سپریم کورٹ آف پاکستان نے سویلین کے کورٹ مارشل کے خلاف آئینی درخواست کی سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کردیا ہے۔
آرڈر آف دی کورٹ اور بینچ کی از سر نو تشکیل کے حکم کے ساتھ ہی جسٹس منصور علی شاہ کا نوٹ بھی شامل ہے۔
نوٹ میں جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اعتراض کی صورت میں جج کے ساتھ ادارے کی ساکھ کا بھی معاملہ ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ انصاف کی فراہمی کی غیر جانبداری مصنوعی نہیں حقیقی معنوں میں ہونی چاہیے، ظاہری اور حقیقی غیرجانبدارانہ انصاف عوامی اعتماد، قانون کی حکمرانی کےلیے ضروری ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے مزید کہا کہ غیر جانبداری سے شفاف ٹرائل، قانون کی حکمرانی، جمہوریت کی بقاء برقرار رہتی ہے، عدالتی نظام میں غیر جانبداری اخلاقی نہیں بلکہ عملی ہونی چاہیے۔
اُن کا کہنا تھا کہ عدالتی نظام میں حقیقی غیر جانبداری سے جمہوری روایات کی حفاظت ہوتی ہے، عدالتی نظام میں حقیقی غیر جانبداری سے شہریوں کی بنیادی حقوق کی حفاظت ہوتی ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے نوٹ میں کہا کہ کسی جج پر اعتراض کی معقول وجہ ہو تو عوامی اعتماد برقرار رکھنے کےلیے بنچ سے الگ ہو جانا چاہیے، میں تسلیم کرتا ہوں جواد ایس خواجہ میرے عزیز ہیں۔
انہوں نے کہا کہ عام شہری کےلیے فیصلہ کرنا مشکل ہے، درخواست گزار نے درخواست عوامی مفاد میں دائر کی یا ذاتی مفاد میں، میں اعتراض کو ترجیح دیتے ہوئے خود کو بینچ سے علیحدہ ہو رہا ہوں۔
جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت کے اعتراضات کی روشنی میں خود کو بینچ سے الگ کرتا ہوں، اٹارنی جنرل نے آج سماعت کے آغاز پر کہا کہ وفاقی حکومت کا اعتراض ہے کہ میں بینچ میں نہ بیٹھوں۔
اُنہوں نے کہا کہ جب ایک جج پر اعتراض اٹھایا جائے تو اسی جج نے فیصلہ کرنا ہوتا ہے بینچ میں بیٹھے یا انکار کرے، انصاف نہ صرف ہونا چاہیے بلکہ ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہیے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اٹارنی جنرل سمیت تمام وکلاء نے میری بینچ میں موجودگی پر کوئی اعتراض نہیں اٹھایا۔
ان کا کہنا تھا کہ اعلیٰ عدلیہ کے ججز کا حلف کہتا ہے کہ ہمیں اپنے ذاتی مفادات سے بالاتر ہونا چاہیے، سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے عوامی مفاد میں سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔
سپریم کورٹ کے جج نے تحریری نوٹ میں کہا کہ موجودہ زیر سماعت کیس سے جواد ایس خواجہ کسی طرح بھی متاثر نہیں ہوئے، میں نے خود سے فوجی عدالتوں کےخلاف کیس سننے والے بینچ سے علیحدگی اختیار نہیں کی۔
انہوں نے کہا کہ میں نے آئین پاکستان کے دفاع اور حفاظت کا حلف اٹھا رکھا ہے، اس کیس میں شفاف ٹرائل، بنیادی انسانی حقوق، انسانیت کی تکریم اور آزادی کا سوال ہے۔
جسٹس منصور علی شا نے کہا کہ عوامی مفاد کے کیس پر سماعت کےلیے فل کورٹ بینچ تشکیل دیا جانا چاہیے تھا، پاکستان میں موجود تمام دستیاب ججوں پر مشتمل فل کورٹ بننا چاہیے تھا۔
جسٹس منصور علی شاہ پر حکومتی اعتراض کے بارے میں تحریری حکم نامہ جاری کیا گیا، جس میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ کے ایک جج پر جسٹس جواد ایس خواجہ سے رشتہ داری کا اعتراض اٹھایا گیا، جس کے بعد انہوں نے بینچ سے علیحدگی اختیار کرلی ہے، جس کے بعد باقی ججز پر مشتمل 6 رکنی بینچ تشکیل دیا گیا ہے۔
Comments are closed.