جب ڈاکٹروں نے یہودیوں کو بچانے کے لیے ہٹلر کی فوج کو ’جھوٹی بیماری‘ سے خوفزدہ کر دیا
- مصنف, جون فرانسس الونسو
- عہدہ, بی بی سی نیوز ورلڈ
ایک نامعلوم مہلک بیماری، ایک بے رحم حملہ آور۔۔۔۔ کچھ بہادر ڈاکٹر اور مذہبی لوگوں کے ہاتھوں ستائی ہوئی کمیونٹی۔
یہ سب کسی ہالی ووڈ فلم کے سین کا حصہ لگتا ہے، لیکن دراصل یہ دوسری جنگ عظیم کے ایک غیر معروف واقعے کا حصہ ہیں اور اس سال آٹھ دہائیوں بعد اس کی یاد منائی جائے گی۔
یہ سب 1943 کے آخر میں روم میں ہوا جب نازی جرمن فوجیوں نے فوجیوں، تاجروں اور سیاست دانوں کے ایک گروپ کے ہاتھوں اپنے اتحادی فاشسٹ بینیٹو مسولینی کا تختہ الٹنے کے بعد اطالوی دارالحکومت پر قبضہ کر لیا۔
’ابدی شہر‘ پر قبضہ کرنے کے بعد، ایڈولف ہٹلر کے سپاہیوں نے شہر کی یہودی برادری کا شکار شروع کر دیا، جو اس وقت تک یورپ کے دیگر حصوں میں کئے جانے والے وحشیانہ ظلم و ستم اور تباہی سے محفوظ تھی۔
خوف زدہ حراستی کیمپوں میں جلاوطن ہونے سے بچنے کے لیے، جن کے بارے میں معلومات آنا شروع ہو چکی تھیں، بہت سے یہودیوں نے اپنے پڑوسیوں کے پاس پناہ لی، لیکن سب سے بڑھ کر گرجا گھروں، خانقاہوں، کانونٹس اور یہاں تک کہ کیتھولک چرچ کے زیر انتظام ہسپتالوں میں بھی پناہ لی گئی۔
ان صحت کے مراکز میں سے ایک میں، تین ڈاکٹروں نے درجنوں لوگوں کا استقبال کیا اور ان میں ایک خوفناک اور مہلک بیماری کی تشخیص کی، جس کے بارے میں کبھی کسی نے نہیں سنا تھا کیونکہ اس بیماری کا وجود ہی نہیں تھا۔
اصل اور مؤثر علاج
16 اکتوبر 1943 کو اطالوی دارالحکومت میں جرمن فوجی ویٹیکن سے صرف تین کلومیٹر دور یہودی بستی میں داخل ہوئے اور انھوں نے ایک ہزار مردوں، عورتوں اور بچوں کو پکڑ لیا گیا۔
کچھ خوش قسمت لوگ فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے اور سان جوآن کیلیبیٹا ہسپتال پہنچے، جسے رومیوں کے نزدیک فیٹ بینیفریٹیلی (یعنی اچھائی کرو) کہا جاتا ہے ۔
،تصویر کا ذریعہCOURTESY YAD VASHEM
جیوانی بورومیو
یہ مرکز، جو 437 سال پرانا اور ہولی سی سے تعلق رکھتا ہے، دریائے ٹائبر کے وسط میں ایک چھوٹے سے جزیرے پر واقع ہے اور اس سے آپ اطالوی دارالحکومت کی عظیم عبادت گاہ اور یہودی بستی کو دیکھ سکتے ہیں۔
نازی جلد ہی اپنا شکار جاری رکھنے کے لیے ہسپتال پہنچے۔ ہسپتال کے اس وقت کے ڈائریکٹر، جیوانی بورومیو، جو ہولی سی میں اچھے روابط رکھنے والے کیتھولک تھے، نے ان کا استقبال کیا اور یونیفارم والے افسران کو کمپاؤنڈ دکھانے کی پیشکش کی۔
تاہم، ایک کمرے میں پہنچ کر، اس نے انھیں خبردار کیا کہ وہاں ایک عجیب و غریب اور خطرناک بیماری (جس کی وہ ابھی تحقیق کر رہے تھے) کی علامات ظاہر کرنے والے لوگ الگ تھلگ رکھے گئے تھے۔
بورومیو نے جرمنوں کو بتایا کہ یہ ’کے سنڈروم‘ ہے ، ایک بیماری جسے انھوں نے انتہائی متعدی قرار دیا، جو اعصابی نظام کو متاثر کرتی ہے اور موت کا باعث بنتی ہے۔
ڈاکٹر وٹوریو سیسرڈوٹی نے 2004 میں بی بی سی کو بتایا ’نازیوں نے سوچا کہ یہ کینسر یا تپ دق ہے اور وہ خرگوش کی طرح بھاگ گئے۔‘
اس منصوبے کے پیچھے سیسرڈوٹی، بورومیو اور اطالوی ڈاکٹر اور فسطائیت مخالف ایڈریانو اوسیسینی تھے جنھوں نے درجنوں یہودیوں کو یقینی موت سے بچایا۔
یہ ڈاکٹر، جو کہ اصل میں یہودی تھا، کو بورومیو نے رومن ہسپتال میں کام کرنے کے لیے رکھا تھا، اس حقیقت کے باوجود کہ 1930 کی دہائی کے آخر میں مسولینی کے منظور کردہ نسلی قوانین نے اسے غیر قانونی قرار دیا تھا۔
ایک اور کہانی کے مطابق جس ’کے‘ کے ساتھ فرضی بیماری کا نام لیا گیا تھا وہ روم میں دہشت کی علامت ’ایس ایس‘ کے سربراہ ہربرٹ کیپلر کے لیے استمعال کی جانے والی اصطلاح تھی، حالانکہ دوسرے ماہرین مختلف وضاحتیں پیش کرتے ہیں۔
مصنف اور پادری ہسپانوی جیسس سانچیز ایڈالڈ نے بی بی سی منڈو کو وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ ’کوچ کی بیماری (تپ دق) پر تحقیق کرنے کے لیے اس بیماری کو ’کے سنڈروم‘ کہا گیا جو اس وقت ہنگری اور پولینڈ میں ہٹلر کی فوجوں کے لیے بہت سے مسائل کا باعث بن رہی تھی۔
مصنف نے اس ماہ کے اوائل میں ناول ’روم کی اندھیری رات میں روشنی‘ شائع کی، ایک امیر نوجوان عورت اور ایک یہودی لڑکے کے درمیان محبت کی کہانی، جو ان تاریخی واقعات کے دوران واقع ہوتی ہے۔
شاندار اداکاری
سیسرڈوٹی، بورومیو اور ایڈریانو اوسیسینی نے شاندار کارنامہ انجام دیا۔ اس طرح انھوں نے ان یہودیوں کے میڈیکل ریکارڈز گھڑنا شروع کیے جنھیں پراسرار بیماری لگ گئی تھی۔ یہ ایک ایسا آپریشن تھا جس کے لیے مرکز کے اندر اور باہر بہت سے لوگوں کے تعاون کی ضرورت تھی۔
سانچیز ایڈالڈ نے مزید کہا ’ایک بہت بڑی ٹیم تھی جس میں مذہبی لوگ شامل تھے بشمول آرڈر کے اعلیٰ افسر (سان جوآن ڈی ڈیوس) جنھوں نے ہسپتال کا انتظام کیا۔‘
دیگر تاریخی اور صحافتی تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ مونسگنور گیوانی بٹسٹا مونٹی، مستقبل کے پوپ پال چھ اور جو اس وقت ویٹیکن سیکرٹریٹ آف سٹیٹ میں ایک اعلیٰ عہدے پر فائز تھے، ہسپتال میں کیا ہو رہا تھا اس سے آگاہ تھے اور انھوں نے اس کی حمایت کی۔
اس وقت کے پریلیٹ نے کئی دستاویزات پر دستخط کیے جن سے بورومیو کی سرگرمیوں کو مدد ملی۔
اور اگرچہ قیاس کردہ مہلک بیماری نے نازیوں کو بے قابو کر رکھا تھا ، لیکن ڈاکٹروں نے اپنے محافظوں کو کم نہیں کیا اور یہودیوں کو ہدایت کی کہ وہ واپس آنے کی صورت میں کیا کریں۔
،تصویر کا ذریعہCOURTESY JESUS SANCHEZ ADALID
گیبریل سونینو، جو اس وقت بمشکل چار سال کی تھیں جب انھیں ’داخل کیا گیا‘، نے 2019 میں ٹیلی ویژن پر بتایا ’ڈاکٹر نے ہمیں بتایا تھا کہ اگر جرمن آتے ہیں تو ہمیں پوری طاقت سے کھانسنا پڑے گا اور یہ تاثر دینا پڑے گا کہ ہم شدید بیمار ہیں۔‘
سانچیز ایڈالڈ نے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ ’جرمنوں نے ہپستال میں ڈاکٹرز بھیجے تاکہ مرض کی تصدیق کی جا سکے لیکن انھوں نے اطالوی ڈاکٹروں کی وضاحت پر یقین کیا۔ شاید انھیں مرض سے متاثر ہونے کا خطرہ تھا یا وہ مریضوں سے بھرے ہسپتال میں وقت ضائع نہیں کرنا چاہتے تھے اور اسی لیے وہ جھانسے میں آ گئے۔‘
ان کا مزید کہنا ہے کہ ’اگر جرمن ڈاکٹرز ان جعلی مریضوں کا معائنہ کر لیتے تو انھیں جھوٹ کا پتا چل جاتا۔ لیکن انھوں نے مریضوں کا معائنہ نہیں کیا۔‘
مئی 1944 میں نازی فوجیوں نے واپس آ کر ہسپتال کا معائنہ کیا تھا لیکن جب وہ اس کمرے کے پاس سے گزرے جہاں یہودیوں کو الگ رکھا گیا تھا اور انھیں کھانستے سنا تو وہ وہاں سے گزر گئے۔
ایک ماہ بعد اتحادی افواج نے روم کو آزاد کروا لیا اور ہسپتال میں موجود جعلی مریضوں کو رہائی دلوائی۔
ایک بڑا راز
روم کے ہسپتال میں پیش آنے والے واقعات کی تاریخ دانوں اور مختلف حکام نے تصدیق کی ہے۔
آخرکار، اسرائیل میں ہولوکاسٹ کے یادگاری مرکز یاد واشم نے 2004 میں بورومیو کو ’قوموں میں صالحین‘ کے نام سے ایک ایوارڈ دیا۔
یہ اعزاز ان لوگوں کو دیا جاتا ہے جنھوں نے دوسری جنگ عظیم کے دوران یہودیوں کی جانیں بچائی یا بچانے میں مدد کی۔
سینڈروم کے نتیجے میں کتنے نازیوں کی جان گئی اس بارے میں آج تک علم نہیں۔
سنچیز ایڈالڈ نے وضاحت کی کہ ’ہمیں ہسپتال میں بچائے گئے لوگوں کی صحیح تعداد کا علم نہیں ہے۔ ہم اسے جاننے میں کامیاب نہیں ہو سکے کیونکہ ہسپتال ایک فرار کا ذریعہ تھا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’ہسپتال پہنچنے والے افراد جو فرضی بیمار تھے کو جعلی دستاویزات دی گئیں تاکہ وہ سوئزرلینڈ یا دیگر ممالک کو جا سکیں۔ ایک موقع پر ان میں 75 بچے بھی شامل تھے۔‘
انھوں نے انکشاف کیا کہ جنگ کے خاتمے کے بعد کچھ ’مریض‘ لاطینی امریکہ چلے گئے تھے البتہ انھوں نے ان کے متعلق مزید تفصیلات دینے سے انکار کیا اور دعویٰ کیا کہ وہ افراد اپنی شناخت ظاہر نہیں کرنا چاہتے۔
ہسپتال ان جگہوں میں سے ایک تھا جہاں کیتھولک چرچ نے یہودیوں کو یورپ میں ہلاکت سے بچایا تھا۔
سانچیز ایڈالڈ کا کہنا ہے کہ ’کیتھولک چرچ نے ہسپتال، گرجا گھروں اور خانقاہوں میں 4,480 یہودیوں کو بچایا۔‘
’مجھے بتایا گیا ہے کہ جب ہٹلر کی خوف اور دہشت پھیلانے کی خفیہ ایجنسی روم پہنچی تو وہ کونونٹس میں 70 کے قریب راہبائیں دیکھ کر حیران رہ گئے تھے۔ دراصل ان میں سے زیادہ تر راہبائیں نہیں تھیں مگر وہ ان کی بھیس میں یہودی تھے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’ان راہباؤں نے نازیوں کا دھیان بٹانے کے لیے یہ توجیح پیش کی کہ کیونکہ روم کیتھولک کا دارالحکومت ہے اس لیے یہاں راہبائیں کسی اور جگہ سے زیادہ ہوتی ہیں۔‘
یہ بھی پڑھیے
یہ صرف چھپنے کی جگہ نہیں تھی
فرضی بیماری سے تحفظ نے ہسپتال کو صرف یہودیوں کے لیے چھپنے کی جگہ ہی نہیں بنایا تھا۔
سانچیز ایڈالڈ کا کہنا ہے کہ ’ نازیوں کے بیماری کے خوف کی وجہ سے ہسپتال ایک جاسوسی کا مرکز بن گیا تھا۔ وہ رابطہ کاری کا ایک اڈہ اور اطالوی مزاحمت کے لیے ایک ملاقات کی جگہ تھا۔‘
ہسپتال میں ایک نام نہاد وکٹوریا ریڈیو چلایا جاتا جو دراصل ایک نیٹ ورک تھا جسے اطالوی نژاد امریکی فوجی چلاتے تھے جس کے ذریعے اتحادی فوجیوں کو ببماری کے لیے نازی افواج کے بیرکوں اور یونٹوں کی اطلاع دی جاتی۔
سانچیز ایڈالڈ کا کہنا ہے کہ وہ روم کے ہسپتال میں پیش آئے واقعات کی 80 ویں برسی کے موقع پر ’روم کی رات میں روشی کی کرن‘ نامی ناول لکھنا نہیں چاہتے تھے لیکن یہ کہانی انھیں سینٹر کے حکام نے دی تھی۔
تاہم سانچیز ایڈالڈ تسلیم کرتے ہیں کہ ان کی تحقیق نے انھیں اس بات کی تصدیق کرنے کا موقع دیا کہ ’انسانیت کی تاریخ کے بدترین دور میں جب بہترین انسان سامنے آئے۔‘
Comments are closed.