- مصنف, اکبر حسین
- عہدہ, بی بی سی بنگلہ
- ایک گھنٹہ قبل
آج سے تقریباً ساڑھے چار سو سال قبل خزاں کے موسم میں ہندوستان کی ایک مغل سلطنت کی شہزادی گلبدن بیگم نے حج کے لیے مکہ اور مدینہ کے مقدس شہروں کا سفر شروع کیا تھا۔گلبدن بیگم شاہی خاندان کی خواتین حاجیوں کے ایک گروپ کی قیادت کر رہی تھیں۔ وہ ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کی پہلی خاتون تھیں جنھوں نے حج کیا۔گلبدن بیگم ہندوستان میں مغل سلطنت کے بانی شہنشاہ ظہیر الدین محمد بابر کی بیٹی تھیں۔ جب وہ حج پر جا رہی تھیں تو ان کی عمر 54 برس تھی۔لیکن برصغیر پاک و ہند سے حج پر جانے کی تاریخ اس سے کہیں پرانی ہے۔
ہندوستان سے حج پر جانے کی تاریخ دہلی سلطنت کے دور سے جاری و ساری ہے۔ دہلی سلطنت کا قیام تیرھویں صدی کے اوائل میں سنہ 1204 میں شروع ہوا تھا۔ اس وقت بنگال میں مسلمانوں کی حکومت کا قیام عمل میں آیا تھا۔مورخین کے مطابق دہلی سلطنت کے دور سے ہی چٹاگانگ بندرگاہ سے بحری جہازوں کے ذریعے حج کے مسافروں کو لے جانے کی تاریخ موجود ہے۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
ایک طوفانی سمندری سفر
حج کا سفر شروع میں کافی مشکل اور وقت طلب تھا۔اس وقت کے غیر منقسم بنگال اور آسام کے محکمہ تعلیم کے اعلیٰ عہدیدار بہادر خان احسان اللہ برطانوی دور حکومت میں حج کرنے گئے تھے۔انھوں نے حج کی یاداشت پر مبنی اپنی کتاب میں واضح طور پر یہ نہیں بتایا کہ وہ کس تاریخ کو حج کے لیے روانہ ہوئے تھے تاہم ان کی تحریر سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا یہ سفر سنہ 1920 کے بعد کا ہو سکتا ہے۔خان بہادر احسان اللہ نے لکھا ہے کہ وہ جب حج کے لیے اپنے گھر سے نکلے تو سب سے پہلے کلکتہ پہنچے اور پھر کولکتہ سے الہ آباد پہنچے۔الہ آباد سے ٹرین کے ذریعے ممبئی (تب بمبئی) جانے کی تیاری کی۔ ان کا ارادہ وہاں سے حاجیوں کو لے جانے والے جہاز میں سوار ہونے کا تھا۔،تصویر کا ذریعہsocial media
خوشحال لوگ حج کے لیے ڈھاکہ سے کراچی جاتے تھے
،تصویر کا ذریعہsocial media
کرایہ کتنا تھا؟
اس وقت عازمین حج کو کراچی سے جدہ لے جانے کے لیے اخبارات میں اشتہارات بھی دیے جاتے تھے۔ اور اورینٹ ایئرویز کا ایسا ہی ایک اشتہار بہت سے لوگوں نے فیس بک پر شیئر کیا ہے۔اشتہار میں لکھا گیا کہ اورینٹ کی تیز رفتار اور آرام دہ پرواز کے ذریعے کراچی سے جدہ پہنچنے میں صرف 9 گھنٹے لگتے ہیں۔ کرایہ 1150 روپے ہے۔اسلام اور سفر پر لکھنے والے مصنف احمد الاسلام چودھری نے لکھا ہے کہ حج پر جانے کا یہ خوبصورت نظام چٹاگانگ بندرگاہ پر سنہ 1970 تک برقرار تھا، اس وقت ڈیک اور تھرڈ کلاس کا کرایہ 1919 روپے تھا۔ اس میں سے 1000 روپے رہائش اور کھانے کے لیے ہوا کرتے تھے۔ سعودی عرب میں 919 روپے کھانے اور جہاز کا کرایہ اور دیگر سرکاری اخراجات کے لیے تھے۔ اگر آپ جہاز پر سیکنڈ کلاس میں سفر کریں گے تو کل خرچہ 4 ہزار 500 ٹکا آتا تھا جبکہ فرسٹ کلاس میں کل خرچ سات ہزار روپے سے کچھ زیادہ تھا۔کراچی کے محمد رمضان سنہ 1974 میں جہاز کے ذریعے حج پر گئے تھے۔ رمضان نے سنہ 2020 میں عرب نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا ’میں نے جہاز کا ٹکٹ 6,000 روپے میں خریدا۔ پھر کراچی سے جدہ پہنچنے کے لیے سات دن اور سات راتیں جہاز پر گزاریں۔‘
جب سعودی عرب نے بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے سے انکار کیا اور بنگلہ دیشی شہریوں کو انڈین پاسپورٹ پر حج کرنا پڑا
نو ماہ کی جنگ کے بعد بنگلہ دیش کی پاکستان سے آزادی کے بعد حج کے حوالے سے ایک مختلف صورتحال سامنے آئی۔سعودی عرب نے بنگلہ دیش کو آزاد ملک تسلیم نہیں کیا تھا اس لیے بنگلہ دیشی حج پر نہیں جاسکتے تھے۔سعودی عرب کے ساتھ پاکستان کے سفارتی تعلقات بہت گہرے تھے۔ سعودی عرب اس حقیقت کو قبول نہیں کر سکتا تھا کہ بنگلہ دیش پاکستان سے آزادی حاصل کرنے کے بعد ایک آزاد ریاست کے طور پر قائم ہو چکا ہے۔نتیجتاً آزادی کے فوراً بعد اس وقت کے بنگلہ دیشیوں کو انڈین پاسپورٹ کے ساتھ حج پر جانا پڑا۔حج کے مسافروں کو چٹاگانگ بندرگاہ سے انڈیا کے محمدی جہازوں پر منتقل کیا جاتا تھا۔ دوسری راستہ یہ تھا کہ قرعہ اندازی کے ذریعے تین ہزار عازمین حج کا انتخاب کرکے ڈھاکہ سے ہوائی جہاز روانہ کیا گیا۔انڈین بحری جہاز کافی پرانا اور کمزور تھا۔ نتیجتاً یہ سمندری سفر کے لیے موزوں نہیں تھا۔ اس لیے سنہ 1977 میں بنگلہ دیش حکومت نے ایک جہاز خریدا، جس کا نام ’حزب بہار‘ رکھا گیا۔اس کے بعد ڈھاکہ سے حج پروازوں میں بھی بتدریج اضافہ ہوا اور یہاں مختلف انتظامی کام شروع کیے گئے۔،تصویر کا ذریعہEMBASSY OF BANGLADESH, RIYADH
شیخ مجیب کی شاہ فیصل سے ملاقات اور سعودی بادشاہ کی پاکستانی قیدیوں کی رہائی کی شرط
ستمبر سنہ 1972 میں سعودی بادشاہ فیصل کو ایک ٹیلیگرام بھیجا گیا۔ اس تار میں بنگلہ دیش کے مسلمانوں کو حج کی اجازت دینے کی عرضی پیش کی گئی تھی۔ اس وقت یہ خبر مختلف اخبارات میں چھپی تھی۔شیخ مجیب نے خط میں لکھا کہ ’بنگلہ دیش کے زیادہ تر لوگ دیندار مسلمان ہیں اور وہ اسلام کے اصولوں پر سختی سے عمل پیرا ہیں۔ اگر آپ کی حکومت کسی افسر کو ویزہ دینے کے لیے بھیجنا چاہے تو اس کا خیرمقدم کیا جائے گا اور تمام سہولیات فراہم کی جائیں گی۔‘سنہ 1973 میں شیخ مجیب افریقی ملک الجزائر میں منعقد ہونے والی کانفرنس میں شامل ہوئے۔اس وقت تک پاکستان اور چین کے ساتھ ساتھ سعودی عرب اور لیبیا نے بھی بنگلہ دیش کو ایک خودمختار آزاد ملک کے طور پر تسلیم نہیں کیا تھا۔ الجزائر پہنچ کر شیخ مجیب الرحمن نے کرنل قذافی اور سعودی شاہ فیصل سے ملاقات میں دلچسپی ظاہر کی۔شیخ مجیب جاننا چاہتے تھے کہ سعودی عرب اور لیبیا مسلم اکثریتی بنگلہ دیش کو کیوں تسلیم نہیں کر رہے۔لیکن اس میٹنگ کا انعقاد آسان نہیں تھا۔ متوفی صحافی ایم آر اختر مکل نے لکھا کہ شیخ مجیب الرحمن کے ہم سفر بیرسٹر امیر الاسلام کی انتھک کوششوں سے الجزائر میں اس میٹنگ کا انتظام ہوا۔صدر شیخ مجیب الرحمن کے ساتھ صحافی ایم آر اختر مکل بھی تھے۔مکل نے اپنی کتاب مجیبز بلڈ ریڈ میں شیخ مجیب الرحمان اور شاہ فیصل کے درمیان ہونے والی ملاقات کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.