دوسری عالمی جنگ کے دوران جب کلکتہ بھی جاپان کی بمباری کا شکار ہوا
- نیاز فاروقی
- بی بی سی اردو، نئی دہلی
دریائے ہگلی پر بنا معروف پل اب مختلف نظر آتا ہے
وہ سنہ 1942 کی ایکتاریک اور خاموش رات تھی جب جاپان کی فوج نے کلکتہ پر پہلی بار بمباری کی۔
اس وقت دوسری عالمی جنگ اپنے عروج پر تھی۔ تمام فریقین جنگ میں اس حد تک آگے جا چکے تھے کہ اپنے موقف سے واپس جانا ان کے لیے تقریباً ناممکن تھا۔ متحدہ ہندوستان برطانیہ کے قبضے میں تھا اور اتحادی افواج کی طرف سے لڑ رہا تھا جس میں برطانیہ کے علاوہ امریکہ، روس اور فرانس جیسے ممالک شامل تھے۔
دوسری طرف ‘ایکسِس’ افواج تھیں جن میں جرمنی، جاپان اور اٹلی کی افواج شامل تھیں۔
سنہ 1942 کے وسط تک ‘ایکسِس’ افواج ملائیشیا، سنگاپور، ہانگ کانگ اور برما میں ‘الائیڈ’ افواج کو شکست دے چکی تھیں۔ یہ خدشہ تھا کہ ان کا اگلا ہدف کلکتہ ہوگا جو کہ برطانوی حکومت کے لیے ایک اہم مشرقی محاذ تھا۔
کتیون رندھاوا شہر کے ڈلہوزی سکوائر کے قریب ایک اپارٹمنٹ بلاک میں رہتی تھیں۔ ان کے پڑوسیوں میں ایک اینگلو انڈین چینی خاندان شامل تھا جو کہ برما سے چل کر کلکتہ آیا تھا۔ ان کے علاوہ ایک پرتگالی خاندان اور دو بغداد کے یہودی خاندان شامل تھے۔ یہ تنوع اس وقت کے کلکتہ شہر کی مقبولیت، اہمیت اور کاسموپولیٹنزم کی عکاسی کرتے ہیں۔
رندھاوا کا کنبہ اوپر کی منزل میں رہتا تھا اور وہاں سے وہ کلکتہ کے اہم مقامات مثلاً سینٹ اینڈریوز چرچ اور ہگلی ندی پر ہاوڑہ پل دیکھ سکتی تھیں۔ انھوں نے سنہ 2005 میں بی بی سی کے ‘پیپلز وار’ نامی ایک پروگرام میں ارسال کردہ ایک بیان میں کہا تھا کہ اس وقت ‘کلکتہ سپاہیوں سے بھرا ہوا تھا اور سارا دن فوجی ٹرکوں کی آمد و رفت رہتی تھی۔’
فضائی حملے کے دوران ٹوٹے ہوئے شیشوں سے محفوظ رہنے کے لیے رندھاوا کے گھر کے دروازوں اور کھڑکیوں کو سیاہ اور بھورے کاغذات سے ڈھک دیا گیا تھا۔ جس دن جاپانی فوج نے بمباری کی تھی اس دن موسم صاف اور ہوا دار تھا اور وہ پتنگیں اڑا رہی تھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں ذمہ داری دی گئی تھی کہ سائرن بجنے پر ایک چھوٹے سے بیگ میں کالے ربڑ کا ایک ٹکڑا، ویسلین اور بنڈیج رکھ لیں۔ ان کے والدین پانی کے برتن لے کر آئے اور وہ اور ان کی بہنیں گراؤنڈ فلور پر چھپ گئیں۔
جب ‘آل کلیئر’ یعنی حالات معمول پر آنے کا سائرن بجا تو وہ نقصان کا جائزہ لینے کے لیے پناہ گاہ سے باہر نکلیں۔ ان کے گھر سے کچھ ہی دوری پر ایک اسماعیلی عبادت گاہ تھی جو کہ بمباری کا شکار ہوئی۔ وہ کہتی ہیں کہ ‘دو گائیں ہلاک ہوئی تھیں۔ ہر طرف ٹوٹے ہوئے شیشے اور بم کے ٹکرے بکھرے ہوئے تھے۔’
بمباری کے نتیجے میں لوگ شہر سے ہجرت کرنے لگے۔ ریلوے سٹیشنوں پر باہر جانے والوں کا تانتا لگ گیا۔ ٹھیلے والے غائب ہو گئے۔ رندھاوا کا کہنا تھا کہ ‘ہمارا روٹی لانے والا بھی ہمیشہ کے لیے غائب ہو گیا۔’
ہاوڑہ کا معروف پل جو اب بالکل بدل چکا ہے
جاپانی فوج نے کلکتہ پر بمباری کیوں کی؟
یہ جنگ ہندوستانیوں کی کم، بلکہ برطانوی حکومت کی زیادہ تھی۔ گاندھی کا کہنا تھا کہ ‘ہندوستان نہیں لڑ رہا ہے۔ اس کے فاتح لڑ رہے ہیں۔’
ملائیشیا، سنگاپور، ہانگ کانگ اور برما میں سکشت کے بعد ‘الائیڈ’ افواج کو کلکتہ کو درپیش خطرے کا خدشہ تھا۔ برطانوی حکومت اپنے دفاع کو مضبوط کرنے اور جاپان کے خلاف چین کی حمایت کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔
حالات یوں تھے کہ چین کو کارگو سپلائی کرنے کے لیے پہلے سامان کراچی آتا تھا اور وہاں سے کلکتہ پہنچتا تھا۔ اس کے بعد اسے ریل، سڑک اور کشتیوں کے ذریعے برما کی سرحد کے قریب واقع انڈین صوبہ آسام کے لیے روانہ کیا جاتا تھا جو کہ بہت مشکل سفر ہوا کرتا تھا۔
اسے آسان بنانے کے لیے کلکتہ کے مشرق میں انڈیا اور برما سرحد پر سنہ 1942 کے آخر میں امریکی انجینیئروں نے ایک سڑک کی تعمیر شروع کی۔ امریکی فوج کے ‘سینٹر فار ملٹری ہسٹری’ کے مطابق ریل کے ذریعے کلکتہ سے آسام کا سفر دنوں نہیں بلکہ ہفتوں کا سفر تھا۔
آسام سے پھر اس کارگو کو طیاروں کے ذریعے ہمالیہ کے اوپر سے چین تک لے جایا جاتا تھا۔ اس سفر کا آسان ہونا جاپان کے لیے خطرہ تھا۔
اسکی نظر کلکتہ پر اس لیے بھی تھی کہ مشرقی انڈیا میں ملک کی دفاع کا کلکتہ ایک اہم مرکز تھا اور اس کے علاوہ وہاں سے چین کو سپلائی بھی بھیجی جا رہی تھی۔
تاہم برطانیہ چین کی مدد اس لیے کرنا چاہتا تھا کہ اس وقت تک برطانیہ کا دفاعی نقطہ نظر اس کے مغربی محاذ کی طرف تھا اور اسکا مشرقی محاذ کمزور تھا جو کہ ایک بڑے خطرے کا باعث تھا۔ جاپان پہلے ہی برطانوی انڈیا کے دوسرے شمال مشرقی اہداف پر کئی حملے کر چکا تھا۔ لیکن اس کے لیے کلکتہ پر بمباری، دفاع اور مخالف کیمپ میں ڈر پیدا کرنا اہم قدم تھا۔
،تصویر کا ذریعہWikipedia
بندرگاہ پر بڑی تعداد میں قلی کام کرتے تھے
بمباری کے دوران شہر
جاپانی حملے کے پیش نظر حکومت نے 18 دسمبر سنہ 1941 کو کلکتہ اور اس کے قریبی علاقوں کو ایک ‘خطرناک علاقہ’ قرار دیا تھا۔
اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بڑی تعداد میں شہری گاؤں یا دوسرے شہروں کی طرف ہجرت کرنے لگے اور انکی تعداد میں بمباری کے بعد مزید اضافہ ہوا۔ ایک اندازے کے مطابق اس دوران تقریبا 15 لاکھ لوگوں نے شہر سے ہجرت کیا تھا۔
شروعات کی بمباری میں دو افراد ہلاک ہوئے تھے اور 14 افراد زخمی۔ شہر میں زیادہ نقصان نہیں ہوا تھا لیکن اس سے خوف ضرور پیدا ہو گیا تھا۔ اور اس کی ایک واضح وجہ سنہ 1942 میں چٹاگانگ میں مئی، اکتوبر اور دسمبر کے مہینوں میں بمباری تھی جن میں متعدد افراد ہلاک اور زخمی ہوئے تھے۔ اسی طرح، کوکس بازار، نوواکھلی، آسام اور سیلون میں بھی اس سے قبل کے مہینوں میں بمباری ہوئی تھی جس سے لوگوں میں دہشت تھی۔
تاہم حکومت معمول کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ شہر میں گھڑسواری جاری تھی جس میں وائسرائے لارڈ لِنلِتھگو خود حاظر رہتے تھے۔ تھیئٹروں میں چارلی چیپلن کی فلم ‘گولڈ رش’ دکھائی جا رہی تھی۔ کرکٹ اور ٹینس کے مقابلے بھی جاری تھے۔
بنگال کے گورنر سر جان ہربرٹ نے پہلی بمباری کے بعد وائسرائے کو ٹیلی گرام کیا کہ دو ہلاکتوں اور چودہ زخمیوں کے باوجود لوگوں کے ‘حوصلوں پر کوئی خاص اثر نہیں ہوا ہے’۔
اس مقام پر برطانیہ نے دوسری عالمی جنگ کے دوران تعمیرات کی تھیں
بلکہ وائسرائے نے کلکتہ والوں سے کہا کہ ‘آپ کا شہر ہندوستان کا پہلا دارالحکومت ہے جسکو اس جنگ میں آگ کاسامنا کرنا پڑا ہے اور اس کے شہریوں نے استقامت اور استحکام کی ایک قابل تعریف مثال پیش کی ہے۔ شاباش کلکتہ۔’
بمباری کے ردعمل میں فوری طور پر مزید طیاروں کو کلکتہ منتقل کیا گیا، شہر کے وسط میں ہنگامی ہوائی اڈے بنائے گئے اور ہنگامی حالات میں حفاظت کے لیے خندقیں کھودی گئیں۔
رہائشیوں سے کہا گیا کہ وہ رات کو کمرے کی روشنیاں بند رکھیں اور سائرن بجتے ہی مناسب جگہ چھپ جائیں۔
لیکن جنگ کے اثرات جلد ہی ظاہر ہونے لگے۔ جب بڑے پیمانے پر ہجرت شروع ہوئی تو بہت سے لوگ اپنے کاروبار کا ذخیرہ بیچ کر شہر سے جانے لگے۔ شہر اور خطے میں کھانے، خاص طور پر چاول، کی کمی تھی۔ یہاں تک کہ کاغذ کی اتنی قلت تھی کہ ‘امپیریل ٹوبیکو کمپنی’ نے اپنے صارفین سے بغیر پیکٹ کے سگریٹ قبول کرنے کی اپیل کی تھی۔
بمباری کے دوران مقامی لوگ کیا کرتے تھے؟
حالانکہ مہاجرین کی ایک بڑی تعداد شہر سے جا چکی تھی، بہت سے ایسے لوگ بھی تھے جو مالی حالات کی وجہ سے کہیں اور نہیں جا سکے اور کچھ ایسے بھی تھے جو کہ وہیں قیام پذیر رہے کیوں کہ ان کے لیے کلکتہ اب بھی لندن جیسے شہروں سے زیادہ محفوظ تھا۔
رون واکر کی جانب سے سنہ 2004 میں بی بی سی کو دیے بیان کے مطابق جب کلکتہ پر بمباری شروع ہوئی تب وہ سات سال کے تھے۔
انھوں نے بتایا: ‘میں ایک جاپانی ہیئر ڈریسنگ سیلون میں اپنے بال کٹواتا تھا لیکن وہ اچانک بند ہو گیا۔ دوسری جاپانی دکانیں اور دفاتر بھی راتوں رات ہندوستانی یا اینگلو انڈین کاروبار میں تبدیل ہو گئے تھے۔’
انھوں نے کہا کہ انھیں ایک چھوٹا سا بیگ دیا گیا تھا جس میں ایک گیس ماسک، منہ میں رکھنے کے لیے ایک بڑا مربع نما ربڑ (جھٹکا جذب کرنے کے لیے)، ایک سائیکل لیمپ، ایک فرسٹ ایڈ ٹن باکس، ایک پنسل اور نوٹ پیڈ، مرہم اور سیٹی تھی اور انھیں استعمال کرنے کا طریقہ بھی سکھایا گیا تھا۔
،تصویر کا ذریعہPrint Collector
ڈلہوزی سکوائر بمباری کی زد میں آیا تھا
جب سائرن بجتے تھے تب مقامی آبادی تہہ خانوں میں، دھماکے کو روکنے کے لیے بنائی گئی دیواروں کے پیچھے یا کوئی بھی جگہ جو محفوظ نظر آتی تھی وہاں چھپ جاتے تھے۔ واکر کا کہنا تھا کہ ‘ہم بچے ان خندقوں کا پانی کے پستول، لاٹھی، کمان اور تیر اور مٹی کے گولے سے کھیلنے کے لیے استعمال کرتے تھے، اسے شاید ہی کبھی عام لوگوں نے استعمال کیا ہوگا۔’
انھوں نے بتایا کہ فضائی حملوں کے دوران وہ عام طور پر آل انڈیا ریڈیو سنتے تھے اور وہ انڈین فضائیہ کے ایک پائلٹ کی بہادری کی کہانی سننا پسند کرتے تھے۔ ‘ہم اس کے کارناموں کو سانس تھام کر سنتے تھے۔ ہم اس شخص کا ایک لازمی حصہ بن گئے تھے جو کہ ہوا میں ہمارے لیے لڑائیاں لڑ رہا تھا’۔
یہ بھی پڑھیے
انھوں نے کہا کہ ریڈیو پر آواز صاف نہیں آیا کرتی تھی اور سیٹی اور اس میں شور جیسی متعدد قسم کی آوازیں سنائی دیتی تھیں۔ ‘یہ ایک طرح سے فٹ بال کے میچ کو سننے کے مانند تھا۔ ہم اس کے ہر دلیرانہ اقدام اور ہدف کو تباہ کرنے پر بے حد خوشی کا اظہار کرتے تھے۔’
لیکن جنگ تو جنگ ہے۔ کب کیا شکل لے لے، یہ کہنا مشکل ہوتا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ ایک صبح، ‘جب ہم ایک چراغ کی روشنی میں بیٹھے تھے، ہم نے ایک دوسرے کو بے اعتباری سے دیکھا [کیوں کہ ہمیں] موت کی بے ہنگم چیخیں آئیں- ہمارے دوست کا خاتمہ ہو چکا تھا۔ یہ ایک ایسی خاموشی تھی جس سے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ ہمیشہ قائم رہیگی۔’
واکر نے کہا کہ اس کے بعد ‘ہم سب رو پڑے’
وکٹوریہ میموریل پر جنگ کے دوران مٹی اور گوبر کا لیپ چڑھا دیا گیا تھا
ایڈتھ روزمیری اینگلز بھی اس وقت کلکتہ میں رہتی تھیں۔ وہ یاد کرتی ہیں کہ ایک فضائی حملے کے دوران وہ اور ان کے اہل خانہ گراؤنڈ فلور پر بیٹھے ہوئے تھے کہ انھیں پرندوں کی چہچہاہٹ سنائی دی۔ ان کی ماں نے سوال کیا کہ یہ آواز کہاں سے آ رہی ہے؟ انگل کے بھائی نے جواب دیا، ‘میری جیب میں ایک پرندہ ہے- آپ یہ تو نہیں چاہیں گی کہ یہ بموں سے مارا جائے؟’
وہ یاد کرتے ہیں کہ جاپان کا اصل ہدف کلکتہ بندرگاہ کا علاقہ تھا لیکن چند بم شہر میں بھی گرے۔ انھوں نے کہا کہ ‘ڈلہوزی سکوائر کے پارک میں معمولی نقصان ہوا تھا، بلکہ اس میں سب سے زیادہ نقصان خود لارڈ ڈلہوزی کے مجسمہ کو ہوا تھا۔’
وہ بتاتے ہیں کہ ‘بعد میں ہم نے ہوائی حملے کے یادگار کے طور پر بم گرنے والے مقامات سے بم کے ٹکڑوں کو جمع کیا’۔
سبھاش چندر بوس
کچھ لوگوں نے حملوں کے بعد جشن کیوں منایا؟
حکومت نے ایسے اقدامات لینے کا فیصلہ کیا جو جاپانی فوج کو انڈیا میں پیش قدمی سے روک سکے لیکن حکومت کی من مانی نے مقامی لوگوں میں برطانوی حکومت کے خلاف مزید غصہ پیدا کر دیا۔
حکومت نے بنگال کے گھنی آبادی والے علاقوں میں لڑاکو جہاز اڑانے کے لیے ایروڈوم، آرمی کیمپ اور اسلحے کے ذخیرے کی تعمیرات کے لیے زمینیں ظبط کر لیں۔ کئی علاقوں میں یہ بھی ہدایت دی گئی کہ 24 گھنٹے کے اندر جگہ خالی کر دی جائے۔ چٹاگانگ میں ایک افسر کو 48 گھنٹوں کے اندر 20 گاؤں خالی کرانے کا حکم دیا گیا۔ کلکتہ سے چند میل دور واقع ڈائمنڈ ہاربر میں بھی فوجی سہولیات کی فراہمی کے لیے کم از کم 36,000 افراد کو زمین سے بے دخل کر دیا گیا۔ نواکھلی میں بھی مزید 70,000 افراد بے گھر کر دیے گئے۔
کچھ علاقوں میں حکومت نے چاول، کشتیاں، سائیکلیں، کاریں اور بیل گاڑیاں وغیرہ بھی ضبط کر لیں۔ اسکے علاوہ اعلان جنگ کے بعد چاول کی قیمت میں تقریباً 75 فیصد کا اضافہ ہو چکا تھا۔
ان اقدام کے ردعمل میں گاندھی نے لکھا کہ ‘معاوضہ دینے کے کسی بھی طرح کا وعدہ کسانوں کو بے دخل کرنے کا ہرجانہ نہیں ہو سکتا۔ غریبوں کے لیے یہ ان کے جسم کو ضبط کرنے کے مانند ہے۔ ان کی کشتیوں کو ظبط کرنا کچھ ایسا ہی ہے۔ مشرقی بنگال کے لوگوں کو ان کی کشتیوں سے محروم کرنا ان کے ایک اہم عضو کو کاٹنے کے مترادف ہے۔’
ایسے اقدام کے ردعمل میں لوگوں میں برطانیہ کے خلاف غصہ کوئی حیران کن بات نہیں تھی۔ لیکن ایک اور عنصر نے ان کے مخالفت میں اہم کردار ادا کیا اور وہ تھا سبھاش چندر بوس کی ملک کی آزادی کے لیے جرمنی اور جاپان جیسے ‘ایکسس’ طاقتوں سے مدد کی اپیل۔
نوآبادیاتی نظام کے خلاف گاندھی نے پرامن جدوجہد کی
کلکتہ میں مقیم فلم میکر اور محقق سنجیت چودھری بتاتے ہیں کہ انھوں نے بزرگوں سے سنا ہے کہ ‘آبادی کا ایک حصہ چاہتا تھا کہ جاپان بمباری کرے، کیوں کہ نیتا جی [سبھاش چندر بوس] جاپانیوں کے ساتھ تھے۔’
اپنی طرف سے جاپانی فوج بھی ہوائی جہازوں سے خطے میں مختلف زبانوں میں پروپیگنڈا پرچے پھینک رہی تھی۔
چودھری کہتے ہیں کہ ‘کچھ ایسے لوگ بھی تھے جو کہ لڑاکا طیارں کو [آبادی پہچاننے میں] مدد کرنے کے لیے ٹارچ سے روشنی کرتے تھے۔ یہ ایسے تھا جیسے کہ یہ کہنا کہ ‘آ بیل، مجھے مار’۔
وہ بتاتے ہیں کہ جب برطانوی انتظامیہ کو اس کے بارے میں معلوم ہوا تو انھوں نے چھتوں پر سنائپر لگا دیئے تاکہ ایسے لوگوں کو مار سکیں۔
انگریزوں کے خلاف غصہ اور بوس کے مقصد کی حمایت اس بات سے جھلکتی ہے کہ مقامی لوگوں میں بنگالی زبان میں برطانوی حکومت پر یہ طنزیہ مصرعے عام تھے:
سا رے گا ما پا دا نی
ہے بم پھینکا جاپانی
اس میں تھا ایک زہریلا سانپ
صاحب بولیں باپ رے باپ
شہر میں سب سے خطرناک بمباری کس مقام پر ہوئی؟
سنہ 1942 کے اواخر اور 1943 کے اوائل میں بم شہر کے وسط میں گرے۔ اس سے زیادہ نقصان نہیں ہوا لیکن جو بم 1943 کے آخر میں خضر پور بندرگاہ پر گرے، ان سے سب سے زیادہ جانی اور مالی نقصان ہوا۔ خضر پور اُس وقت مشرقی انڈیا کی سب سے اہم بندرگاہ تھی اور یہ ‘الائڈ’ افواج کی سپلائی کے لیے استعمال کیا جارہا تھا۔
جاپانیوں کی نظر خاص طور پر اس بندرگاہ پر تھی اور بالآخر انھوں نے اس پر بمباری کی جس میں زیادہ تر قلی زخمی اور ہلاک ہوئے۔ یہ وہ متاثرین تھے جو کہ پہلے سے ہی مہنگائی کی مار کے باوجود شہر نہیں چھوڑ پائے تھے۔
ایک آسٹریلوی صحافی ولفریڈ برشیٹ، جو کہ بمباری کے ایک واقعے کے بعد کلکتہ پورٹ کمشنر کے دفتر میں موجود تھے، کے مطابق جب مزدوروں کا پورٹ کمشنر سے سامنا ہوا تو انھوں نے کہا کہ ‘ہمیں یہاں رہنے اور کام کرنے میں کوئی اعتراض نہیں چاہے وہ ہم پر بمباری ہی کیوں نہ کریں، لیکن ہم اپنے پیٹوں میں کھانا چاہتے ہیں اور اچھی پناہ گاہیں چاہتے ہیں۔ فی الحال تو ہمارے پاس دونوں میں سے کوئی بھی نہیں ہے۔’
لیکن جنگ کی افر تفری میں ان کے مطالبات پورا کرنا پورٹ کمشنر کے صلاحیت سے باہر کی بات تھی۔
گذشتہ حملوں کے برعکس جاپانی فوج اس بار ایک قدم اور آگے نکل گئی اور دن دہاڑے حملہ کیا۔ سرکاری اعداد شمار کے مطابق کم از کم 187 قلی ہلاک ہوئے اور 435 زخمی ہوئے۔
Comments are closed.