جعلی ڈالرز کی چھپائی روکنے کے لیے بنائی گئی ’سیکرٹ سروس‘ جس کے ایجنٹوں کو ’شراب پینے اور خراب ساکھ والی جگہوں‘ پر جانے کی اجازت نہیں
جب مسلح شخص کی جانب سے خطرہ ختم ہو گیا تو انھوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کو تقریباً زبردستی ایک بُلٹ پروف گاڑی میں بٹھا دیا، حالانکہ اس وقت ڈونلڈ ٹرمپ کی کوشش تھی کہ وہ حملے کے بعد سٹیج پر کھڑے ہوکر اپنا حامیوں سے بات کر سکیں۔ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی ریلی سے تقریباً 200 میٹر دور ایک عمارت کی چھت سے کی گئی فائرنگ میں ایک شخص بھی ہلاک بھی ہوا تھا۔ جس کے بعد قانون نافذ کرنے والے ادارے حرکت میں آئے اور 20 سالہ مسلح شخص کو ہلاک کردیا۔لیکن کیا آپ کو پتا ہے کہ سیکرٹ سروس کا قیام صرف امریکی صدر اور صدارتی امیدواروں کی حفاظت کے لیے عمل میں نہیں آیا تھا، بلکہ سنہ 1865 میں سیکرٹ سروس کا قیام جعلی ڈالرز کی چھپائی اور ترسیل کو روکنے کے لیے عمل میں لایا گیا تھا۔ایک اندازے کے مطابق امریکہ میں خانہ جنگی کے خاتمے کے بعد مارکیٹ میں خرید و فروخت کے لیے استعمال ہونے والے تقریباً ایک تہائی ڈالر جعلی تھے۔سیکرٹ سروس کی اپنی تاریخ کے مطابق مارکیٹ میں جعلی ڈالرز کی موجودگی کے سبب امریکہ کی معیشت عدم استحکام کا شکار ہو رہی تھی۔ اس وقت امریکی محکمہ خزانہ نے جعلی کرنسی کی روک تھام کے لیے ’سیکرٹ سروس ڈویژن‘ قائم کیا اور ولیم پی وڈ کو اس کا پہلا ڈائریکٹر مقرر کیا گیا لیکن سیکرٹ سروس کا مشن اس وقت تبدیل کر دیا گیا جب اس وقت کے امریکی صدر ولیم میک کنلی کو گولی مار کر قتل کیا گیا۔6 ستمبر 1901 ایک کو لیون کولگوش نامی شخص نے ایک تقریب کے دوران امریکہ کے 25ویں صدر پر دو گولیاں چلائیں اور اس حملے میں وہ ہلاک ہو گئے۔لیون کولگوش اس حملے میں استعمال ہونے والا ریوالور اپنے رومال میں چھپا کر لائے تھے۔،تصویر کا ذریعہEPAاس وقت تک امریکی صدور کی سکیورٹی کے لیے باڈی گارڈز کو تعینات کیا حاتا تھا لیکن صدر ولیم کنلی پر حملے کے بعد حکام کو ایک نئی فورس بنانے کی ضرورت محسوس ہوئی جس کا کام صرف امریکی صدر کو محفوظ بنانا ہو۔اس کے بعد سیکرٹ سروس کو امریکی صدور، ان کے اہلخانہ اور امریکہ کا دورہ کرنے والے سرکاری مہمانوں کی سکیورٹی کی ذمہ داری سونپی گئی۔ سنہ 2002 تک سیکرٹ سروس محکمہ خزانہ کے ماتحت تھی، تاہم بعد میں اسے ہوم لینڈ سکیورٹی کے ماتحت کر دیا گیا۔سنہ 1908 میں سیکرٹ سروس کی کچھ ذمہ داریاں فیڈرل بیورو آف انویسٹیگیشن (ایف بی آئی) کو سونپ دی گئیں۔ تاہم اب بھی مالی جرائم اور سائبر کرائم کی روک تھام سیکرٹ سروس کی ذمہ داریوں میں شامل ہیں۔
سیکرٹ سروس کسے تحفظ فراہم کرتی ہے؟
موجود امریکی صدر، سابق امریکی صدور، ان کی بیویوں اور ان کے 16 برس سے کم عمر بچوں کی حفاظت کرنے کی ذمہ داری سیکرٹ سروس کو دی گئی ہے۔اس کے علاوہ سیکرٹ سروس کے اہلکار غیرملکی سرکاری مہمانوں، نائب صدور اور الیکشن سے قبل صدارتی امیدواروں کی سکیورٹی پر بھی مامور ہوتے ہیں۔سنہ 1998 کے بعد سیکرٹ سروس کو ان پروگرامز کی سکیورٹی کے لیے بھی مامور کیا جانے لگا تھا جنھیں امریکی کی سرکاری زبان میں ’نیشنل سپیشل سکیورٹی ایونٹس‘ کہا جاتا ہے۔،تصویر کا ذریعہGetty Imagesایسے اجتماعات میں سیاسی جماعتوں کی ریلیاں، صدر کی حلف براداری، سرکاری سطح پر آخری رسومات کی ادائیگی اور سُپر باؤل جیسے کھیلوں کے بڑے ایونٹس شامل ہیں۔امریکی انٹیلی جنس کے سابق افسر نورمن رولے کے مطابق گذشتہ 125 برسوں میں سیکرٹ سروس کی ذمہ داریوں میں اضافہ ہوتا رہا ہے اور اس وقت اس میں کام کرنے والے افراد کی تعداد 7 ہزار ہے جو کہ امریکہ اور ملک سے باہر سرکاری دفاتر میں تعینات ہیں۔شروع سے ہی امریکی صدور اور سیکرٹ سروس کے اہلکاروں کے درمیان تعلقات انتہائی دلچسپ رہے ہیں اور ماضی میں بہت سے صدور سیکرٹ سروس کی نگرانی سے اُکتائے ہوئے بھی نظر آئے۔وائٹ ہاؤس کی تاریخ کو محفوظ رکھنے والی تنظیم ’وائٹ ہاؤس ہسٹاریکل ایسوسی ایشن‘ کے مطابق صدر تھیوڈور روزویلٹ کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے سیکرٹ سروس کے دو اہلکار ہمیشہ ان کے ساتھ رہتے تھے اور ظاہری طور پر انھیں ان اہلکاروں کی موجودگی ناگوار گزرتی تھی۔یہاں سیکرٹ سروس کو پریشانی یہ لاحق تھی کہ صدر تھیوڈور روزویلٹ اکثر سیکرٹ سروس کے اہکاروں کو چکمہ دے کر پارک میں چہل قدمی کے لیے نکل جاتے تھے۔صدر تھیوڈور روزویلٹ کے بعد ولیم ہاورڈ ٹافٹ امریکہ کے نئے صدر منتخب ہوئے۔ سنہ 1911 میں کرسمس کے موقع پر وہ اپنی اہلیہ کے ہمراہ سیکرٹ سروس کی نگاہوں سے بچ کر بارش کے دوران اپنے دوستوں سے ملاقات کے لیے چلے گئے۔جب سیکرٹ سروس کے اہلکاروں کو اس بات کا علم ہوا تو وہ گھبرا گئے اور پورے شہر میں صدر اور ان کی اہلیہ کو ڈھونڈنے کے لیے آپریشن شروع کیا گیا۔ تاہم کچھ گھنٹوں بعد صدر ولیم ہارورڈ ٹافٹ اور ان کی اہلیہ خوش و خرم خود ہی وائٹ ہاؤس لوٹ آئے۔یہاں دلچسپ بات یہ ہے کہ سیکرٹ سروس کی جانب سے امریکی صدور کو کوڈ نیم بھی دیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر سابق صدر بِل کلنٹن کو ’ایگل‘، سابق صدر جارج ڈبلیو بُش کو ’ٹریل بلیزر‘، سابق صدر براک اوبامہ کو ’رینیگیڈ‘ اور سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ’موگل‘ کے ناموں سے پکارا جاتا تھا۔سیکرٹ سروس کی طرف سے موجودہ امریکی صدر جو بائیڈن کو ان کے آئرش نژاد ہونے کے سبب ’کیلٹک‘ کا نام دیا گیا ہے۔
- ’سیکرٹ سروس کا ایک ہی کام تھا اور وہ اس میں بھی ناکام رہی‘، امریکی صدور کی حفاظت کی ذمہ دار سیکرٹ سروس کیسے کام کرتی ہے؟15 جولائی 2024
- ’جس عمارت سے گولی چلائی گئی اس میں پولیس اہلکار تعینات تھے‘: سخت سکیورٹی کے باوجود ٹرمپ پر حملہ کیسے ممکن ہوا؟17 جولائی 2024
- وہ لمحہ جب ٹرمپ کو گولی لگی 14 جولائی 2024
،تصویر کا ذریعہGetty Images
قتل اور تنازعات
تمام تر کوششوں کو بروئے کار لانے کے باوجود بھی کئی مرتبہ سیکرٹ سروس امریکی صدور اور دیگر افراد کو نقصان سے دور رکھنے میں ناکام ہوئی ہے۔اس کی سب سے بڑی مثال سنہ 1963 میں صدر جان ایف کینیڈی کا قتل تھا۔نورمن رولے نے بی بی سی عربی کو بتایا کہ ’اس واقعے کے بعد سیکرٹ سروس کے ذمہ داریاں بڑھا دی گئیں تھیں اور انھیں تاحیات صدر کینیڈی کی بیوہ اور بچوں کی سکیورٹی پر مامور کر دیا گیا۔‘اس سے قبل سنہ 1950 میں دو پورٹو ریکن شہریوں آسکر کالٹازو اور گریزیلو ٹوریزولا نے اس وقت کے امریکی صدر ہیری ٹرومین کو قتل کرنے کی ناکام کوشش کی تھی۔لیکن اس حملے کے دوران یہ دونوں افراد لیزلی کوفیلٹ نامی ایک سیکرٹ سروس ایجنٹس کو گولیاں مارنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ تاہم تین گولیاں لگنے کے باوجود بھی لیزلی نے گریزیلو ٹوریزولا کو سر میں گولی مار کے ہلاک کر دیا تھا۔لیزلی سیکرٹ سروس کی تاریخ کے وہ واحد ایجنٹ ہیں جو امریکی صدر پر ہونے والے حملے میں ہلاک ہوئے تھے۔سنہ 1981 میں امریکی صدر رونلڈ ریگن جن اپنے پریس سیکریٹری، سیکرٹ سروس ایجنٹس اور پولیس اہلکاروں کے ہمراہ واشنگٹن کے ہلٹن ہمراہ نکل رہے تھے اور اس ہی وقت ایک مسلح شخص نے ان پر گولیوں کی بوچھاڑ کردی۔ایک گولی صدر ریگن کے پھیپڑے میں لگی تھی لیکن وہ صحت یاب ہونے میں کامیاب ہو گئے۔سیکرٹ سروس کے جان ہنکلی نامی ایک اہلکار نوعمر اداکارہ جوڈی فوسٹر کے بہت بڑے فین تھے، وہ بھی اس حملے میں زخمی ہوئے تھے اور بعد میں صحت یاب ہوگئے۔نورمن رولے کہتے ہیں کہ صدر ریگن پر ہونے والے حملے کے بعد سیکرٹ سروس میں جدت لائی گئی اور ٹیکنالوجی کے استعمال پر زور دیا گیا۔سنہ 2012 میں براک اوبامہ کے دورِ حکومت میں سیکرٹ سروس کو ایک ایسے سکینڈل کا سامنا کرنا پڑا جس کے سبب ایجنسی کی ساکھ متاثر ہوئی۔کولمبیا کے شہر کارتاخینا میں ایک سمٹ سے چند دن قبل سیکرٹ سروس کے کئی ایجنٹ رات بھر شراب نوشی میں مصروف رہے۔اطلاعات کے مطابق صدر اوبامہ کے کولمبیا پہنچنے سے قبل ان ایجنٹس نے متعدد جسم فروش خواتین کو اپنے کمرے میں بلوایا۔ اس سکینڈل کے بعد سیکرٹ سروس کے اس وقت کے ڈائریکٹر مارک سولیون نے استعفیٰ دے دیا تھا۔اس واقعے کے بعد سیکرٹ سروس کے آٹھ اہلکاروں کو جبری طور پر ریٹائر کر دیا گیا تھا اور نئے اصول متعارف کروائے گئے جن کے مطابق ایجنٹس پر دورانِ ڈیوٹی شراب پینے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔سیکرٹ سروس کے اہلکاروں کو پابند کیا گیا تھا کہ وہ غیرملکی دوروں کے دوران ’خراب ساکھ‘ والے مقامات پر نہیں جائیں گے اور نہ ہی غیرملکیوں کو اپنے ہوٹل کے کمروں میں مدعو کریں گے۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
کیا سیکرٹ سروس ڈونلڈ ٹرمپ کو محفوظ رکھنے میں ناکام ہوئی؟
گذشتہ سنیچر کو ایک مسلح شخص ایک عمارت کی چھت پر چڑھ گیا اور ڈونلڈ ٹرمپ پر اس وقت فائرنگ کردی جب وہ انتخابی ریلی سے خطاب کر رہے تھے۔اس حملے میں ایک گولی ڈونلڈ ٹرمپ کے کان کو چھو کر گزر گئی جس کے بعد سیکرٹ سروس کی کارکردگی پر بھی سوالات اُٹھتے ہوئے نظر آئے۔امریکی نیوی کی سپیشل فورسز کے سابق رکن جوناتھن گلیم ڈونلڈ ٹرمپ پر ہونے والے حملے کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’وہ (سیکرٹ سروس کی) ایک ناکامی تھی۔‘انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ کسی بھی تقریب سے ایک ہفتے قبل سیکرٹ سروس تقریب کے مقام کا جائزہ لیتی ہے اور یہ طے کرتی ہے کہ کہاں ایجنٹس کو تعینات کیا جائے گا اور کون سے جگہ ایسی ہو سکتی ہے جہاں خطرہ زیادہ ہے۔ان کے خیال میں سیکرٹ سروس کے ایجنٹس کو اس عمارت کی بھی تلاشی لینی چاہیے تھی جہاں سے مسلح حملہ آور نے فائرنگ کی۔بعد میں یہ بھی معلوم ہوا کہ حملہ ہونے سے ایک گھنٹے پہلے سیکرٹ سروس کے ایجنٹس نے حملہ آور کو دیکھا بھی تھا اور اسے ’مشتبہ‘ شخص قرار دیا تھا، تاہم یہ شخص ریلی میں موجود مجمعے میں غائب ہونے میں کامیاب ہو گیا۔رپبلکن سینیٹر جون بروسا نے اس حوالے سے فوکس نیوز کو بتایا تھا کہ ’اس شخص کو ایک مشتبہ کردار قرار دیا گیا تھا کیونکہ ان کے پاس ایک رینج فائنڈر اور ایک بیگ تھا، یہ سب حملے سے ایک گھنٹے قبل ہوا تھا۔‘رینج فائنڈر کا استعمال ہدف تک کا فاصلہ ناپنے کے لیے کیا جاتا ہے۔سینیٹر جون بروسا اس اجلاس میں موجود تھے جہاں ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی ریلی پر ہونے والے حملے سے متعلق بریفنگ دی گئی تھی۔،تصویر کا ذریعہGetty Imagesایک تفتیش کار نے سی بی ایس کو بتایا کہ ریلی کے مقام پر موجود سیکرٹ سروس کے ساتھ کام کرنے والے ایک مقامی سنائپر نے اس حملہ آور کی تصویر بھی بنائی تھی اور فوری طور پر حکام کو اس حوالے سے اطلاع دی تھی۔اے بی سی نیوز اور دیگر امریکی ذرائع ابلاغ کے مطابق حملہ آور کو دوبارہ 20 منٹ بعد ایک عمارت کی چھت پر بھی دیکھا گیا تھا۔بٹلر ٹاؤن کے مینیجر ٹوم نائٹس نے سی بی ایس نیوز کو اس حوالے سے بتایا کہ حملے سے قبل ایک مقامی پولیس اہلکار نے 20 سالہ حملہ آور کو عمارت کی چھت پر دیکھا بھی تھا۔اس پولیس اہلکار کو بتایا گیا تھا کہ وہاں ایک مشتبہ شخص کو دیکھا گیا ہے اور وہ پولیس اہلکار اس مشتبہ شخص کو تلاش کر رہا تھا۔ وہ پولیس اہلکار اس چھت پر بھی گئے جہاں حملہ آور موجود تھا۔جب پولیس اہلکار کا حملہ آور سے سامنا ہوا تو مسلح شخص نے ان پر بندوق تان دی جس کے سبب پولیس اہلکار زمین پر گر گئے۔پولیس اہلکار نے اس حوالے سے لوگوں کو خبردار کیا اور چند ہی سیکنڈز کے بعد فائرنگ شروع ہو گئی۔میتھیو کروکس نامی حملہ آور کو فائرنگ ہونے کے 26 منٹ بعد سیکرٹ سروس کے ایک نشانہ باز نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔فائرنگ کے واقعے کے بعد یہ مطالبات بھی سامنے آئے کہ سیکرٹ سروس کی سربراہ کمبرلی شیٹل مستعفی ہوں۔اے بی سی نیوز سے گفتگو کے دوران کمبرلی شیٹل نے حملے کو ناکام بنانے میں ناکامی کی ذمہ داری قبول کی۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ وہ استعفیٰ نہیں دیں گی۔کمبرلی شیٹل اگلے ہفتے امریکی کانگریس کی دو کمیٹیوں کے سامنے پیش ہوں گی اور اپنا بیان ریکارڈ کروائیں گی۔سابق انٹیلی جنس افسر نورمن رولے اس حوالے سے کہتے ہیں کہ ’سیکرٹ سروس پر جو کام کا بوجھ ہے وہ صرف بڑھا نہیں ہے بلکہ بہت زیادہ بڑھا ہے۔‘امریکی انٹیلی جنس افسران کے مطابق سنہ 2003 سے 2019 تک سیکرٹ سروس نے جعلی کرنسی بنانے اور مالی جرائم میں ملوث 29 ہزار افراد کو گرفتار کیا ہے۔ صرف 2023 میں سیکرٹ سروس نے تقریباً 5 ہزار ملکی اور 340 غیر ملکی مہمانوں کو سکیورٹی فراہم کی۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.