جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ ججز یہ نہیں کہہ سکتے کہ ان پر پریشر آتا ہے ، اگر کوئی کہے کہ اس پر پریشر ہے تو وہ اپنے حلف پر عمل پیرا نہیں۔
لاہور میں عاصمہ جہانگیر کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کہا کہ پاکستان سے جمہوریت کو نکالنا اس کی پیٹھ میں خنجر گھونپنا ہے۔ پاکستان کو سب سے زیادہ عوام کی منتخب قیادت کے ذریعے حکمرانی کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ دنیا میں قیام پاکستان کی مثال نہیں ملتی، پاکستان کو جمہوری انداز میں حاصل کیا گیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ جمہوریت پر پہلا حملہ اس وقت ہوا جب آئین تحلیل کیا گیا۔ جمہوریت پر پہلا حملہ ایک بیورو کریٹ غلام محمد نے کیا جبکہ مولوی تمیز الدین نے اسمبلی کی تحلیل کوچیلنج کیا۔
انہوں نے کہا کہ بھٹو کا ٹرائل کسی ملٹری کورٹ نے نہیں بلکہ سول کورٹ نے کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ جس بنچ میں فوجی عدالتوں کے قیام کا معاملہ آیا ، میں اس کا حصہ تھا، اس وقت میں جونیئر ترین جج تھا اور اقلیتی فیصلے کا حصہ تھا۔
جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کہا کہ آئین میں اختیارات کی تقسیم لکھی ہے، اس میں ایک ادارہ عدلیہ بھی ہے۔ سب کو آئین کا احترام کرنا چاہیے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بتایا کہ جمہوریت پر ایک اور حملہ ضیاء الحق نے کیا تھا۔ آئین پھاڑ دیا گیا مگر اس کے خلاف درخواست کو ناقابل سماعت قرار دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ جمہوریت پر پھر ایک حملہ اس وقت ہوا جب مشرف نے آئین توڑا۔
سپریم کورٹ نے ریاست کے تنخواہ دار ملازم مشرف کو آئین کی ترمیم کا اختیار بھی دے دیا تھاجبکہ ایک تنخواہ دار کو اختیار دینے والے ججز خود بھی تنخواہ دارملازم تھے۔
انہوں نے کہا کہ مذمت کرنا ہے تو فرد کے کردار پر بات کریں، ادارے پر تنقید نہ کریں، فوجی ادارے کی بجائے آئین توڑ نے والے جرنیل کا نام لیں۔
ملک کو عدلیہ اور ایگزیکٹیو کی ضرورت ہے، بطور ایگزیکٹیو حصہ فوج کی ضرورت ہے۔ ایگزیکٹو میں جنرل ایوب، جنرل ضیا اور جنرل مشرف کو بلیک لسٹ جبکہ پاکستان کے پہلے اور دوسرے آرمی چیف کو وائٹ لسٹ میں رکھتا ہوں۔
پاکستان میں پلاٹوں کی سیاست بہت مشہور ہے، ایوب خان نے پاکستان کے آرمی چیف سے پلاٹ مانگا تھا، جس کے بعد اس آرمی چیف کو ہٹا دیا گیا اور یوں پلاٹوں کی سیاست شروع ہوئی۔
میں دوسرے اداروں کی طرف انگلی نہیں اٹھاؤں گا ، کیونکہ ایک انگلی دوسرے کی طرف اور باقی انگلیاں اپنی طرف ہوتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایک وزیراعظم کو نااہل کیا گیا کہ اس نے اپنے بیٹے سے تنخواہ نہیں لی تھی، میں فیصلے پر تبصرہ نہیں کروں گا لیکن فیصلے میں لکھا گیا کہ آپ نے جو تنخواہ لینی تھی وہ نہ بتا کر سچ نہیں بولا اس لئے آپ اچھے مسلمان نہیں۔
پھرجے آئی ٹی تشکیل دی گئی، جے آئی ٹی کا لفظ اس سے قبل نہیں سنا تھا بلکہ پاکستان کے سارے قوانین میں صرف انسداد دہشت گردی ایکٹ لکھا ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسی کا کہنا ہے کہ آئین ہی ملک کو متحد رکھتا ہے ، مجھ سمیت سب آئین کے آرٹیکل 5 کے تحت قانون وآئین کے پابند ہیں، ہمیں عوام تنخواہ دیتے ہیں اورانفرادی طور پر ہمارا احتساب کرسکتے ہیں۔
اگر ہم سٹیزن مانیٹرنگ فار ڈیموکریسی کا ادارہ بنائیں جسے اردو میں جمہوریت اور آئین کا شہری نگراں ادارہ کہہ سکتے ہیں ، اس کے تحت جو بھی سرکار سے تنخواہ اور پینشن لیتا ہے اسے مانیٹر کریں۔
سی ایم ڈی سی کے تحت گرے،بلیک اور وائٹ لسٹ بنائی جائے تو جسٹس محمد منیر، جسٹس انوارالحق اور جسٹس ارشاد حسن بلیک لسٹ میں ہیں جبکہ میری ذاتی رائے میں وائٹ لسٹ میں جسٹس کانسٹینٹائن ، جسٹس ویلانی ، جسٹس بچل اور جسٹس محمد بخش شامل ہیں۔
تاہم گرے لسٹ میں بہت سے ججز کے نام ہیں جن کا میں ذکر نہیں کروں گا۔
جسٹس قاضی فائز عیسی نے بتایا کہ میں 5 سال بلوچستان ہائیکورٹ کا چیف جسٹس رہا، ججز یہ نہیں کہہ سکتے کہ ان پر پریشر آتا ہے۔ اگر کوئی کہے کہ اس پر پریشر ہے تو وہ اپنے حلف پر عمل پیرا نہیں۔
ایک چیف جسٹس کا ٹی وی پر انٹرویو دیکھ کر میری آنکھوں میں آنسوآگئےتھے ، اس چیف جسٹس نے کہا تھا بھٹو کیس کا فیصلہ پریشر کی وجہ سے کیا گیا۔
آپ پریشر میں آکر ملک بیچ دیتے ہیں تو تاریخ آپ کو یاد رکھے گی۔
Comments are closed.