جب فرانس نے پہلی عالمی جنگ کے دوران جرمنی کے حملے سے بچنے کے لیے نقلی پیرس بنایا
- گیون مورٹیمر
- بی بی سی ہسٹری ایکسٹرا
پہلی عالمی جنگ کے دوران پیرس پر پہلا فضائی حملہ جرمن ٹوب طیارے نے کیا
برطانوی اخبار ’دی گلوب‘ کے چار اکتوبر 1920 کے ایڈیشن میں ایک ایسی تحریر شائع ہوئی جس کی یہ دلچسپ سرخی تھی: ‘ایک جعلی پیرس: جرمن حملہ آوروں کو جھانسا دینے کا فرانسیسی منصوبہ۔‘
تحریر میں بتایا گیا کہ اس انوکھی چال کے بارے میں حال ہی میں معلوم ہوا ہے اور یہ اس قدر عجیب بات ہے کہ اس پر یقین کرنا مشکل ہے۔ اس رپورٹ میں لکھا تھا کہ ’کیموفلاج گلیاں، فیکٹریاں، گھر، ریلوے، سٹیشن، ٹرینیں۔ درحقیقت یہ کیموفلاج دارالحکومت تھا۔ جنگ بندی اور فوجی آپریشنز کے خاتمے کے بعد فرانسیسی انجینیئروں کو یہ بڑا کام سونپا گیا تھا۔‘
یہ خیال پہلی بار الیکٹریکل انجینیئر جیکوپوزی کے ذہن میں آیا تاکہ جرمن طیاروں کو فرانسیسی دارالحکومت سے دور رکھا جاسکے۔ اس جعلی شہر پر بمباری کے ذریعے اموات اور تباہی روکی جاسکتی تھی۔ تاہم جرمنی نے امن کا راستہ اپنایا اور جیکوپوزی کے اس انوکھے منصوبے کی آزمائش نہ کی جاسکی۔
30 اگست 1914 کو پہلی بار جرمن طیاروں نے پیرس پر بمباری کی۔ یہ پہلا موقع تھا کہ ایک دارالحکومت پر اس طرح حملہ کیا گیا ہو۔ جرمن رمپلر ٹوب نامی طیاروں کی مدد سے چار چھوٹے بم پیرس پر گرائے گئے تھے۔
اس سے اموات کم ہوئیں مگر نفسیاتی نقصان کہیں زیادہ تھا۔ اس سے ایک دہائی سے زیادہ عرصہ قبل امریکی رائٹ برادرز نے پہلے طیارے کی آزمائش کی تھی اور امریکہ کی یہ ایجاد جنگ کا نیا اور خوفناک ہتھیار بن چکا تھا۔
فرانس کا دارالحکومت اب میدان جنگ بنتا دکھائی دے رہا تھا اور یہ تاثر عام تھا کہ دشمن کے حملوں سے خواتین اور بچے بھی محفوظ نہیں رہ سکیں گے۔
فضا سے بم گرنے کا خوف
اس کے بعد شہر پر آئندہ 18 مہینوں کے دوران وقفے وقفے سے حملے ہوتے رہے۔ پہلا حملہ زیپلن طیاروں کی مدد سے مارچ 1915 میں کیا گیا۔ اس طیارے کو اس کے موجد کاؤنٹ فردینیند وان زیپلن کا نام دیا گیا تھا۔ طیارے بیلجیئم کے فوجی اڈوں سے اڑان بھرتے تھے۔ کسی بھی حملے میں زیادہ اموات نہیں ہوئیں۔
تاہم 29 جنوری 1916 میں دو زیپلن طیاروں نے فرانسیسی دارالحکومت کے اوپر سے اُڑان بھری۔ اس وقت موسم سرد تھا اور آسمان پر گھنے بادل چھائے ہوئے تھے۔ ان کی بمباری نے پیرس کو نشانہ بنایا اور جرمن حملے میں 24 افراد ہلاک اور 30 زخمی ہوئے۔
مرنے والوں کی آخری رسومات 7 فروری 1916 کو ادا کی گئیں اور اس دوران پیرس میں خوف کا سماں تھا۔ بندوقیں اٹھانے والی چھ گاڑیوں کی مدد سے یہ تابوت معروف گرجا گھر لاخوا لے جائے گئے جہاں ہزاروں افراد کے ساتھ ساتھ سیاستدانوں اور اہم شخصیات نے سوگ منایا۔
یہ بھی پڑھیے
پیرس پر حملے کے بعد کا منظر
پیرس کے آرچ بشپ کارڈینل لیون ایڈولف ایمٹ نے اس سروس کے دوران کہا کہ ’اس سے پہلے کہ آپ جرمن بربریت کا شکار ہوں، یہ اموات آپ کو انسانیت اور آپ کے جیتنے کا عزم یاد دلائیں گی تاکہ آپ دشمن کو غیر مسلح کر سکیں اور اسے دوبارہ ایسے جرائم کرنے سے روک سکیں۔‘
مگر فرانس پر دباؤ بڑھتا گیا کیونکہ آئندہ مہینوں میں فضائی حملوں میں تیزی آئی۔ سنہ 1917 میں پیرس اس لیے بچ گیا کہ جرمنی نے اپنے فضائی حملوں میں لندن کو نشانہ بنانا شروع کر دیا۔
اس بمباری کے لیے انھوں نے اپنا جدید طیارہ گوتا استعمال کیا۔ جون کے دوران ایک فضائی حملے میں 162 برطانوی شہری ہلاک ہوئے۔ فرانس کو معلوم تھا کہ اگلی باری ان کی ہے۔ لیکن وہ اپنا دفاع کیسے کر سکتے تھے؟
فرانسیسی مصور کی تصویر جس میں دکھایا گیا کہ دو خواتین اور ایک بچہ فضائی بمباری سے بچ گئے
جیکوپوزی نے نقلی پیرس کیسے بنایا؟
فرنینڈ جیکوپوزی نامی ایک شخص، جو پیشے سے الیکٹریکل انجینیئر تھے، کو لگا کہ ان کے پاس ایک حل ہے۔ وہ فلورنس میں پیدا ہوئے تھے اور انھوں نے 1900 میں پیرس انٹرنیشنل ایکسپوزیشن پر کام کیا تھا۔ اس تقریب میں گذشتہ صدی کی کامیابیوں کا جشن منایا گیا اور آئندہ 100 سال کی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔
جیکوپوزی کا خیال تھا کہ آئندہ صدی میں ترقی ہوگی اور ان جیسے الیکٹریکل انجینئیرز کے لیے یہ صدی اچھے مواقع پیدا کرسکتی ہے۔ وہ پیرس میں رہائش پذیر تھے اور ایک اخبار کی رپورٹ کے مطابق انھوں نے الیکٹرک لائٹنگ یا برقی روشنیوں پر خصوصی تحقیق کی تھی۔
جیکوپوزی اس خفیہ منصوبے میں کیسے شامل ہوئے، یہ غیر واضح ہے اور اس کی وجوہات ظاہر ہیں۔ 1917 میں محکمہ دفاع کے جنگی حکمت عملے کے دفتر نے انھیں فرانس کو فضائی حملوں سے محفوظ رکھنے کا منصوبہ دیا جس کے تحت جرمن بمبار طیاروں کو جھانسا دینے کے لیے ایک جعلی پیرس بنایا جانا تھا۔
یہ بھی پڑھیے
موجودہ حالات میں شاید یہ منصوبہ عجیب لگے مگر اس وقت محسوس کیا گیا کہ یہ حکمت عملی موثر ہوسکتی ہے۔ دشمن طیارے رات کے اوقات میں پیرس کے اوپر کسی تکنیکی سہولت کی مدد سے نہیں بلکہ ٹوپوگرافی یا جغرافیے کی مدد سے پہنچتے تھے۔ وہ دریائے سین کی جانب بڑھتے ہوئے فرانسیسی دارالحکومت پہنچتے تھے اور پھر اپنے بم گراتے تھے۔
مگر دریائے سین ہوا کے رُخ سے چلتا ہے اور پیرس کے بیچ سے گزرتا ہے۔ یہیں اس کے لیے مشہور پُل تعمیر کیے گئے ہیں اور تاریخی عمارتیں جیسے ایفل ٹاور بھی موجود ہے۔ اس کے بعد یہ دریا اونٹ کے کوہان کی طرح ایک بار نہیں بلکہ دو بار بل کھاتا ہے۔
جیکوپوزی سے کہا گیا کہ دوسرے بل پر یہ جعلی شہر تعمیر کیا جائے۔ اس کے ساتھ صنعتی زون سمیت دو مزید نقلی علاقے بنائے گئے جو پیرس کے مشرق میں 10 میل دور تھے۔
لندن کے اخبار کی خبر جو 6 نومبر 1920 کو شائع کی گئی
روشنیوں کا جال
جیکوپوزی نے ویوپنت کے مقام پر 1918 میں کام شروع کیا اور پیرس کے سب سے مصروف ریلوے سٹیشن کی نقل تیار کی۔ انھوں نے چلتی ہوئی ٹرین جیسا منظر بھی پیش کیا۔
انھوں نے کئی برسوں تک الیکٹریکل لائٹنگ پر تحقیق کی تھی۔ ٹرین کی بوگیاں دکھانے کے لیے انھوں نے اطالوی لکڑی کے تختے استعمال کیے اور اندر روشنی کے لیے کنویئر بیلٹ پر روشنیوں کا جال بچھایا گیا۔ فضا سے یہ ایسا منظر پیش کرتا تھا جیسے کوئی ٹرین چل رہی ہو۔
صنعتی زون اس کا اگلا مرحلہ تھا۔ جیکوپوزی نے انھی تختیوں کی مدد سے فیکٹریوں کا ڈھانچہ بنایا اور چھت پر مختلف رنگوں کا پینٹ کیا گیا۔ سفید، پیلے اور سرخ چراغ نصب کر کے آگ اور دھواں نکلتا دکھایا گیا، جیسے فیکٹری میں کام جاری ہے۔
ان کے لیے سب سے اہم بات یہ تھی کہ جعلی منظر اصل محسوس ہو۔ وہ یہ نہیں چاہتے تھے کہ کسی کرسمس ٹری کی طرح ہر مقام روشن کر دیں جس سے جرمن فوجیوں کو شک ہوسکتا تھا۔
یہ بہت مشکل کام تھا اور جیکوپوزی کا منصوبہ مکمل ہونے والا تھا جب جرمن گوتا طیارے نے 16 ستمبر کو پیرس پر 22 ہزار کلو گرام کے بم گرائے اور اس سے چھ افراد ہلاک اور 15 زخمی ہوئے۔ آئندہ کے لیے اگر جرمن بمبار طیارے آتے تو اس نقلی شہر کو فعال کر دیا جاتا۔ مگر وہ اس کے بعد نہیں آئے۔
دو ماہ بعد جنگ ختم ہوگئی اور جیکوپوزی جرمن پائلٹوں کو جھانسا نہ دے سکے۔ اس کے باوجود فرانسیسی حکومت کے لیے یہ دفاع کا اہم حصہ تھا اور اگر مستقبل میں کسی جنگ میں دشمن بمبار طیارے پیرس کو نشانہ بنانے کی کوشش کریں گے تو اس کا دفاع کیا جاسکے گا۔ جیکوپوزی کے منصوبے کو خفیہ رکھا گیا مگر 1920 کے دوران برطانوی اخباروں تک یہ خبر پہنچ چکی تھی۔
اخبار دی گلوب نے اکتوبر کے اوائل میں یہ بڑی خبر دی تھی۔ اس کے بعد دی السٹریٹڈ لندن نیوز نے اسے 6 نومبر 1920 کو شائع کیا اور تصویر کے ساتھ یہ سرخی لگائی کہ ’پیرس کے باہر جعلی پیرس: ایک ’شہر‘ جسے بمباری کے لیے تعمیر کیا گیا۔‘ اس تحریر میں تصاویر، نقشوں اور تفصیلات کو شائع کیا گیا اور اخبار نے اسے ’دلچسپ انکشاف‘ قرار دیا۔
جیکوپوزی کو سرکاری اعزاز سے نوازا گیا
فرانسیسی حکومت نے اس شخص کا نام ظاہر نہیں کیا جس نے یہ نقلی شہر تعمیر کیا تھا۔ مگر جیکوپوزی کو 1920 کی دہائی کے دوران سرکاری اعزاز سے نوازا گیا تھا۔
انھوں نے اس کے علاوہ بھی کئی خدمات دیں جیسے ایفل ٹاور پر روشنیوں کا نظام۔ انھوں نے لا کنکورڈ پیلس پر فلڈ لائٹس نصب کیں اور کئی تاریخی عمارتوں پر خوبصورت لائٹنگ کا کام کیا۔
کمرشل دنیا نے جیکوپوزی کا چھپا ہوا ہنر بھانپ لیا اور گاڑیوں کی کمپنی سیتروین نے انھیں ایفل ٹاور پر اپنی ایک مشہور کار کی تشہیری مہم کا ذمہ دیا۔
جیکوپوزی کی موت 1932 میں ہوئی۔ ان کی وفات پر اخبار دی پیپل نے لکھا کہ ’انھوں نے ایفل ٹاور کی روشنیوں سے دنیا کی توجہ حاصل کی اور پیرس کو روشنیوں کا شہر بنا دیا۔‘
اس تحریر میں جنگ کے دوران کے ان کے کارناموں کا کوئی ذکر نہ کیا گیا۔ کیونکہ فیک نیوز سے بہتر ہے کوئی خبر نہ دی جائے۔ خاص کر جب بات ایک فیک سٹی کی ہو۔
Comments are closed.