سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیئرمین جوڈیشل کمیشن اور ارکان کے نام خط لکھا ہے جس میں سپریم کورٹ کےلیے دو نام تجویز کردیے۔
اپنے خط میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سپریم کورٹ میں 13 جولائی اور 13 اگست 2022 سے 2 ججز کی اسامیاں خالی ہیں۔ جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس سجاد علی شاہ کو ریٹائر ہوئے 19 ماہ گزر چکے ہیں۔
خط کے متن میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ ایکٹ 1997 کے تحت ججز کی تعداد 16 ہے، سپریم کورٹ کو بلاوجہ نامکمل رکھا جائے تو میری رائے میں یہ آئین اور قانون کے مطابق نہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اس وقت سپریم کورٹ آف پاکستان میں زیر التواء مقدمات کی تعداد 53 ہزار ہے، آج سے 9 سال قبل زیرِ التواء مقدمات کی تعداد اب سے آدھی تھی۔
انہوں یہ بھی کہا کہ بڑی تعداد میں زیر التواء مقدمات سے سائلین کے مفاد کو نقصان پہنچ رہا ہے، میری درخواست ہے کہ ججز کی خالی اسامی پر فوری تقرر ہونا چاہیے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ میں دو اسامیوں پر موسم گرما کی تعطیلات سے پہلے تقرری کی جائے، تعطیلات سے پہلے جوڈیشل کمیشن کے تمام ارکان موجود ہوں گے۔
انہوں نے اپنے خط میں یہ بھی کہا کہ آئینی ذمہ داری سمجھتے ہوئے 2 جج صاحبان کے نام چیف جسٹس کے غور کےلیے تجویز کرتا ہوں۔
خط میں کہا گیا کہ چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ جسٹس احمد علی شیخ اور چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ جسٹس مسرت ہلالی کا نام تجویز کرتا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ جسٹس مسرت ہلالی کو کمیشن نے متفقہ طور پر چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ تعینات کیا تھا۔ سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو سپریم کورٹ نہ لایا گیا تو سندھ کے لوگوں میں مایوسی ہوگی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا کے لوگوں کا شکوہ ہے ان کے صوبے سے سپریم کورٹ کا صرف ایک جج ہے، آئین پاکستان مساوات کا درس دیتا ہے اور امتیازی سلوک سے منع کرتا ہے۔ آئین جگہ، پیدائش، رہائش، جنس کی بنیاد پر اور نسلی امتیاز سے منع کرتا ہے۔
خط میں کہا گیا کہ چیف جسٹس پاکستان سے استدعا ہے کہ جوڈیشل کمیشن کا اجلاس جلد بلایا جائے۔
Comments are closed.