سپریم کورٹ کے جسٹس مظاہر نقوی نے شوکاز نوٹس کا جواب دینے کے بجائے سپریم جوڈیشل کونسل کی تشکیل پر اعتراض اٹھا دیا۔
ذرائع کے مطابق جسٹس مظاہر نقوی نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق پر اعتراض اٹھایا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ جسٹس مظاہر نقوی کی جانب سے جسٹس نعیم اختر افغان پر بھی اعتراض کیا گیا ہے۔
ذرائع کے مطابق جسٹس مظاہر نقوی نے سپریم جوڈیشل کونسل میں درج ریفرنس اور شواہد کا تمام ریکارڈ بھی مانگ لیا ہے۔
جسٹس مظاہر نقوی کا کہنا ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل میں شامل ممبران میرے بارے میں جانبدار ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس نعیم اختر افغان آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کا حصہ ہیں، آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کے ممبران کو میرے خلاف جوڈیشل کمیشن کا حصہ نہیں ہونا چاہیے۔
جسٹس مظاہر نقوی کا کہنا ہے کہ انصاف کے تقاضوں کو مدنظر رکھنا چاہیے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس نعیم افغان کو میرے خلاف کونسل کا حصہ نہیں ہونا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا ہے کہ جانبدار سپریم جوڈیشل کونسل کے جاری اظہار وجوہ کا نوٹس بھی جانبدار ہے جس کا جواب نہیں دیا جاسکتا۔
جسٹس مظاہر نقوی کی جانب سے کہا گیا ہے کہ میرے خلاف کارروائی امتیازی سلوک اور آرٹیکل 25 کی خلاف ورزی ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے میری سپریم کورٹ تعیناتی سمیت متعدد فیصلوں کی مخالفت کی۔
جسٹس مظاہر نقوی نے کہا ہے کہ جسٹس فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق نے میرے خلاف کارروائی کے لیے سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کو خط لکھا تھا، جوڈیشل کونسل نے 27 اکتوبر کی پریس ریلیز میری رضا مندی کے بغیر جاری کی۔
انہوں نے اعتراض اٹھایا ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل کی پریس ریلیز میرے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے، پریس ریلیز کا مقصد میرا میڈیا ٹرائل اور عوام کی نظر میں تضحیک کرنا تھی، سپریم جوڈیشل کونسل اکثریت سے صرف حتمی رائے صدرِ مملکت کو بھجوا سکتی ہے۔
جسٹس مظاہر کا اعتراض ہے کہ جج کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی صرف اتفاق رائے سے ہی ممکن ہے، آئین سپریم جوڈیشل کونسل کو رولز بنانے کی اجازت ہی نہیں دیتا، چیف جسٹس اورجسٹس سردار طارق جوڈیشل کونسل رولز کو پہلے ہی غیرآئینی کہہ چکے ہیں۔
جسٹس مظاہر کا اعتراض ہے کہ شوکاز نوٹس میں اپنا مؤقف تبدیل کرنے کی دونوں ججز نے کوئی وجہ نہیں بتائی، شکایات پر سپریم جوڈیشل کونسل میں بحث ہوئی نہ کسی سے معلومات لی گئیں، جسٹس سردار طارق کے کیس میں کونسل نے شکایت کنندہ کو ذاتی حیثیت میں طلب کیا اور شواہد مانگے۔
ان کا کہنا ہے کہ میرے کیس میں شکایت کنندہ کو بلایا نہ ہی مزید معلومات فراہم کرنے کا کہا گیا، جو موقع جسٹس سردار طارق کو کونسل کی جانب سے دیا گیا وہ مجھے نہیں ملا، شوکاز نوٹس میں کوئی الزام عائد نہیں کیا گیا، شوکاز کے ساتھ منسلک 10 شکایات میں غیر سنجیدہ الزامات ہیں جن کے شواہد بھی موجود نہیں۔
جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے اعتراض اٹھایا ہے ک یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ میرے خلاف کارروائی سیاسی ایما پر ہو رہی ہے، میرے خلاف کارروائی غیر قانونی اور نامناسب ہے۔
انہوں نے اعتراض کیا ہے کہ جسٹس سردار طارق مسعود پہلے ہی میرے خلاف ریفرنس پر قانونی رائے دے چکے ہیں، جسٹس سردار طارق مسعود نے جسٹس عرفان سعادت کی حلف برداری کی تقریب میں صحافیوں سے ملاقات میں میرے بارے میں تضحیک آمیز گفتگو کی۔
جسٹس مظاہر نقوی نے کہا ہے کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اپنے ریفرنس سے جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس سردار طارق اعتراض پر خود الگ ہو گئے تھے۔
انہوں نے استدعا کی ہے کہ میرے خلاف تمام شکایات فضول اور مفروضوں پر مبنی ہونے کی بنیاد پر مسترد کی جائیں۔
واضح رہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل نے27 اکتوبر کے اجلاس میں انہیں شوکاز نوٹس جاری کیا تھا اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کو 10 نومبر تک جواب جمع کرانے کا کہا گیا تھا۔
Comments are closed.