جرمنی کے عجائب گھرمیں نو کروڑ 80 لاکھ پاؤنڈ کے جواہرات کی ڈکیتی کیسے ہوئی؟
جرمنی کے شہر ڈریسڈین میں زیوارت کی چوری میں ملوث پانچ افراد کو سزا سنا دی گئی ہے۔
سنہ 2019 میں ان چوروں کی جانب سے شہر کے میوزیم سے نو کروڑ 80 لاکھ پاؤنڈ مالیت کے ہیرے جواہرات چرائے گئے تھے۔
پولیس نے بعد میں متعدد زیورات برآمد کر لیے جن میں ایک ایسی تلوار بھی تھی جس میں ہیرے جڑے ہوئے تھے لیکن خدشہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ شاید چوری کیے جانے والے کئی زیورات کبھی برآمد نہ کیے جا سکیں۔
یہ تمام افراد ایک بدنامِ زمانہ جرائم پیشہ گروہ کے اراکین ہیں اور انھیں چار سے چھ سال تک قید کی سزا سنائی گئی ہے۔
یہ ڈکیتی ایک منصوبے کے تحت کی گئی تھی۔ یہ گینگ جو برلن میں مقیم تھا اس نے اس جگہ کا متعدد مرتبہ دورہ کیا اور میوزیم میں داخلے کے لیے راستے کا چناؤ پہلے ہی کر لیا۔ انھوں نے ہائڈرالک کٹنگ مشین کے ذریعے ایک کھڑکی کی سلاخیں کاٹیں تاہم بعد میں انھیں ٹیپ کے ساتھ عارضی طور پر جوڑ بھی دیا تاکہ ڈکیتی کے روز یہاں سے آسانی سے داخل ہوا جا سکے۔
پھر 25 نومبر 2019 کو علی الصبح انھوں نے میوزیم کے قریب ایک سرکٹ بریکر پینل میں آگ لگائی جس سے میوزیم کے گرد موجود گلیوں میں اندھیرا چھا گیا اور اس دوران دو افراد میوزیم میں داخل ہو گئے۔
سی سی ٹی وی فوٹیج میں ڈاکوؤں کو ماسک پہنے دیکھا جا سکتا ہے اور ان کے ہاتھوں میں کلہاڑیاں بھی دیکھی جا سکتی ہیں جس کی مدد سے انھوں نے گریونس گیوایلبی میوزیم میں موجود شو کیسز کے شیشے توڑے اور ان میں نمائش کے لیے رکھے زیورات نکالے۔
اس کے بعد ڈاکوؤں نے آگ بجھانے والے آلے کا فوم پورے کمرے میں فرش پر سپرے کر دیا تاکہ ثبوت مٹائے جا سکیں۔ اس کے بعد وہ آڈی گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہو گئے جسے بعد میں انھوں نے اسے ایک کار پارک میں چھوڑ دیا اور اسے آگ لگا دی جس کے بعد وہ جرمنی کے دارالحکومت برلن روانہ ہو گئے۔
ایک سال تک کی جانے والی تحقیقات کے بعد پولیس نے پہلی گرفتاریاں کیں۔ جن افراد کو سزا دی گئی ہے ان سب کا تعلق ریمو نامی گروہ سے ہے۔ جرمنی میں اس طرح کے متعدد گروہ موجود ہیں اور یہ منصوبے کے تحت کیے جانے والے جرائم میں ملوث رہے ہیں، جن میں ایک ڈیپارٹمنٹ سٹور اور بینک ڈکیتی بھی شامل ہے۔
ڈریسڈن میں ہونے والی ڈکیتی میں شامل ایک ڈاکو کو اس سے قبل ایک بڑے سائز کا سونے کا سکہ چرانے کے الزام میں بھی سزا ہوئی تھی جس کا وزن 100 کلو تھا۔ یہ سنہ 2017 میں برلن کے بودے میوزیم سے چرایا گیا تھا۔ یہ سکہ کبھی برآمد نہیں ہو سکا تھا اور یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یا تو اسے پھگلا دیا گیا، یا توڑ دیا گیا ہو گا۔
ڈریسڈن کے سٹیٹ آرٹ کلیکشن کی ڈائریکٹر پروفیسر ماریون ایکرمین کہتی ہیں کہ ’ایسے افراد بھی ہیں جو آرٹ کے لیے اپنے لگاؤ کے باعث چیزیں چراتے ہیں، لیکن یہ اس کے بالکل برعکس تھا۔ انھیں بالکل بھی معلوم نہیں تھا کہ انھوں نے کیا چرایا ہے۔‘
آغاز میں اس حوالے سے خدشات موجود تھے کے سونے کے سکے کی طرح ہیرے جواہرات کا یہ خزانہ بھی اب کبھی نہیں ملے گا تاہم جب تین ملزمان نے اعترافِ جرم کیا تو اس میں سے اکثر اشیا واپس کر دی گئیں کیونکہ انھوں نے ان کی موجودگی کی جگہ کے بارے میں بتا دیا تھا تاکہ انھیں کم سزا ملے۔
تاہم اب بھی متعدد اشیا غائب ہیں جن میں ایک نایاب ہیرا بھی شامل ہے جسے وائٹ سٹون آف سیکسونی کہا جاتا ہے۔
یہ تمام ہیرے جواہرات دراصل 18 صدی میں آگسٹس دی سٹرانگ کی جانب سے جمع کیے گئے تھے جو اس وقت سیکسونی کے ایلیکٹر تھے۔
انھوں نے نہ صرف ایسی اشیا اکٹھی کی تھیں جن پر ہیرے جڑے ہوئے تھے بلکہ وہ گرین والٹ بھی ڈیزائن کیا جہاں انھیں نمائش کے لیے رکھا گیا تھا۔
پروفیسر ایکرمین کا کہنا ہے کہ جو اشیا تاحال گمشدہ ہیں ان کا نہ ہونا اس لیے تکلیف دہ ہے کیونکہ آگسٹس چاہتے تھے کہ جو بھی شخص انھیں دیکھنے آئے وہ تمام اشیا کو ایک ترتیب سے دیکھے اور ان سب کی موجودگی اور دلکش پتھروں اور رنگوں سے متاثر ہو۔
اس ڈکیتی نے آرٹ کی دنیا کو ہلا کر تو رکھ دیا تھا لیکن اس کے ساتھ ساتھ میوزیم کی سکیورٹی پر بھی سوالات اٹھائے تھے۔
مقدمے کے دوران ایک ڈاکو نے بھی ناقص سکیورٹی کے حوالے سے حیرت کا اظہار کیا کہ وہ کھڑکی کی سلاخیں کاٹنے میں بغیر کسی پریشانی کے کامیاب ہوئے تھے حالانکہ اس عمل کے دوران آواز بھی آ رہی تھی۔
پروفیسر ایکرمین نے بتایا کہ میوزیم کی سکیورٹی کی ذمہ داری ڈریسڈن سٹیٹ آرٹ کلیکشن اور ایک سرکاری ادارے کے درمیان تقسیم کی گئی تھی اور ان کے مطابق یہ نظام جرمنی میں بہترین سمجھا جاتا ہے۔
تاہم ان کا کہنا ہے کہ ’ایک سکیورٹی نظام میں متعدد چیزوں پر غور کیا جاتا ہے۔ ان میں عمارت، ادارہ اور تکنیکی پہلو۔ ان تمام پہلوؤں کا کام کرنا ضروری ہے اور اس دوران متعدد چیزیں کام نہیں کر رہی تھی۔‘
وہ کہتی ہیں کہ جس نظام سے میوزیم کی باہر کی دیواروں کی نگرانی کی جاتی تھی وہ فیل ہو گیا اور جو گارڈ اس دوران مرکزی سکیورٹی روم میں بیٹھے تھے جنھوں نے یہ ساری صورتحال اپنے مانیٹرز پر دیکھی پولیس کو بلانے میں سست روی کا شکار نظر آئے۔
پولیس نے ان چار سکیورٹی گارڈز کے خلاف بھی انکوائری کی تھی کہ کہیں وہ بھی ڈاکوؤں کی سہولت کاری نہیں کر رہے تھے تاہم گذشتہ برس یہ انکوائریاں بند کر دی گئیں۔
آج اس میوزیم کا سکیورٹی سسٹم دوبارہ نصب کیا گیا ہے اور میوزیم سٹاف نے اپنی ساری توجہ ان جواہرات کی واپسی پر مرکوز کر رکھی ہے۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ آگسٹس کا خزانہ دوبارہ اپنی اصلی حالت میں لایا جا سکتا ہے اور اپنی پرانی حالت میں اس کی نمائش ہو سکتی ہے۔ تاہم کچھ افراد کا خیال کہ شاید اب یہ کلیکشن کبھی بھی مکمل نہ ہو پائے۔
Comments are closed.