’دی ٹنڈر سوینڈلر‘: جعلی ارب پتی جس نے ٹنڈر پر ملی خواتین کے ساتھ ’لاکھوں ڈالروں کا فراڈ کیا‘
سائمن کی اکتوبر 2019 کے دوران یونان میں لی گئی تصویر
ٹنڈر ایک ڈیٹنگ ایپ ہے جو سنہ 2011 سے اپنے صارفین کو پارٹنر ڈھونڈنے میں مدد فراہم کر رہی ہے۔ نئے پارٹنر کی تلاش سے لے کر کسی اجنبی سے بات چیت اور ڈیٹنگ تک، دنیا بھر میں لوگ اس ایپ کا بکثرت استعمال کرتے ہیں۔
اس ایپ کا مقصد تو آپ کے ذاتی تعلقات کو فروغ دینا ہے مگر حالیہ دنوں میں اس ایپ سے متعلق ایک ایسا سکینڈل سامنے آیا جس کی وجہ سے لوگوں کو مالی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ اس بین الاقوامی سکینڈل نے نہ صرف عالمی دنیا کے ذرائع ابلاغ میں جگہ بنائی بلکہ نیٹ فلکس پر اس حوالے سے ایک فلم بھی سٹریم کی جا رہی ہے۔
رواں ماں ریلیز ہونے والی دستاویزی فلم ’دی ٹنڈر سوینڈلر‘ میں تین خواتین اپنی کہانی بیان کرتی ہیں جن کے ساتھ ایک ہی شخص نے مبینہ جعلسازی کی۔ وہ سائمن نامی شخص سے پہلی بار ٹنڈر کے ذریعے ہی ملی تھیں۔
ایک گھنٹے اور پچاس منٹ کی اس فلم میں ناروے کی سسیلی، سویڈن کی پرنیلا اور ڈچ شہری ایلین بتاتی ہیں کہ ٹنڈر پر ابتدائی بات چیت کے بعد سائمن اُن کی زندگی میں داخل ہوئے۔ خیال ہے کہ اس جعلی ارب پتی شخص نے ان کے ساتھ لاکھوں ڈالروں کی جعلسازی کی اور فرار ہو گیا۔ ان میں سے ایک متاثرہ خاتون نے انھیں دو لاکھ امریکی ڈالر تک دیے تھے۔
فلم کی کہانی ناروے کے اخبار ’وی جی‘ کی رپورٹ پر مبنی ہے جو فروری 2019 میں شائع ہوئی تھی۔ اس میں تین خواتین نے تسلیم کیا تھا کہ وہ سائمن کی جعلسازی کا شکار بنی تھیں۔
اس سلسلے میں تینوں خواتین نے سائمن کے واٹس ایپ پیغامات اور ویڈیوز پر مبنی شواہد دیے مگر اس کے باوجود اُن کے خلاف تاحال ٹھوس کارروائی نہ ہو سکی جبکہ سائمن نے بذات خود اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کی تردید کی ہے۔
دستاویزی فلم کی پذیرائی کے بعد ٹنڈر نے سائمن کا اکاؤنٹ معطل کر دیا ہے۔ لیکن سائمن آخر ہیں کون اور نیٹ فلکس کی فلم میں ان کے متعلق کیا کہا گیا ہے۔
سسیلی ان متاثرہ خواتین میں سے ہیں جو نیٹ فلکس کی فلم میں اپنی کہانی بیان کرتی ہیں
اسرائیل سے یورپ تک کا سفر
اخبار وی جی اور ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق سائمن کا اصل نام شیمون یہودا ہایو ہے اور وہ تل ابیب میں سنہ 1990 میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا تعلق ایک سخت گیر اور قدامت پسند یہودی گھرانے سے ہے۔
سائمن کے خلاف پہلی بار سنہ 2011 میں قانون کے تحت کارروائی ہوئی تھی۔ اُس وقت ان پر بعض افراد کے چیک چوری کرنے کا الزام تھا، وہ افراد جن کے لیے وہ کام کرتے تھے۔
اسرائیلی پولیس کی جانب سے گرفتار کیے جانے سے قبل وہ ایک جعلی پاسپورٹ پر اُردن کی سرحد کے ذریعے فرار ہو گئے اور یورپ منتقل ہو گئے۔ تاہم اسرائیل نے ان کی عدم موجودگی میں اُن کو 15 ماہ قید کی سزا سُنائی تھی۔
کئی برسوں تک ان کا کوئی اتا پتا نہیں تھا۔ مگر سنہ 2015 میں انھیں فن لینڈ میں تین خواتین کی شکایت پر فراڈ کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ وہاں انھیں تین سال قید کی سزا سُنائی گئی۔
یہ بھی پڑھیے
سنہ 2017 میں وہ اسرائیل لوٹ گئے اور انھوں نے قانونی طور پر اپنا نام تبدیل کر لیا۔ انھیں تب سے بین الاقوامی سطح پر سائمن کے نام سے ہی جانا جاتا ہے۔ مگر نام تبدیلی کے بعد انھوں نے جلد دوبارہ اسرائیل کو خیرآباد کہہ دیا۔
ان کی زندگی کا اس کے بعد کا حصہ نیٹ فلکس کی دستاویزی فلم میں دکھایا گیا جس میں وی جی کی رپورٹ کا حوالہ موجود ہے۔ اس میں کہا گیا کہ وہ معمول کے تحت ٹنڈر پر خواتین سے رابطہ کرتے اور مبینہ طور پر ان سے پیسے مانگتے تاکہ عیش و آرام کی زندگی گزار سکیں۔
ٹنڈر پر ان کا نام سائمن لائوائے تھا۔ وہ خود کو ایک معروف ارب پتی کا بیٹا ظاہر کرتے جنھوں نے ہیروں کے کاروبار سے بہت زیادہ پیسہ کمایا ہے۔
پرنیلا سائمن کو اچھا دوست سمجھتی تھیں مگر وہ ان کے ساتھ کسی رومانوی تعلق میں شریک نہیں تھیں
اس دستاویزی فلم کی ڈائریکٹر فلیسیٹی مورس اخبار دی گارڈین کو دیے انٹرویو میں بتاتی ہیں کہ یہ کسی فلم میں داخل ہونے جیسا منظر تھا جہاں وہ بتاتے کہ ان کا ایک باڈی گارڈ ہے اور وہ اپنے پرائیویٹ جہاز پر سفر کرتے ہیں۔
فلم کے مطابق سائمن اپنے ہر شکار سے ٹنڈر کے ذریعے ملتے اور وہ اپنے آپ کو ایک انتہائی اہم ارب پتی شخصیات کا بیٹا ظاہر کرتے ہیں جسے کسی ’دشمن‘ سے خطرہ ہے۔
تین متاثرہ خواتین بتاتی ہیں کہ بذریعہ ٹنڈر ملاقات اور تعلق بنانے کے بعد سائمن انھیں بتاتے تھے کہ انھیں ’سکیورٹی‘ کا شدید مسئلہ درپیش ہے جس کے لیے انھیں پیسوں کی ضرورت ہے۔ ان تینوں خواتین سے ان کا تعلق ہر بار رومانوی نوعیت کا نہیں تھا۔
مختلف وجوہات کی بنا پر ان خواتین نے انھیں پیسے ادھار دیے مگر سائمن نے ان سے وعدہ کیا کہ دھمکیوں پر قابو پانے کے بعد وہ پیسے لوٹا دیں گے۔ وہ انھیں یقین دلاتے کہ سکیورٹی کے مسائل کی وجہ سے ان کی زندگی بہت زیادہ متاثر ہو رہی ہے۔
پیسے لینے کے کچھ عرصے بعد سائمن غائب ہو جاتے ہیں جس سے یہ خواتین یا تو مقروض ہو جاتیں یا ان کے بینک اکاؤنٹ بالکل خالی ہو جاتے۔
ناروے کی سسیلی کو احساس ہوا کہ وہ ایک جعلسازی کی سکیم سے متاثر ہوئی ہیں۔ اسی لیے وہ اپنی کہانی منظر عام پر لے آئیں۔
یونان میں گرفتاری کے بعد انھیں اسرائیل بھیج دیا گیا تھا
اس رپورٹ کے بعد متاثرین کی زندگی
اخبار وی جی اور یورپ کے دیگر ذرائع ابلاغ میں سائمن پر الزامات کی خبر شائع ہونے کے بعد اکتوبر 2019 میں انھوں نے جعلی پاسپورٹ پر یونان فرار ہونے کی کوشش کی تھی۔
تاہم ایتھنز آمد پر انھیں پکڑ کر اسرائیل ڈی پورٹ کر دیا گیا جہاں انھیں 15 برس قید کی سزا سُنائی گئی اور متاثرین کو رقم لوٹانے کے لیے 50 ہزار امریکی ڈالر جرمانہ عائد کیا گیا۔
مقامی میڈیا کو دیے گئے انٹرویو میں سائمن نے ان خواتین کے الزامات اور جعلسازی کی سکیم کی تردید کی ہے۔ قید میں پانچ ماہ کے بعد عالمی وبا کے دوران انھیں رہا کر دیا گیا تھا۔
اسرائیل کے چینل 12 کو دیے انٹرویو میں انھوں نے کہا تھا کہ ’شاید انھیں اس تعلق میں میرے ساتھ رہنا پسند نہیں تھا، یا شاید انھیں میری حرکتیں پسند نہیں۔ شاید میں نے اس دوران ان کے دل توڑ دیے۔‘
’(مگر) میں نے ان سے ایک ڈالر بھی نہیں لیا۔ ان خواتین کو میری صحبت میں لطف اندوز ہونے کا موقع ملا۔ انھوں نے میرے پیسوں پر میرے ساتھ دنیا کی سیر کی۔‘
اسرائیل کے قانون کے نظام کے تحت انھیں رہا کر دیا گیا تھا مگر برطانیہ، ناروے اور نیدرلینڈز میں ان کے خلاف قانون کے تحت کارروائیوں کا آغاز ہو چکا ہے۔
دستاویزی فلم کے نتیجے میں سائمن نے اپنا انسٹاگرام اکاؤنٹ بند کر دیا ہے۔
ان کا آخری پیغام تھا کہ ’میں آنے والے چند دنوں میں کہانی میں اپنا مؤقف دوں گا، جب مجھے یہ سمجھ آ جائے گا کہ اسے بتانے کے لیے میرے اور باقی فریقین کے لیے بہترین اور باعث احترام طریقہ کیا ہے۔
’تب تک برائے مہربانی اپنے دل و دماغ کھول کر رکھیں۔‘
Comments are closed.