’جب میرے ابا نے ہٹلر کو قتل کرنے کی کوشش کی‘
- مصنف, ایلکس لاسٹ
- عہدہ, بی بی سی
20 جولائی 1944 کو 36 سالہ جرمن فوجی اہلکار کرنل کلاز وان سٹافن برگ مشرقی پرشیا کے جنگل میں فوج کی سخت سکیورٹی میں قائم ایک تنصیب پر پہنچے۔ اُن کا مقصد ہٹلر کو قتل کرنا تھا۔
اس تنصیب کو ’وولف لائیر‘ یا بھیڑیےکا غار کہا جاتا تھا اور یہ مشرقی محاذ پر ہٹلر کا خفیہ دفتر تھا۔ سٹافن برگ ہٹلر اور جرمن اعلیٰ حکام کے درمیان روزانہ کی بریفنگ میں شامل تھے مگر ان کے بریف کیس میں ایک بم تھا۔
جرمن فوج کے افسر جنرل والٹر وارلیمونٹ نے 1967 میں بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ ’ہم کھڑے تھے، ہٹلر کمرے میں داخل ہوئے اور کانفرنس کا آغاز ہوا۔ اچانک دروازہ کُھلا اور میں نے مڑ کر دیکھا کہ ایک کرنل داخل ہوا ہے۔ اس کرنل نے مجھ پر کافی اثر کیا کیونکہ اس کی دائیں آنکھ پر کالا کپڑا لگا تھا، اس کا ایک بازو کٹا ہوا تھا اور وہ بہت سیدھا کھڑا ہوا تھا۔‘
’وہ ایک روایتی فوجی کی زندہ تصویر تھا۔ ہٹلر نے اس کی جانب دیکھا اور (جنرل کائٹل) نے اس کا تعارف کرایا۔‘
سٹافن برگ کا تعلق ایک خاندانی جرمن گھرانے سے تھا۔ وہ کیتھولک مذہب کے پیروکار تھے۔
ان کے بیٹے برٹ ہولڈ شونک گراف ون سٹافن برگ کا کہنا ہے کہ ’سب کہتے ہیں میری والد بہت خوب صورت تھے ۔ کالے بال، نیلی آنکھیں اور قد میں بہت لمبے تھے۔ وہ بہت خوش مزاج تھے اور ہم سب ان کو بہت پسند کرتے تھے۔‘
،تصویر کا ذریعہGetty Images
کرنل سٹافن برگ
سنہ 1943 میں سٹافن برف تیونس میں لڑتے ہوئے شدید زخمی ہوگئے تھے۔ ان کی ایک آنکھ ضائع ہو گئی تھی اور ان کا دایاں ہاتھ اور بائیں ہاتھ کی تین انگلیاں بھی کٹ گئی تھیں۔
سٹافن برگ بظاہر سیاسی نہیں تھے مگر وہ قدامت پسند تھے اور وطن سے محبت کرتے تھے۔
انھوں نے نازی پالیسیوں کی حمایت کی مگر جب جنگ بڑھتی گئی تو حکومت کے خلاف ان کی نفرت میں بھی اضافہ ہوا۔ انھیں جرمنی کے مظالم دیکھ کر خوف آنے لگا اور ان کو اندازہ ہوا کہ شاید جرمنی جنگ ہار جائے گا۔
ان کے بیٹے برٹ ہولڈ کا کہنا ہے کہ ان کہ والد ’ہٹلر کی جنگی حکمت عملی کے مخالف تھے۔ میں 10 سال کا تھا اور دنیا میں ہونے والے واقعات پر گہری نظر رکھتا تھا۔ میں خود بھی نازی بننے والا تھا مگر یہ بات میں نے اپنے والدین سے کبھی نہیں کہی تھی۔‘
’اگر میرے والد نے ہم سے سیاست پر بات چیت کی ہوتی تو ان کے خیالات ظاہر ہو جاتے۔ اس وجہ سے انھوں نے اپنے بچوں سے بھی بات نہیں کی کیونکہ بچے سب کچھ بتا دیتے ہیں۔‘
جب سٹافن برگ جنگ میں زخمی ہونے کے بعد صحت یاب ہوئے تو ان سے فوج میں خفیہ باغی گروہ کے جنرل ہینگ ون تریسکو نے رابطہ کیا اور اس طرح سٹافن برگ باغی گروہ کے منصوبے کا اہم حصہ بن گئے۔
آنے والے کچھ مہنیوں میں ہٹلر کو مارنے کے لیے مختلف منصوبےبنائے گئے مگر سب ناکام رہے اور اسی وجہ سے گسٹاپو ان باغی فوجیوں کی تاک میں تھے۔
سنہ 1944 میں سٹافن برگ جرمن ریزرو آرمی میں چیف آف سٹاف بنے۔ اس منصب کی وجہ سے انھیں ہٹلر کی قربت میسر ہو گئی۔
اب باغیوں کا ایک منصوبہ بنا جو بہت خطرناک تھا۔ اس کے مطابق سٹافن برگ دھماکہ خیز مواد بریف کیس میں سکیورٹی چوکی سے لے کر جائیں گے اور اسے ہٹلر کے قریب جا کر رکھیں گے اور خود کوئی بہانہ کر کے کمرے سے نکل جائیں گے۔ دھماکے کے بعد سٹافن برگ فوراً برلن چلے جائیں گے جہاں باغی ریزرو فوج کے ذریعے حکومت کا کنٹرول سنبھال لیں گے۔
دھماکے کے بعد ہٹلر اور مسولینی نے اس ہال کا جائزہ لیا جہاں بم پھٹا تھا
لیکن جمعرات 20 جولائی کو جب سٹافن برگ ولف لائیر میں آئے تو بم بناتے ہوئے ان کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور وہ صرف ایک بم اپنے ساتھ رکھ سکے۔
سابق فوجی وارلیمونٹ کا کہنا ہے کہ ’مجھے یاد ہے کہ سٹافن برگ کے صحت مند بازو کے نیچے ایک بریف کیس تھا۔ مگر اس کے بعد میں نے ان کی طرف نہیں دیکھا اس لیے میں نے انھیں میز کے نیچے بم رکھتے ہوئے یا تھوڑی دیر بعد کمرے سے باہر جاتے ہوئے نہیں دیکھا۔ تقریباً پانچ یا دس منٹ کے بعد دھماکہ ہوا۔‘
سٹافن برگ نے کمپاؤنڈ کے باہر سے دھماکہ ہوتا دیکھ لیا تھا اور وہ برلن کی طرف یہ سمجھتے ہوئے روانہ ہو گئے تھے کہ ہٹلر یقیناً قتل ہو چکے ہیں۔ مگر ایسا نہ تھا۔
دھماکے سے ذرا دیر پہلے ہی کسی نے بریف کیس کو ہٹلر سے دور رکھ دیا تھا۔ جب دھماکہ ہوا تو ہٹلر فاصلے پر تھے۔ اس طرح وہ بچ گئے مگر چار دوسرے افراد اس دھماکے میں ہلاک ہو گئے ۔
جس وقت بم دھماکہ ہوا، ہٹلر نے یہ پتلون پہن رکھی تھی
وارلیمونٹ کا کہنا ہے کہ ’جب دھماکہ ہوا تو مجھے ایسا لگا جیسے میرے اوپر کوئی فانوس گر گیا ہو۔ مجھے بس یہ یاد ہے کہ ہٹلر کائٹل کی مدد سے کمرے سے باہر جا رہے تھے اور وہ زیادہ زخمی نہیں تھے۔‘
’چند گھنٹوں بعد یہ واضح ہو گیا کہ ہٹلر زندہ ہیں اور باغیوں کی کوشش ناکام ہو گئی ہے۔ سٹافن برگ اور دوسرے باغیوں کو برلن سے گرفتار کر کے قتل کر دیا گیا۔‘
سٹافن برگ کی حاملہ بیوی نینا اور ان کے چار بچے اس سازش سے بالکل بے خبر تھے۔ اس رات گسٹاپو والے آئے اور برٹ ہولڈ کی ماں اور دادی کو گرفتار کر لیا۔
برٹ ہولڈ اور ان کے بہن بھائیوں کو دارلامان بھیج دیا گیا۔ جنگ کے بعد سٹافن برگ کی اہلیہ اپنے بچوں سے دوبارہ مل پائیں مگر انھوں نے دوسری شادی نہیں کی۔ بارٹ ہولڈ کا کہنا ہے ’میری والدہ کے لیےصرف میرے والد تھے اور بس۔‘
سٹافن برگ کے بیٹے برٹ ہولڈ مغربی جرمنی کی فوج میں جرنیل بنے اور آج بھی اپنے آبائی گاؤں میں رہتے ہیں۔
اُن کا کہنا ہے: ’مجھے کوئی شک نہیں کہ ہٹلر کے قتل کے منصوبے نے جرمنی کی عزت کو تاریخ میں کچھ حد تک بچایا ہے۔‘
Comments are closed.