جب محبت کی خاطر عائشہ بوکو حرام سے جا ملی!
افریقی مصنفین، صحافیوں اور ناول نگاروں کے خطوط کے ہمارے سلسلے میں ٹریشیا نواؤبانی نے شمال مشرقی نائیجیریا کے جنگلوں میں اسلامی شدت پسند تنظیم بوکو حرام کے ساتھ رہنے والی ایک خاتون سے بات کی ہے۔
سنہ 2017 میں عائشہ یریما نے اپنے اہل خانہ کو اس وقت حیران کر دیا جب وہ اپنی مرضی سے بوکو حرام کی قید میں واپس چلی گئیں حالانکہ فوج نے بہت کوششوں کے بعد انھیں وہاں سے آزادی کروایا تھا۔
لیکن چار سال بعد اب وہ 30 سالہ خاتون فرار ہو کر بورنو ریاست کے دارالحکومت میدوگوری میں اپنے والدین کے گھر واپس آ گئی ہیں۔
انھیں بوکو حرام کے شدت پسندوں نے 21 سال کی عمر میں میدوگوری کے جنوب مشرق میں واقع ایک قصبے سے اغوا کیا تھا اور انھوں نے گروپ کے ایک کمانڈر سے شادی کر لی۔ اس کے بارے میں انھوں نے کہا کہ اس شخص نے رومانس اور تحائف سے ان کا دل جیت لیا تھا۔
جب فوج نے سامبیسا کے جنگل میں ان کے کیمپ پر حملہ کیا اور عائشہ اور دیگر درجنوں بیویوں کو بچایا اس وقت عائشہ کے شوہر دوسرے ساتھیوں کے ساتھ کہیں لڑائی پر نکلے ہوئے تھے۔
ان تمام خواتین کو ایک سال تک ڈی ریڈیکلائزیشن پروگرام کے تحت رکھا گیا لیکن بمشکل چار ماہ گزرے تھے کہ عائشہ نے فیصلہ کیا کہ بوکو حرام کے ساتھ ان کی زندگی بہتر تھی۔
انھوں نے مجھ سے بات کرتے ہوئے کہا: ‘میرے لیے روزی کمانا مشکل تھا، چیزیں مشکل تھیں اور مجھے اپنے والدین پر انحصار کرنا پڑ رہا تھا۔’
ان کے لیے اپنے دو سالہ بچے کو پالنا بھی مشکل ہو گیا تھا، یہ بچہ کمانڈر سے شادی کے بعد پیدا ہوا تھا اور اسے بھی ان خواتین کے ساتھ بچایا گیا تھا۔
عائشہ نے کہا کہ ‘میں نے اپنے شوہر کو فون کیا اور وہ میرا فون سن کر بہت خوش ہوئے۔
‘انھوں نے مجھے بتایا کہ اگلی بار وہ کب ایندھن اور گیس خریدنے کے لیے میدوگوری آئیں گے، اور ہم نے اتفاق کیا کہ میں ان کے ساتھ چلی جاؤں گی۔’
طے شدہ دن کسی کو بتائے بغیر وہ اپنے بیٹے کے ساتھ اپنے والدین کے گھر سے تھوڑی سی چیزیں لے کر نکل پڑیں۔
بوکو حرام کی قید سے آزاد کرائے جانے والے کچھ افراد
فائرنگ کے ساتھ جشن
وہ اپنے شوہر سے ایک ویران جگہ پر ملیں جہاں ان کے شوہر نے انھیں نئے کپڑوں کی خریداری کے لیے کچھ پیسے دیے۔ وہ 19:30 کے قریب ایک دوسرے مقام پر ان سے پھر ملیں جہاں وہ تقریباً 20 عسکریت پسندوں کے ساتھ ایک بس میں ان کے منتظر تھے۔
انہوں نے کہا کہ ‘وہ سب بندوقوں اور ہتھیاروں سے لیس تھے۔’
اس کے بعد انھوں نے سامبیسا جنگل کا طویل سفر شروع کیا، بس کو ایک دور دراز کے گیراج پر چھوڑ دیا جہاں سے ایک شخص اسے لے جاتا جس نے عسکریت پسندوں نے اسے کرایہ پر دیا تھا، اور باقی سفر پیدل طے کیا گیا۔
انھوں نے کہا کہ ‘جب ہم جنگل میں اپنے کیمپ پہنچے تو جشن کا سماں تھا۔ مجھے واپس دیکھ کر ہر کوئی خوش تھا اور وہ ہوا میں فائرنگ کر رہے تھے۔’
عائشہ نے فوری طور پر ایک کمانڈر کی بیوی کے طور پر زندگی دوبارہ شروع کی۔ ان کے ساتھ باعزت سلوک کیا گیا۔ ان کے پاس اپنے اور اپنے بیٹے کے ساتھ دوسرے قیدیوں کے کھانے کے لیے بھی کافی تھا جو انھیں تفویض کیا گیا تھا۔
واپسی کے کچھ دن بعد انھیں پھر سے حاملہ ہونے کا علم ہوا تو انھیں بہت خوشی ہوئی، لیکن بچہ پیدائش کے وقت ہی مر گیا۔
جب وہ دو بارہ دو ماہ کی حاملہ تھیں تو ان کا شوہر جنگ میں مارا گیا۔
عسکریت پسندوں کا خیال تھا کہ ان کا پیدا ہونے والا بچہ اپنے والد کی دولت کے ایک حصے کا حقدار ہے اور اس لیے وراثت کی تقسیم سے پہلے بچے کی پیدائش تک انتظار کیا گیا۔
عائشہ نے بتایا کہ ‘وہ دیکھنا چاہتے تھے کہ پیدا ہونے والا بچہ لڑکا ہے یا لڑکی کیونکہ لڑکے کا حصہ لڑکی کا دوگنا ہوتا ہے۔’
پیدا ہونے والا بچہ لڑکا نکلا، لیکن ایک اور سانحہ ہوا۔ اس کی بھی پیدائش کے وقت موت ہوگئی۔ عائشہ صدمے سے چور ہوگئی۔
فوج کو ریاست کو محفوظ رکھنے میں بہت ساری دشواریاں ہیں
دوبارہ شادی کرنے پر مجبور
وراثت میں ان کو جو حصہ ملا اس سے وہ اچھی طرح سے گزارہ کر سکتی تھیں لیکن اس بات سے لوگوں کو حسد ہونے لگا۔
‘انھوں نے سوال کرنا شروع کردیا کہ میں تنہا رہ کر کیوں موج کروں۔ میں کسی اور سے شادی نہیں کرنا چاہتی تھی لیکن انھوں نے مجھے مجبور کر دیا۔’
ان کا نیا شوہر اتنا ہی مالدار تھا کیونکہ وہ بوکو حرام کو سامان فراہم کرنے کا ذمہ دار ایک تاجر تھا اور وہ میدوگوری کا باقاعدہ دورہ کرتا تھا۔ جب وہ پھر سے حاملہ ہوئی تو عائشہ کو جنگل میں ایک اور بچہ کو پیدائش کے وقت کھونے کا خوف ستانے لگا۔
انھوں نے کہا: ‘میں نے اس سے التجا کی کہ ہمیں میدوگوری منتقل ہونا چاہیے، لیکن اس نے انکار کر دیا۔’
اس کے جانے کی خواہش اس وقت مزید بڑھنے لگی جب فوج نے حملے تیز کر دیے اور باقاعدہ بمباری نے عسکریت پسندوں اور ان کے خاندانوں کو مسلسل نقل و حرکت پر مجبور کر دیا۔
اس کے علاوہ اندرونی رسہ کشی کے نتیجے میں بوکو حرام دو حصوں میں بٹ گیا اور دونوں دھڑے ایک دوسرے پر حملے شدید حملہ کرنے لگے۔ اپنی جان اور اپنے پیدا ہونے والے بچے کی جان کے خوف سے عائشہ نے فرار ہونے کا فیصلہ کیا۔
اگست کی ایک صبح تقریبا تین بجے وہ اپنے بیٹے اور دو دیگر خاتون کے ساتھ جنگل میں نکل گئیں۔ یہ خواتین بھی وہاں کی زندگی سے بے زار ہو چکی تھیں اور ایک مختلف زندگی کی خواہش مند تھیں۔
لیکن ان سب کو راستے میں بوکو حرام کے جنگجوؤں نے پکڑ لیا، اور اپنے کیمپ میں واپس لے آ ئے۔ اسے دوبارہ بھاگنے کی کوشش سے روکنے کے لیے، عائشہ کے شوہر اور عسکریت پسندوں نے اس کے چھ سالہ بچے کو پکڑ لیا اور اسے نامعلوم مقام پر لے گئے۔
عائشہ نے کہا: ‘جب وہ میرے بیٹے کو گھسیٹ کر لے جا رہے تھے، تو وہ مجھے پکڑ کر چلا رہا تھا: ‘ماما، پلیز، مجھے یہاں مت چھوڑیں! پلیز، مجھے یہاں مت چھوڑیں!’
کئی دنوں تک انھوں نے عسکریت پسندوں سے اسے واپس کرنے کی منتیں کیں اور اسے تلاش کرنے کی کوشش کی۔ آخرکار انھیں یہ لگنے لگا کہ ان کی کوششیں بے نتیجہ رہیں گی۔ اور پھر موقع آنے پر انھوں نے بچے کے بغیر فرار ہونے کا فیصلہ کرلیا۔
فرار اور مہربانی
ایک عسکریت پسند جو جنگل میں ایک خفیہ راستہ جانتا تھا وہ پیسے کے لیے ان کی اور ایک درجن سے زیادہ دوسری خواتین جو بھاگنا چاہتی تھیں کی مدد کرنے کے لیے تیار ہو گيا۔
عائشہ نے اپنے پاس موجود تمام پیسے اسے دے دیئے۔ ایک ہفتے بعد اس نے ان کو عسکریت پسندوں کے اڈے سے دور بہت دور کے قصبوں میں ایک ایسے مقام پر چھوڑ دیا جہاں سے وہ اپنے طور پر ایک فوجی چوکی پر جاسکتی تھین۔
عائشہ نے کہا کہ ‘فوجی بہت مہربان تھے۔
یہ بھی پڑھیے
‘انھوں نے فرار ہونے میں میری دلیری پر میری تعریف کی اور مجھے اپنے والدین کے گھر لے جانے کے لیے ایک گاڑی میں بٹھانے کے لیے رقم بھی دی۔ وہ نہیں سمجھتے تھے کہ انھیں میرے ساتھ جانے کی کوئی ضرورت ہے۔’
جب وہ میدوگوری پہنچیں تو انھوں نے ڈرائیور سے رکنے کو کہنا تاکہ وہ اپنی ماں کو فون کر کے راستہ پوچھ سکیں کیونکہ ان کی غیر موجودگی میں شہر بہت بدل گیا تھا: ‘ہر طرف نئے فلائی اوور پل اور پکی سڑکیں بن گئی تھیں۔’
جب گھر کی سب سے بڑی بیٹی دروازے سے داخل ہوئی تو پورا خاندان ان کا منتظر تھا۔ وہ آٹھ بہن بھائیوں میں سب سے بڑی تھیں۔ وہ دوڑ کر عائشہ کی طرف بڑھے اور اسے گلے لگا لیا۔
عائشہ نے مجھے بتایا کہ جب سے وہ واپس آئی ہے ہر کوئی مہربانی کا مظاہرہ کر رہا ہے اور ان کی مدد کر رہا ہے۔ کچھ پڑوسیوں نے ان کی دیکھ بھال کے لیے پیسے سے بھی مدد کی ہے۔ لیکن اکتوبر کے شروع میں انھوں نے جس بچے کو جنم دیا وہ بھی فوت ہو گیا۔
ابھی تک عائشہ کو اپنے شوہر کے بارے کوئی علم نہیں جسے انھوں نے جنگل میں چھوڑ دیا تھا۔ حال ہی میں فرار ہونے والی کچھ خواتین سے معلوم ہوا کہ اسے بوکو حرام کے ایک مخالف دھڑے نے پکڑ لیا تھا لیکن ان کے ساتھ کیا ہوا معلوم نہیں۔
ایک نئی زندگی کے لیے پرعزم عائشہ عطر اور بخور کی تجارت شروع کرنے کے لیے چندہ اکٹھا کر رہی ہیں۔
انھوں نے کہا: ‘میں اللہ سے دعا کرتی ہوں کہ وہ میرے بیٹے کو بچا لے، لیکن اب میں کبھی بھی بوکو حرام میں واپس نہیں جاؤں گی۔’
Comments are closed.