگایا گیا اور جسمانی کشمکش کے دوران انھیں انجیکشن کی ضرورت سے زیادہ مقدار لگ گئی جس سے ان کی موت واقع ہو گئی۔ جس کے بعد ان کی لاش کے ٹکڑے کر کے کچھ مقامی مددگاروں کے حوالے کر دی گئی۔ ان کی لاش کا اس کے بعد سے کوئی سراغ نہیں مل سکا۔

ترکی کے خفیہ اداروں کی طرف سے جاری کردہ معلومات جن میں کچھ آڈیو مواد بھی شامل ہے، دل دہلانے دینے والی تفصیلات سامنے آئی ہیں۔

خاشقجی ماضی میں سعودی عرب کی حکومت کے مشیر کے طور پر بھی کام کر چکے تھے لیکن بعد میں سعودی حکمران خاندان کی نظروں میں کھٹکنے لگے اور وہ ملک چھوڑ کر سنہ 2017 میں امریکہ چلے گئے۔ امریکہ میں انھوں نے واشنگٹن پوسٹ کے لیے محمد بن سلمان کی پالیسی پر تنقیدی کالم لکھنے شروع کر دیے۔

اپنے پہلے ہی کالم میں انھوں نے لکھا تھا کہ انھیں سعودی عرب میں گرفتاری کا خوف تھا کیوں کہ محمد بن سلمان اپنے تمام مخالفین کی آواز دبانے کی کوشش کر رہے تھے۔ انھوں نے اپنے آخری کالم میں یمن پر سعودی عرب کے حملے پر شدید تنقید کی تھی۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.