روس، یوکرین تنازع: جرمنی نے یوکرین کو اسلحہ فراہم کرنے سے کیوں انکار کیا؟
- جینی ہِل
- بی بی سی کی نامہ نگار، برلن
سیلو ہائلٹس کی جانب بڑھتی سوویت فوج
ایک ایسے وقت میں جب روس اور یوکرین کے درمیان تنازع بڑھ رہا ہے جرمنی نے نیٹو اتحادی کو ہتھیار فراہم کرنے سے انکار کر دیا ہے جس پر کئی یورپی ممالک پریشان اور ناراض ہیں۔ لیکن یورپ کے طاقتور ترین ملک کے پیچھے ہٹنے کی وجوہات تاریخی اور پیچیدہ ہیں۔
برلن کے مشرق میں گھاس کا ایک بڑا میدان ہے جہاں کی مٹی میں جنگ کی خوفناک کہانیاں موجود ہیں۔
یہاں آج بھی جب کسان ہل چلاتے ہیں تو زیر زمین انسانی ہڈیاں اور اسلحے کے ٹکڑے ملتے ہیں جو دوسری عالمی جنگ کی سفاک ترین لڑائیوں کی باقیات ہیں۔
یہ 1945 میں بہار کا موسم تھا۔ جرمنی کے سربراہ ہٹلر برلن کے ایک بنکر میں چھپے ہوئے تھے۔ ان کی فوجیں پپسپا ہو رہی تھیں۔
سوویت فوجیں مشرق سے آگے بڑھ رہی تھیں لیکن ان کے اوپر سیلو ہائٹس نامی پہاڑی پر جرمن نازیوں نے دفاعی پوزیشن سنبھال رکھی تھی۔
ہر لحاظ سے وہاں گھمسان کی لڑائی ہوئی جس میں خون کی ہولی کھیلی گئی۔ سوویت فوج نے بالآخر فتح حاصل کی جس کی وجہ سے جنگ کے خاتمے میں تیزی آئی لیکن ایک اندازے کے مطابق اس جنگ میں ان کے 30,000 فوجی مارے گئے تھے۔
سیلو ہائٹس میں اس جنگ کی یادگار کا دورہ کرنے سے یہ سمجھنا آسان ہو جاتا ہے کہ بہت سے جرمنوں کے ذہنوں میں اس کی تاریخ کتنی گہری طرح پیوست ہے اور کس طرح بیسویں صدی کے واقعات آج بھی اس کی خارجہ پالیسی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
یہ ان وجوہات میں سے ایک ہے جن کی بنا پر جرمنی نے یوکرین کو ہتھیار بھیجنے سے انکار کر دیا ہے۔
جرمنی مجموعی طور پر اب امن پسندوں کی قوم ہے۔
ایک سالانہ سروے سے پتا چلتا ہے کہ زیادہ تر جرمنوں کا خیال ہے کہ تنازعات کو حل کرنے کا بہترین طریقہ سفارتی مذاکرات ہیں۔ جرمن فوجی امن مشن کے علاوہ کسی اور طرح کے آپریشن میں شاذ و ناذر ہی حصہ لیتے ہیں۔ اگرچہ ان میں 90 کی دہائی میں بلقان اور حال ہی میں افغانستان جیسے چند استثنی بھی ہیں جو کہ بہت متنازع ہیں۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ دنیا کے سب سے بڑے ہتھیاروں کے برآمد کنندگان میں سے ایک ہے (حالانکہ اس کی پیداوار امریکہ اور روس کے مقابلے میں کم ہے)۔ اور اس کا اس بات پر سخت کنٹرول ہے کہ ہتھیار کہاں بھیجے جاتے ہیں حالانکہ انگیلا میرکل کی حکومت پر بعض اوقات ان اصولوں پر قائم نہ رہنے کا الزام بھی لگایا گیا تھا۔
جرمن مارشل فنڈ کے تھامس کلین بروک ہاف کا کہنا ہے کہ ’جب بھی کسی قسم کے فوجی تنازعات کی بات آتی ہے تو جرمنی کی ایک پرانی تحمل کی پالیسی رہی ہے اور ہتھیاروں کی برآمد کو وہاں تنازعات کو کم کرنے کے بجائے تنازعات کو ہوا دینے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ ان کی یہ پالیسی تنازعات والے علاقوں میں اسلحہ برآمد نہیں کرنے کے حق میں ہے۔‘
جرمنی نے شمالی عراق میں داعش سے لڑنے والے پیشمرگا جنگجوؤں کو مسلح کرنے کے معاملے میں اس اصول سے روگردانی کی تھی۔ لیکن اس کا کہنا ہے کہ یوکرین میں صورتحال مختلف ہے۔ اس کے پس پشت اس کی تاریخ ہے جس میں یوکرین اور روس میں نازیوں کے ہاتھوں لاکھوں لوگوں کا قتل شامل ہے۔
انگیلا میرکل کا افغانستان کا دورہ
ان کا کہنا ہے کہ ‘ایسی خونی سرزمین کو اسلحہ برآمد کرنا جسے جرمنی نے تخلیق کرنے میں مدد کی تھی، خونی سرزمینوں کے ایک حصے کو دوسرے خونی سرزمینوں کے خلاف ہتھیار فراہم کرنا جرمن سیاسی مباحثے میں انتشار کا باعث رہا ہے۔’
یوکرین کی سرحد پر صورتحال جرمنی کی نئی مخلوط حکومت کا امتحان لے رہی ہے۔
چانسلر اولاف شولز کے خیال میں کووڈ شاید ان کے لیے سب سے بڑا چیلنج تھا لیکن اب وہ اپنے بین الاقوامی اتحادیوں کی طرف سے دباؤ میں ہیں کہ وہ اپنے ملک کو ایک نئی، زیادہ عقابی پوزیشن پر منتقل کریں۔’
ان کی حکومت سوشل ڈیموکریٹس، گرینز اور فری ڈیموکریٹس کا اتحاد ہے جوکہ گذشتہ سال کے آخر میں اقتدار میں آئی۔ ان کی حکومت نے اقدار پر مبنی خارجہ پالیسی اور اسلحے کی برآمدات پر سخت پابندیوں کا وعدہ کیا ہے۔
کئی جانب سے کیو کو ہتھیار بھیجنے کی گزارش کی مزاحمت کرتے ہوئے چانسلر شولز نے ہتھیار بھیجنے کے بجائے ایک فیلڈ ہسپتال کے لیے فنڈ دینے، جرمنی میں زخمی فوجیوں کا علاج اور پانچ ہزار ہیلمٹ یوکرین بھیجنے کی پیشکش کی ہے۔
جرمنی کی ہچکچاہٹ کی دوسری وجوہات بھی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ وہاں بہت سے لوگ اس بات پر یقین نہیں رکھتے کہ ہتھیار بھیجنے سے بحران حل ہو جائے گا۔
یہ بھی پڑھیے
شولز کی وزیر خارجہ اور گرین پارٹی کی سیاست دان اینالینا بائربوک نے نشاندہی کی کہ جرمنی یوکرین کو مالی امداد دینے والا ملک ہے اور اس کا خیال ہے کہ یہ اسلحہ بھیجنے سے زیادہ موثر ہے۔
’میرے خیال میں یہ یقین کرنا حقیقت پسندانہ نہیں ہے کہ اس طرح کے ہتھیاروں کی برآمدات فوجی عدم توازن کو بدل سکتی ہیں۔ بہترین تحفظ مزید جارحیت کو روکنا ہے۔ اگر آپ اس لفظ کو استعمال کرنا چاہتے ہیں تو سب سے مضبوط ہتھیار یہ ہے کہ ہم نیٹو کے رکن کے طور پر متحد ہیں۔ جیسا کہ یورپی یونین کی 7جی ریاستوں کا کہنا ہے کہ ہر نئی جارحیت کے اپنے بڑے نتائج ہوں گے۔‘
چانسلر شولز اپنے پیشرو کی طرف سے اختیار کردہ مکالمے پر مبنی نقطہ نظر کے حامی ہیں۔ انگیلا میرکل نے فرانس کے صدر میکخواں کے ساتھ مل کر نام نہاد نارمنڈی فارمیٹ قائم کرنے میں اہم کردار ادا کیا جس کے تحت جرمنی، فرانس، یوکرین اور روس نے مشرقی یوکرین میں جنگ بندی قائم کرنے کا ارادہ کیا۔ امید ہے کہ اب وہی فارمیٹ کام کرے گا۔
چانسلر کے سوشل ڈیموکریٹس کے خارجہ امور کے ترجمان نیلز شمٹ کا کہنا ہے کہ فرانس اور جرمنی ثالث ہیں اور میرے خیال میں ثالثی کرنے والے ملک کے لیے یہ بہت مناسب نہیں ہے کہ وہ یوکرین میں ایک فریق کو ہتھیار بھیجے، کیونکہ ہم سفارتی حل کو فروغ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اور جرمنی اس طرح کی سفارت کاری کے لیے اچھی پوزیشن میں ہے۔ اگرچہ چانسلر شولز کا صدر پوتن کے ساتھ مسز میرکل جیسا اثرو رسوخ نہیں ہو سکتا لیکن اپنی تاریخ کی بدولت روس کے ساتھ جرمنی کا تعلق بہت سے دوسرے مغربی ممالک کے مقابلے میں مختلف ہے۔
ہزاروں جرمن کمپنیاں وہاں کاروبار کرتی ہیں۔ بشمول انگیلا میرکل بہت سے جرمن باشندے آہنی پردے کے پیچھے پلے بڑھے ہیں اور اپنے سکولوں میں روسی زبان سیکھی ہے۔ وہ ولادیمیر پوتن کے ساتھ باقاعدگی سے بات چیت کرنے کی صلاحیت رکھتی تھیں جبکہ دوسرے رہنما ایسا نہیں کر سکتے تھے۔ ان کی اس صلاحیت کو اکثر کمیونسٹ مشرقی جرمنی میں ان کی زندگی کے مشترکہ تجربے سے منسوب کیا جاتا ہے۔
دنیا بھر میں بہت سے لوگوں کو جو بات پریشان اور ناراض کر رہی ہے وہ یہ ہے کہ آخر چانسلر شولز اپنا سب سے واضح کارڈ کیوں نہیں کھیل رہے ہیں۔
نازی سویت معاہدہ
دونوں ممالک کے اقتصادی تعلقات نارڈ سٹریم ٹو پائپ لائن کی شکل میں شاید سب سے زیادہ متنازع ہیں کیونکہ اگر یہ کھل جاتی ہیں تو جرمنی کے راستے یورپ میں آنے والی روسی گیس کی مقدار دگنی ہو جائے گی۔
چانسلر شولز پر اس منصوبے کو ختم کرنے کی صورت میں روس کے خلاف پابندی عائد کرنے کا دباؤ ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اس نے ابھی تک ایسا اس لیے نہیں کیا ہے کیونکہ اس میں جرمنی کا اپنا مفاد پوشیدہ ہے۔
یہ ان کی حکومت کے لیے ایک تکلیف دہ موضوع ہے۔ ان کے سوشل ڈیموکریٹس کا کہنا ہے کہ یہ پائپ لائن ایک نجی اقتصادی منصوبہ ہے، وہ اس کے پیچھے ہیں۔ لیکن اس کے شراکت دار، ایف ڈی پی کہتے ہیں کہ یہ سیاسی ہے اور گرینز کو اسے جانے دینے میں کوئی قباحت نہیں ہوگی۔
مسٹر شولز نے اشارہ دیا ہے کہ اگر روس یوکرین پر حملہ کرتا ہے تو پائپ لائن سمیت تمام آپشن میز پر ہوں گے۔ لیکن ان کی خاموش آواز زیادہ دور تک نہیں جا سکی جس سے کچھ لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہوئے کہ آیا تاریخ اس کا فیصلہ کرے گی کہ وہ ہوشیار یا کمزور ہیں کہ تذبذب کا شکار ہیں۔
مسٹر شمٹ کہتے ہیں کہ ’ایک خاص سطح کے تزویراتی ابہام کا ہونا دانشمندی ہے تاکہ پوتن یہ حساب لگانا شروع نہ کر سکیں کہ ایسا کرنے یا ویسا کرنے کی صورت میں انھیں کون سی قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ اس لیے میز پر ان تمام آپشنز کا ہونا بہت ضروری ہے۔‘
اور اس دوران جیسا کہ ولادیمیر پوتن مغرب کے اعصاب کا امتحان لے رہے ہیں، جرمنی کو اپنی امن پسند جبلت کے بارے میں بنیادی سوالات کا سامنا ہے۔
یہاں تک کہ میرکل کے دور کے اختتام پر عالمی سطح پر جرمنی سے زیادہ اہم فوجی کردار ادا کرنے کے مطالبات بڑھ رہے تھے۔
اور سیلو ہائٹس کے زائرین کے طور پر جو کاتیوشا راکٹوں کے شور اور مرتے ہوئے لوگوں کی چیخوں کا تصور کرتے ہیں وہ یہ سمجھ جائیں گے کہ اس کے غلط ہونے کے نتیجے میں جرمنی اچھی طرح جانتا ہے کہ کیا داؤ پر لگا ہوا ہے۔
Comments are closed.