’جس عمارت سے گولی چلائی گئی اس میں پولیس اہلکار تعینات تھے‘: سخت سکیورٹی کے باوجود ٹرمپ پر حملہ کیسے ممکن ہوا؟،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, برنڈ ڈبسمین جونیئر اور نادین یوسف
  • عہدہ, بی بی سی نیوز
  • 4 گھنٹے قبل

سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر ایک انتخابی ریلی کے دوران قاتلانہ حملے نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔ حفاظت کے لیے موجود پولیس اہلکاروں اور ایجنٹس سمیت کئی سخت انتظامات کے باوجود مسلح حملہ آور ٹرمپ کے اتنے قریب کیسے پہنچے؟ یہ سوال زیادہ اہم اس لیے بھی ہے کیونکہ جس عمارت سے گولیاں چلائی گئیں اس کے اندر پولیس اہلکار تعینات تھے۔نوجوان حملہ آور تھامس میتھیو کروکس نے پینسلوینیا میں اس تقریب سے قریب ہی ایک عمارت کی چھت تک رسائی حاصل کی۔ انھوں نے ٹرمپ پر 130 میٹر کی دوری سے گولی چلائی۔سیکرٹ سروس کی ڈائریکٹر کمبرلی چیٹل نے اے بی سی نیوز کو بتایا کہ حملہ آور نے جس عمارت کی چھت استعمال کی اس کے اندر اور باہر مقامی پولیس کے اہلکار تعینات تھے۔

ذرائع نے امریکہ میں بی بی سی کے پارٹنر سی بی سی نیوز کو بتایا ہے کہ عمارت کے اندر مقامی پولیس کی تعیناتیوں میں تین سنائپر بھی شامل تھے جنھوں نے مبینہ طور پر یہ دیکھا تھا کہ حملہ آور کروکس عمارت کی چھت کی طرف جا رہا ہے۔اس حملے میں شرکا میں موجود ایک شخص ہلاک اور دو بُری طرح زخمی ہوئے جبکہ گولی ٹرمپ کے کان کو چھو کر گزر گئی۔سیکرٹ سروس کے ترجمان انتھونی گولیلمی نے کہا ہے کہ انتخابی ریلی کے مقام کو محفوظ بنانے کی ذمہ داری انھی کے ادارے کی تھی جبکہ مقامی پولیس کی ذمہ داری یہ تھی کہ مقام کے اردگرد علاقے کو سکیور کیا جائے۔ ان جگہوں میں وہ نجی عمارت بھی شامل ہے جسے حملہ آور نے استعمال کیا۔بی بی سی نے جب اس بارے میں کچھ سوال مقامی شیرف کے سامنے رکھے تو انھوں نے کہا کہ اس پر ریاستی پولیس جوابدہ ہے۔ جبکہ ریاستی پولیس نے کہا کہ یہ ان کی ذمہ داری نہیں تھی کہ اس علاقے کو بھی محفوظ بنائیں جہاں یہ عمارت واقع تھی۔

،تصویر کا ذریعہReutersپولیس کے ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ اس نے سیکرٹ سروس کی درخواست پر ’تمام وسائل‘ فراہم کیے جن میں ریلی کے مقام پر 30 سے 40 اہلکار شامل تھے۔کئی مبصرین نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ سابق امریکی صدر کی حفاظت کے لیے بنایا گیا سکیورٹی پلان کیسے ناکام ہوا اور ایک مسلح حملہ آور ٹرمپ پر گولی چلانے میں کیسے کامیاب ہوا؟انتخابی ریلی کے شرکا کا کہنا ہے کہ انھوں نے فائرنگ سے قبل ہی عمارت کی چھت پر موجود مشتبہ شخص کی نشاندہی کر لی تھی۔ بٹلر کاؤنٹی شیرف مائیکل سلوپ کہتے ہیں کہ ایک مقامی سکیورٹی اہلکار نے بھی حملہ آور کو دیکھا تھا مگر وہ اسے روک نہ سکے۔شیرف نے تسلیم کیا کہ علاقے کو محفوظ بنانے میں ’ناکامی‘ ہوئی۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس کا قصور کسی ایک فریق پر عائد نہیں ہوتا۔جیسن رسل ’سکیور انوائرمنٹس کنسلٹنٹ‘ نامی کمپنی کے بانی ہیں۔ انھوں نے 2002 سے 2010 تک انتخابی مہمات کے دوران بطور ایجنٹ کام کیا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ عام طور پر سابق صدور کی سکیورٹی کے لیے سیکرٹ سروس مقامی پولیس کی بھی مدد حاصل کرتی ہے۔جیسن رسل بی بی سی کو بتاتے ہیں کہ ’سیکرٹ سروس کے پاس لامحدود وسائل نہیں۔‘ یعنی ایسا نہیں ہے کہ سیکرٹ سروس ہر جگہ اپنے ایجنٹ تعینات کر سکتی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ایجنٹس اکثر انتخابی ریلی سے کچھ روز قبل انتخابی مہم کے مقام کا جائزہ لیتے ہیں تاکہ سکیورٹی پلان ترتیب دیا جائے جسے پھر مقامی پولیس ایجنسی کے ساتھ شیئر کیا جاتا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ تقریب کے دوران سکیورٹی کی ذمہ داری میں شریک ہر ایجنسی کے ساتھ مواصلاتی پیغامات کا تبادلہ کیا جاتا ہے۔ تاہم وہ کہتے ہیں کہ معلومات آگے جانے میں ’جو 10 سیکنڈ لگتے ہیں‘ وہ کسی مسلح حملہ آور کے لیے کافی وقت ہوتا ہے کہ وہ گولیاں چلا سکے۔این بی سی نیوز نے سیکرٹ سروس آپریشنز سے باخبر دو ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ اس عمارت کی چھت کو تقریب سے پہلے بھی ایک خطرہ سمجھا گیا تھا۔رسل کا کہنا ہے کہ امکان ہے کہ سیکرٹ سروس کے ایجنٹس نے اس عمارت کو ایک خطرہ قرار دیا ہوگا اور مقامی حکام سے درخواست کی ہوگی کہ اس تک رسائی روکنے کے لیے اہلکاروں کو تعینات کیا جائے۔وہ کہتے ہیں کہ ’کسی وجہ سے ایسا نہیں ہوا۔‘عینی شاہد تھامس گلیسن نامی نے پیرا ٹروپر اور رینجر کے طور پر 21 سال امریکی فوج میں خدمات سر انجام دی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’طویل رینج کے خطرات کے لیے بہتر سکیورٹی انتظامات ہونے چاہیے تھے۔‘’اس فاصلے اور مقام کو دیکھیں۔ اگر کوئی (ٹرمپ کو) قتل کرنا چاہے گا تو فائرنگ کے لیے اسی جگہ کو بہترین سمجھے گا۔‘اب ایف بی آر اس حملے کی تحقیقات میں مرکزی کردار ادا کر رہا ہے۔ امریکی کانگریس اور سینیٹ کی کئی دیگر تحقیقات میں بھی یہی فائرنگ موضوعِ بحث بن چکی ہے۔ہوم لینڈ سکیورٹی کے سیکریٹری الیہاندرو میورکس نے اسے ’سکیورٹی کی ناکامی‘ قرار دیا ہے۔ انھوں نے سی این این کو بتایا کہ ’ایسا واقعہ دوبارہ نہیں ہوسکتا۔‘پیر کو امریکی سیکرٹ سروس کی ڈائریکٹر کمبرلی چیٹل نے کہا کہ ان کی ایجنسی وفاقی اور مقامی پولیس کے ساتھ کام کر رہی ہے تاکہ واقعے کو ’سمجھا جا سکے، یہ معلوم ہوسکے کہ ایسا کیسے ہوا اور ہم آئندہ ایسے واقعات کو کیسے روک سکتے ہیں۔‘وہ کہتی ہیں کہ وہ فائرنگ پر کانگریس کی تحقیقات کے ساتھ تعاون کریں گی۔انھوں نے اے بی سی نیوز کو دیے انٹرویو میں بتایا کہ ’یہ میری ذمہ داری ہے۔‘ قانون سازوں کی جانب سے مستعفیٰ ہونے کے مطالبے کے باوجود ان کا کہنا ہے کہ وہ استعفی نہیں دیں گی۔22 جولائی کو چیٹل ایوان کی کمیٹی برائے نگرانی اور احتساب کا سامنا کریں گی۔کمیٹی کے رپبلکن ارکان نے سیکرٹ سروس سے شواہد مانگے ہیں۔ اس میں اندرونی مواصلات، آڈیو ویڈیو ریکارڈنگز، قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھیجے گئے پیغامات، نقشے، ڈائیگرامز اور تقریب سے قبل کے جائزے شامل ہیں۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}