وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ جب قید میں تھا تو مجھے وزیراعظم بننے کی پیش کش کی گئی جو میں نے مسترد کر دی۔
خواجہ آصف نے جیو نیوز کو خصوصی انٹرویو میں کہا کہ یہ تجویز مالکان کی طرف سے آئی تھی یا نہیں؟ یہ انہیں نہیں معلوم، تجویز میں کہا گیا کہ بطور وزیر اعظم آپ کا اور شاہد خاقان عباسی کا نام ہے ، مگر آپ کی قیادت کو ابھی انتظار کرنا پڑے گا، میں نے صاف انکار کردیا اور کہا کہ اگر شاہد خاقان عباسی وزیراعظم بن جائیں تو مجھے اعتراض نہیں ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع لندن میں سینئر قیادت کا اجتماعی فیصلہ تھا، نواز شریف کی واضح ہدایت تھی کہ ووٹ ضرور دیا جائے۔
خواجہ آصف نے کہا کہ ایک صاحب کو جانتا ہوں، جن کا نام سجاد برکی ہے، وہ چیئرمین پی ٹی آئی کے رشتے دار ہیں، انہوں نے امریکا میں تقریر کی کہ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) نے کیوں پروگرام میں توسیع دی۔
وفاقی وزیر نے مزید کہا کہ ملک کے اندر بھی 9 مئی کو ملکی سالمیت پرحملہ ہوا، ملک کے باہر بھی معاشی طور پرملک کا گلا گھونٹ رہے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ نہ وہاں بیٹھے لوگ مخلص ہیں اور نہ یہاں، یہ اقتدار کےلئے سب کچھ بیچنے کو تیار ہیں، یہ لوگ عام پاکستانیوں کو سیکنڈ کلاس تصور کرتے ہیں۔
خواجہ آصف نے یہ بھی کہا کہ جب الیکشن ہوا تو ہم اکثریتی پارٹی تھے، ہم نے اس بات پر شور مچایا کہ اکثریت ہماری ہے حکومت پی ٹی آئی کی بنادی۔
انہوں نے کہا کہ میرے ریمارکس اس تناظر میں تھے جو میں نےکل ٹی وی شو میں کہا، جو بات ہوئی، وہ 2019ء والی تھی، انٹرویو میں تاریخ کی غلط فہمی ہوئی۔
وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ 2019ء میں پنجاب حکومت ہمارے پاس آ سکتی تھی، اُس وقت جو ہمارے ساتھ زیادتی ہوئی اس کو درست کرنے کی ضرورت سمجھی گئی۔
اُن کا کہنا تھا کہ جو حکومت توڑ جوڑ کر بنائی گئی، اس میں شروع میں ہی خرابیاں پیدا ہوگئیں۔
خواجہ آصف نے کہا کہ آرمی چیف جنرل باجوہ کی ایکسٹینشن پر ہم نے بلینک چیک دیا تھا، اس معاملے پر ہم نے سودے بازی نہیں کی اور نہ ہی کچھ مانگا تھا۔
انہوں نے کہا کہ آرمی چیف کےایکسٹینشن پر لندن میں سینئر لیڈرشپ کا اجتماعی فیصلہ تھا، میاں صاحب کی واضح ہدایت تھی کہ ووٹ ضرور دیا جائے۔
وزیر دفاع نے کہا کہ حساب لگائیں دو تین روز میں کیا شور مچا جو میں نے تھوڑی سی گفتگو کردی، اس بچی کےلئے خواتین کیوں نہیں شور مچارہیں جو اس وقت تشدد سےاسپتال میں پڑی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ خواتین کا احترام تو ہمارا مذہب سکھاتا ہے، مریم نواز اور فریال بی بی سے متعلق جو زبان استعمال کرتے رہے وہ بیان نہیں کرسکتا، صرف سلیکٹیو حقوق اپنے لئے نہ مانگیں، حقوق مانگنے ہیں تو سب کےلیے مانگیں۔
Comments are closed.