اور پھر یہ پتا چلا کہ مضبوط قد و قامت والا حملہ آور کوئی اور نہیں بلکہ ایک روسی شہری ودیم کراسیکوف ہے جس کا تعلق روسی سکیورٹی سروس ’ایف ایس بی‘ سے تھا۔ یہ وہی شخص تھا جس نے چھ برس قبل یعنی سنہ 2013 میں ماسکو میں ریستوران کے مالک کو قتل کیا تھا۔اور اب امریکی ٹی وی ٹاک شو کے میزبان ٹکر کارلسن کو دیے گئے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے اِن خبروں کی تصدیق کی کہ اُن کا ملک روس میں مقید امریکی صحافی ایون گرشکووچ کی رہائی کے بدلے ’محب وطن‘ روسی شہری ودیم کراسیکوف (قتل کا ملزم) کی رہائی چاہتا ہے۔معروف امریکی جریدے وال سٹریٹ جرنل سے منسلک رپورٹر ایون گرشکووچ کو جاسوسی کے الزام میں ایک برس قبل روس میں حراست میں لیا گیا تھا۔ صحافی کا اخبار اور امریکی حکومت روس کی جانب سے ان پر جاسوسی کے الزامات کی تردید کرتے ہیں۔ایون گرشکووچ روس کی جیل میں قید واحد امریکی شہری نہیں ہیں جن کی قسمت مبینہ قاتل ودیم کراسیکوف کے ساتھ جڑی ہے۔ سابق امریکی میرین پال ویلان اور امریکی روسی شہری السو کرمشیوا کو بھی روس میں جاسوسی کے الزامات کے تحت حراست میں لیا گیا ہے، ان گرفتاریوں کو بڑے پیمانے پر سیاسی محرکات کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔یہاں تک کہ روس میں 19 سال قید کی سزا کاٹنے کے بعد جیل میں ہلاک ہونے والے روسی حزب اختلاف کے رہنما الیکس نوالنی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اُن کا نام بھی ودیم کراسیکوف کی رہائی کے تبادلے کا حصہ تھا۔صدر پوتن نے ماضی میں کہا تھا کہ وہ مغرب میں ’کچھ لوگوں‘ کے بدلے میں نوالنی کو رہا کرنے پر رضامند ہو گئے تھے، لیکن وائٹ ہاؤس کا کہنا تھا کہ اس نے اس طرح کے کسی معاہدے کے بارے میں پہلی بار سُنا ہے۔اگر صدر پوتن کا ودیم کراسیکوف کو قیدیوں کے تبادلے میں رہائی کا یہی مطالبہ رہا تو اس کا مطلب ہے کہ روس میں حراست میں لیے گئے امریکیوں کی رہائی کا سب سے قابل عمل طریقہ ودیم کراسیکوف کو رہا کرنا ہو گا جس کے لیے جرمنی، امریکہ اور روس میں تعاون کی ضرورت ہو گی۔تو آخر سوال یہ ہے کہ صدر پوتن مبینہ قاتل ودیم کراسیکوف کو واپس روس لانے کے لیے اتنے بے چین کیوں نظر آتے ہیں؟،تصویر کا ذریعہReuters/EPA
ریاست کی طرف سے منظور شدہ قتل
برلن میں ہونے والے چیچن رہنما کے قتل میں روس کے ممکنہ طور پر ملوث ہونے کا پہلا سراغ ودیم کراسیکوف کے پس منظر سے ملتا ہے۔تحقیقاتی ویب سائٹ ’بیلنگ کیٹ‘ کو حاصل ہونے والی دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ ودیم سنہ 2013 میں ماسکو میں ہونے والے ریستوان مالک کے قتل میں مطلوب تھے۔ تاہم دو سال بعد ہی روسی اداروں کی جانب سے اُن کا وارنٹ گرفتاری واپس لے لیا گیا اور سرکاری ریکارڈ سے ’ودیم کراسیکوف‘ کی شناخت مکمل طور پر غائب ہو گئی۔’ودیم کراسیکوف‘ کی شناخت سرکاری ریکارڈ سے غائب ہونے کے بعد یہی وہ وقت تھا جب سرکاری کاغذات میں 45 سالہ ’ودیم سوکولوف‘ نمودار ہوئے۔ سنہ 2015 میں انھیں پاسپورٹ اور سنہ 2019 میں ٹیکس شناختی نمبر ملا۔ یعنی ودیم کراسیکوف شناخت کی تبدیلی کے بعد اب ودیم سوکولوف بن چکے تھے۔بعد ازاں برلن میں ہونے والے قتل کا مقدمہ چلا اور ایک جرمن عدالت نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اس نوعیت کی تبدیل کردہ شناختی دستاویز صرف روسی حکام کے ایما پر ہی جاری کی جا سکتی ہے لہٰذا ودیم کراسیکوف کو برلن میں چیچن رہنما کے قتل کے لیے ریاستی حمایت حاصل تھی۔کراسیکوف کو عمر قید کی سزا سنانے کے بعد ایک جرمن جج نے کہا کہ روسی ریاستی حکام نے ملزم کو یہ قتل کرنے کا حکم دیا تھا۔ان کا شکار بننے والے چیچن رہنما زیلمخان خنگوشولی سنہ 2000 سے سنہ 2004 کے درمیان چیچنیا میں باغی کمانڈر تھے، یہ وہ وقت تھا جب چیچنیا روس کے خلاف آزادی کی جنگ لڑ رہا تھا۔مغربی مبصرین کے نزدیک زیلمخان خنگوشولی کا قتل ممکنہ طور پر یورپ اور مشرق وسطیٰ میں چیچن جلاوطن رہنماؤں کے ماسکو کے حکم پر قتل کے سلسلے کا حصہ تھے۔ روس نے برلن میں ہونے والے قتل کی منصوبہ بندی کی تردید کی ہے اور کراسیکوف کے خلاف فیصلے کو ’سیاسی محرکات‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔تاہم اپنے حالیہ انٹرویو میں صدر پوتن نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ایک روسی’محب وطن‘ کے تبادلے کے لیے بات چیت جاری ہے جس نے یورپی دارالحکومت میں ’ایک ڈاکو (چیچن رہنما) کا خاتمہ‘ کیا تھا۔جرمن حکومت کی خارجہ امور کی کمیٹی کے رکن الرک لیچٹے نے بی بی سی کو بتایا کہ صدر پوتن کی جانب سے کراسکوف کی بازیابی کی خواہش ’جرم کا واضح اعتراف ہے اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ روس ہمارے ملک میں کس حد تک بڑی کارروائی کرنے میں کامیاب رہا ہے۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Images
ریاست کی ایما پر ہونے والے قتل
جرمن استغاثہ کے مطابق ودیم کراسیکوف کا تعلق روس کی خفیہ سروس ایف ایس بی کے انتہائی خفیہ یونٹ ’ویمپل‘ سے تھا۔روسی سکیورٹی امور کے ماہر مارک گیلیوٹی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اس یونٹ کی بظاہر ذمہ داری اندرون ملک انسداد دہشت گردی کی کارروائیاں ہیں، لیکن درحقیقت یہ ایک ایسے یونٹ کے طور پر کام کرتا ہے جس کا کام بیرون ملک خفیہ ’تخریب کاری اور قتل‘ کرنا ہے۔‘کراسیکوف نے ’ویمپل‘ یونٹ کے ساتھ خدمات انجام دیتے ہوئے ذاتی طور پر پوتن سے ایک ٹارگٹ شوٹنگ رینج میں ملاقات کی تھی۔ روس میں رہتے ہوئے کراسیکوف کے پاس بی ایم ڈبلیو اور پورشے جیسی مہنگی گاڑیاں تھیں اور وہ باقاعدگی سے کام کی غرض سے ملک میں سفر کرتے تھے۔کراسیکوف اور ایف ایس بی کے درمیان تعلق اس بات کی ایک وضاحت فراہم کرتا ہے کہ ولادیمیر پوتن، جو خود ایک سابق انٹیلیجنس افسر ہیں، امریکی صحافی ایوان گرشکووچ کے بدلے اپنے قیدی کی رہائی کے لیے کیوں تیار ہوں گے۔تاہم مارک گیلیوٹی کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ کراسیکوف کی انفرادی اہمیت سے زیادہ بیرون ملک روسی ایجنٹوں کے ساتھ روس کے روابط کو ظاہر کرتا ہے۔’روس کہتا ہے کہ دیکھو، اگر آپ پکڑے گئے تو ہم آپ کو کسی نہ کسی طریقے سے واپس لے آئیں گے۔ اس میں کافی وقت لگ سکتا ہے، لیکن آخرکار ہم آپ کو واپس لے آئیں گے۔۔۔‘ لیکن کراسیکوف کو کبھی روس واپس جانے کی اجازت دی جائے گی یا نہیں، یہ حتمی طور پر جرمن حکومت پر منحصر ہے۔بی بی سی نے حکومت کی خارجہ امور کی کمیٹی کے تین ارکان سے رابطہ کیا جن میں سے سبھی نے کراسیکوف کی رہائی کی مخالفت کی۔الرک لیچٹے، جن کی فری ڈیموکریٹک پارٹی چانسلر اولاف شولز کی حکومت کا حصہ ہے، انھوں نے زور دے کر کہا کہ جرمنی کو ’روس پر یہ احسان نہیں کرنا چاہیے۔‘لیچٹے نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ ایک قسم کی معافی ہے اور اس سے سیاسی اشارہ ملتا ہے کہ روس ہماری سرزمین پر مزید قتل کر سکتا ہے۔‘انھوں نے کہا کہ اس بات کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے کہ غیر ملکی شہریوں کو قیدیوں کے تبادلے کے لیے من مانے طریقے سے روس میں گرفتار کیا جائے۔کرسچن ڈیموکریٹس سے تعلق رکھنے والے جرگن ہارٹ نے کہا کہ انھیں کراسیکوف سے متعلق قیدیوں کے تبادلے کی افواہوں کے لیے کوئی سیاسی حمایت نظر نہیں آتی۔یہاں تک کہ اگر برلن میں کراسیکوف کو رہا کرنے کے لیے سیاسی عزم موجود تھا، تو وہ قانونی دائرہ کار بہت مبہم ہے جس کے تحت یہ ممکن ہو سکتا ہے۔’جرمن صدر انھیں معاف کر سکتے ہیں یا روس میں اپنی بقیہ سزا کاٹنے کے لیے جلاوطن کر سکتے ہیں۔‘اس کی ایک مثال روسی ’مرچنٹ آف ڈیتھ‘ وکٹر بوٹ ہیں۔ جنھیں امریکی باسکٹ بال سٹار برٹنی گرینر کی رہائی کے عوض رہا کر کے روس کے حوالے کیا گیا تھا۔وکٹر بوٹ نے روس پہنچنے کے بعد اب سیاست کا رُخ کیا ہے اور روس میں ہونے والے مقامی انتخابات میں ایک نشست بھی جیتی ہے۔حوالگی کے قانون پر توجہ مرکوز کرنے والی ایک جرمن وکیل نکولا بیئر نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ایسا کوئی قانونی طریقہ کار موجود نہیں ہے جو اس خاص صورتحال کے لیے تیار کیا گیا ہو‘ لہٰذا کوئی بھی اقدام انتہائی متنازع اور سیاسی ہو گا۔روس مخالف سیاسی کارکن بل بروڈر اب مغربی ممالک میں 50 سے زائد روسی قیدیوں کی ایک فہرست مرتب کر رہے ہیں جنہیں روس میں حراست میں لیے گئے کارکنوں اور صحافیوں کی رہائی کے لیے سودے بازی کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔بروڈر کو امید ہے کہ اس کوشش سے برطانوی روسی صحافی ولادیمیر کارا مرزا کی رہائی میں مدد ملے گی، جنہیں یوکرین میں جنگ کے خلاف بولنے کے الزام میں غداری کے الزام میں 25 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔بی بی سی کی جانب سے جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا ان کی انتخابی مہم میں ’یرغمالیوں کی ڈپلومیسی‘ میں شامل ہے تو براؤڈر نے اعتراف کیا کہ اگرچہ یہ مثالی نہیں ہے لیکن زندگیاں بچانے کے لیے ضروری ہے۔‘ الیکسی نوالنی کی موت کے بعد براؤڈر نے کہا تھا کہ ’یہ واضح ہے کہ دیگر یرغمالیوں کی موت کا خطرہ ہے۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.