جلاوطن ہونے والے بی بی سی کے صحافیوں کی تعداد میں اضافہ: ’میں ڈر ڈر کر رہتا ہوں، اگر مجھے کچھ ہو گیا تو میری بیٹی کا کیا ہو گا‘
- مصنف, سٹیفنی ہیگارٹی
- عہدہ, بی بی سی ورلڈ سروس
- 14 منٹ قبل
بی بی سی ورلڈ سروس کے جلاوطنی میں کام کرنے والے صحافیوں کی تعداد 2020 سے تقریباً دگنی ہو کر اب 310 ہو گئی ہے۔ آزادی صحافت کے عالمی دن سے پہلے جاری کیے گئے یہ اعدادوشمار روس، افغانستان اور ایتھوپیا جیسے ممالک میں آزادیِ صحافت کے خلاف پابندیوں کی عکاسی کرتے ہیں۔ایران سمیت کئی ممالک کے صحافی ایک دہائی سے زائد عرصے سے بیرون ملک رہنے پر مجبور ہیں۔ان میں سے بہت سے صحافیوں کو آن لائن اور آف لائن ہراسانی، جان سے مارنے کی دھمکیوں سے لے کر جیل کی سزاؤں تک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
بی بی سی ورلڈ سروس کی ڈائریکٹر لیلیان لینڈر کہتی ہیں کہ ’رپورٹنگ جاری رکھنے کے لیے انھیں گھروں سے باہر نکلنا پڑتا ہے۔۔۔ جلاوطن صحافیوں کی تعداد میں ہم جو اضافہ دیکھ رہے ہیں وہ آزادی صحافت کے لیے بہت باعثِ تشویش ہے۔‘جب اگست 2021 میں طالبان نے افغانستان پر قبضہ کر لیا تو اس کے بعد بی بی سی نے اپنی زیادہ تر ٹیم کو اس ملک سے نکال لیا تھا۔ خواتین کو کام کرنے کی اجازت نہیں تھی جبکہ ان کے مرد ساتھیوں کو بھی دھمکیوں کا سامنا تھا۔سنہ 2022 میں یوکرین پر روسی حملے کے بعد روس نے سینسر شپ کا نیا قانون متعارف کرایا، جس کا مطلب یہ تھا کہ جنگ پر تنقید کرنے والوں کے خلاف مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔ بی بی سی روسی سروس کی نامہ نگار نینا نذرووا کہتی ہیں اگر میں جنگ کو جنگ کہوں تو صرف اس بات پر بھی مجھے آسانی سے جیل بھیجا جا سکتا ہے۔‘نینا نے اپنی ٹیم کو ماسکو سے لٹویا منتقل کر دیا۔اس سال اپریل میں نینا کے ساتھی اور بی بی سی روسی سروس کی نامہ نگار الیا بارابانوف کو روس کی جانب سے ’غیر ملکی ایجنٹ‘ قرار دیا گیا، ان پر ’غلط معلومات پھیلانے‘ اور جنگ کی مخالفت کا الزام لگایا گیا۔ الیا اور بی بی سی اس الزام کو مسترد کرتے ہیں اور عدالت میں اس حوالے سے کارروائی جاری ہے۔
بی بی سی فارسی کے نامہ نگار جیار گول کہتے ہیں ’میں اب بھی ڈر ڈر کر رہتا ہوں۔ جیسے ہی میں ایک کمرے میں داخل ہوتا ہوں تو باہر نکلنے کا راستہ تلاش کرتا ہوں۔ میں نے گھر میں بہت سارے سکیورٹی کیمرے لگا رکھے ہیں۔ مجھے مشورہ دیا گیا ہے کہ میں اپنی بیٹی کا سکول تبدیل کر دوں۔‘جیار 2007 کے بعد سے ایران واپس نہیں جا سکے۔ جب ان کی والدہ کا انتقال ہوا تو وہ ان کے جنازے میں بھی نہیں جا سکے تاہم وہ ان کی قبر کی زیارت کے لیے سرحد پار کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔لیکن جب سے چار سال قبل ان کی اہلیہ کی کینسر کے باعث وفات ہوئی، وہ زیادہ محتاط ہو گئے ہیں۔ ’میں ہر وقت یہی سوچتا رہتا ہوں کہ اگر مجھے کچھ ہو گیا تو میری بیٹی کا کیا ہو گا؟وہ کہتے ہیں کہ ’ایرانی حکومت اب بہت زیادہ دلیر ہو گئی ہے۔ وہ سخت پابندیوں کی زد میں ہے لیکن اس کے باوجود انھیں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ عالمی برادری ان کے بارے میں کیا سوچتی ہے۔‘مارچ میں ایک آزاد براڈ کاسٹر اور ایران انٹرنیشنل کے پریزینٹر کو لندن میں ان کے گھر کے باہر ٹانگ میں چھرا گھونپ دیا گیا تھا اور حال ہی میں برطانیہ کی انسداد دہشت گردی کی پولیس نے ملک میں رہنے والے بی بی سی فارسی کے عملے کو بڑھتے ہوئے خطرے سے خبردار کیا۔بی بی سی فارسی کے عملے کو حال ہی میں معلوم ہوا کہ ان کی غیر موجودگی میں ایرانی حکومت نے انھیں ایک سال قید کی سزا سنائی۔ انھیں اس بارے میں معلومات تب ملیں جب ہیکروں نے ایرانی عدلیہ کی معلومات لیک کیں۔اس سے قبل ایرانی وزارت خارجہ نے بی بی سی فارسی کے عملے پر تشدد، نفرت انگیز تقاریر اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر اکسانے کا الزام لگایا تھا۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.