جلیانوالہ باغ کی تزئین و آرائش پر انڈیا میں شورو غوغا، ‘تاریخ کو مسخ کیا جا رہا ہے، مٹایا جا رہا ہے’
انڈیا میں برطانیہ کے سامراجی دور کی ایک خونچکاں یادگار کی تزئین اور جدید کاری کیے جانے پر بہت سے انڈینز نے غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔
واضح رہے کہ انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی نے سنیچر کے روز انڈیا کے شمال مغربی شہر امرتسر میں یادگار جلیانوالہ باغ کمپلیکس کا افتتاح کیا۔
یہ اُس واقعے کی یادگار ہے جس میں بڑی تعداد میں ہندوستانیوں کو برطانوی فوجیوں نے سنہ 1919 میں اسی مقام پر منعقد کیے گئے ایک جلسہ عام میں گولی مار دی تھی۔ یہ قتل عام ہندوستان کی قومی تحریک میں ایک اہم موڑ ثابت ہوا۔
یہ یادگار ہے کیا؟
جلیانوالہ باغ ایک زمانے سے پتھر پر کندہ یادگاروں، دالان اور راہداریوں کے ذریعے انڈیا کے دردناک ماضی کی ایک یاد دہانی کے طور پر کام کرتا رہا ہے اور اس نے دنیا بھر کے سیاحوں کو اپنی جانب راغب کیا ہے۔
اس واقعے کے سو سال پورا ہونے کے موقعے پر سنہ 2019 میں اس کی تجدیدکاری کا منصوبہ انڈیا کی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں منظور کیا گیا اور پھر انڈین میڈیا کے مطابق اپریل سنہ 2020 سے اس پر کام شروع ہوا اور یہ عوام کے لیے بند کر دیا گیا۔
حکومت نے اب اس یادگار کو ایک نئی شکل دی ہے۔ اس میں میوزیم اور گیلریاں بنائی گئی ہین جسے اب عوام کے لیے کھول دیا گیا ہے اور 13 اپریل سنہ 1919 کے واقعات کو ظاہر کرنے کے لیے روزانہ آواز اور روشنی پر مبنی شو شروع کیا گیا ہے۔
سنہ 2021 کے وسط میں اس کی تزئین کا کام مکمل ہونے کے بعد 15 اگست کو یوم آزادی کے موقعے پر پنجاب کی ریاستی حکومت نے اس کا افتتاح کرتے ہوئے عوام کے لیے اسے کھول دیا اور پھر 28 اگست یعنی سنیچر کے روز وزیر اعظم مودی نے اس کا باضابطہ افتتاح کیا۔
اس یادگار میں ایک تنگ راہداری میں دیواروں کو مجسموں سے مزین کیا گیا ہے جس کے ذریعے بریگیڈیئر جنرل آر ایچ ڈائر کی قیادت میں برطانوی فوجی پارک میں داخل ہوئے تھے۔ ان دیواروں اور مجسموں کو اس دن مرنے والوں کی یاد میں بنایا گیا ہے۔
اور وہاں ایک کنواں ہے جسے شہدا کا کنواں کہا جاتا ہے اور اس کے بارے میں یہ خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ بہت سے لوگ گولیوں سے بچنے کے لیے اس میں کود پڑے تھے۔ اس کنویں کو ایک آر پار نظر آنے والی رکاوٹ سے ڈھک دیا گیا ہے۔
وزیر اعظم مودی نے کہا کہ جلیانوالہ باغ کی تزئین و آرائش ‘نئی نسل کو اس مقدس مقام کی تاریخ کے بارے میں یاد دلائے گی اور اس کے ماضی کے بارے میں بہت کچھ سیکھنے کی ترغیب دے گی۔’
تو اس یادگار کی تزئین و آرائش پر تنقید کیوں؟
تاہم ناقدین نے حکومت کے ان اقدام کو غیر حساس قرار دیا ہے اور حکومت پر ملکی تاریخ کو مٹانے اور مسخ کرنے کی کوشش کا الزام عائد کیا ہے۔
تاریخ دان کم ویگنر نے اسے ‘پرانے امرتسر شہر کا ڈزنی فکشن’ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس مقام کی تجدیدکاری کا مطلب یہ ہے کہ وہاں رونما ہونے والے واقعات کے آخری نشانات کو مؤثر طریقے سے مٹا دیا گیا ہے۔
دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں ایک تاریخ داں اور ہندی کے پروفیسر چمن لال نے کہا کہ اس منصوبے سے ‘تاریخ کو پراسراربنانے اور گلیمرائز’ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
انھوں نے دی ہندو اخبار کو بتایا: ‘جلیانوالہ باغ آنے والے لوگوں کو درد اور تکلیف کے احساس کے ساتھ جانا چاہئے۔ (لیکن) انھوں نے اب اسے ایک خوبصورت باغ کے ساتھ لطف اندوز ہونے کی جگہ بنانے کی کوشش کی ہے۔ یہ پہلے کوئی خوبصورت باغ نہیں تھا۔’
نامور مورخ ایس عرفان حبیب نے اسے ‘یادگاروں کا کارپوریٹائزیشن’ کہا، جو کہ ‘تاریخ کی قیمت، ورثہ کی قیمت’ پر بنایا گیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ‘یہ بات بالکل کریہہ ہے کہ آخر دیواروں پر مجسمے کیوں ہونے چاہیے؟’
یہ بھی پڑھیے
حزب اختلاف کے رہنماؤں نے بھی نریندر مودی کی حکومت کے اس فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
مغربی ریاست مہاراشٹر میں برسر اقتدار جماعت شیو سینا کی رہنما پرینکا چترویدی نے لکھا: ‘بعض اوقات مقامات درد کے احساس کو جنم دیتے ہیں اور اس بات کی یاد دہانی کے طور پر کام کرتے ہیں کہ ہم نے کیا کھویا اور کس چیز کے لیے ہم لڑے۔ ان یادوں کو ‘خوبصورت’ بنانے یا ‘تبدیل کرنے’ کی کوشش ہماری اجتماعی تاریخ کو بہت نقصان پہنچا رہی ہے۔’
برطانوی رکن پارلیمان پریت کور گل نے ٹویٹ کیا: ‘ہماری تاریخ مٹائی جا رہی ہے۔ کیوں؟’
البتہ حکمراں جماعت بی جے پی سے تعلق رکھنے والے انڈین رکن پارلیمان اور جلیانوالہ باغ ٹرسٹ کے رکن شویت ملک نے تزئین و آرائش کے کام کا دفاع کیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ‘راہداری میں لگے یہ مجسمے دیکھنے والوں کو اس دن وہاں سے گزرنے والوں کی یاد دلائیں گے۔۔۔ پہلے لوگ یہاں سے اس کی تاریخ سے انجان گزرتے تھے اور اب وہ تاریخ کے ساتھ چلیں گے۔’
یادر رہے کہ انڈین قوم پرست بھاری جنگی ٹیکسوں اور ہندوستانی فوجیوں کی جبری تقرری کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے سنہ 1919 میں اس بدقسمت دن اس مقام پر جمع ہوئے تھے۔ جبکہ شہر کے دوسرے سکھ اس دن بیساکھی کا تہوار منا رہے تھے اور وہ ان مظاہرین کے ساتھ گھل مل گئے۔
برطانوی نوآبادیاتی حکام نے اس سے قبل امرتسر میں مارشل لاء کا اعلان کر رکھا تھا اور عوامی مظاہروں میں اضافے کی وجہ سے عوامی جلسوں پر پابندی عائد کی ہوئی تھی۔
بغیر کسی انتباہ کے انگریز فوجی افسر جنرل ڈائر نے باہر نکلنے والے راستے کو بند کر دیا اور اپنے فوجیوں کو حکم دیا کہ وہ ہجوم پر فائرنگ کردیں۔ انھوں نے 10 منٹ بعد اس وقت فائرنگ روک دی جب ان کا گولہ بارود ختم ہو گیا۔
اس میں مرنے والے لوگوں کی تعداد متنازع ہے۔ نوآبادیاتی حکام کی طرف سے قائم کی گئی ایک انکوائری میں مرنے والوں کی تعداد 379 بتائی گئی ہے لیکن انڈین ذرائع نے اسے ایک ہزار کے قریب قرار دیا ہے۔
Comments are closed.