پاکستان اور روس کے اُتار چڑھاؤ پر مبنی تعلقات: دھمکیوں سے بلاوے تک، دونوں ممالک میں تعلقات کے مختلف ادوار
- فرحت جاوید
- بی بی سی اردو، اسلام آباد
یہ اپریل 1987 کی بات ہے۔ افغانستان سے ’مجاہدین‘ نے سوویت یونین کی سرحد کے اندر حملے کرنے کا سلسلہ تین سال پہلے ہی شروع کر دیا تھا۔ پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی میں اس وقت بریگیڈیئر محمد یوسف افغان آپریشنز کی سربراہی کر رہے تھے۔
اپریل میں برف پگھلی تو آئی ایس آئی نے مجاہدین کی تین ٹیمیں تیار کیں جنھوں نے خفیہ طور پر دریائے آمو پار کیا اور سوویت یونین کے وسط ایشیائی حصے میں داخل ہوئے۔
پہلی ٹیم نے ازبکستان میں ترمذ کے قریب ایک ایئر فیلڈ کو راکٹ سے نشانہ بنایا۔ بیس ’باغیوں‘ پر مشتمل دوسری ٹیم نے افغانستان کی سرحد کے ساتھ متعدد روسی گاڑیوں پر حملے کیے جبکہ تیسری ٹیم نے سوویت یونین کی سرحد میں دس میل تک اندر داخل ہو کر ایک فیکٹری کو راکٹس اور بارود مواد سے نشانہ بنایا۔
سٹیو کول نے اپنی کتاب ’گھوسٹ وارز‘ میں یہ تفصیلات بیان کرتے ہوئے لکھا کہ جب یہ حملے ہو رہے تھے عین اسی وقت امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے سیٹلائٹ کے ذریعے ان علاقوں میں ہونے والے مظاہروں کی تصاویر لے رہی تھی۔
سویت یونین کی سرحد کے اندر ہونے والے یہ حملے ایک معمہ تھے۔
ٹھیک ایک ماہ بعد جب سی آئی اے نے اسلام آباد میں تعینات اپنے سٹیشن چیف سے پوچھا کہ کیا وہ سوویت یونین کے اندر کاروائیاں کروا رہے ہیں، تو اُن کا جواب نفی میں تھا۔ امریکی صدر کی اجازت کے بغیر سی آئی اے سوویت یونین میں حملے کرنے یا کروانے کی مجاز نہیں تھی اور دستاویزات کی حد تک ایسا کوئی ثبوت موجود نہیں تھا۔
لیکن بریگیڈیئرمحمد یوسف کے مطابق سوویت یونین کی سرحد میں داخل ہو کر کاروائیاں کرنے کا خیال اس وقت سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم کاسی کا تھا۔
اس حملوں میں سوویت یونین نے اپنے اہلکاروں کی بے شمار ہلاکتوں کی وجہ سے اُسی ماہ واشنگٹن اور اسلام آباد پیغامات پہنچائے کہ یہ کاروائیاں جاری رہیں تو یہ پاکستان کی سالمیت اور وقار کے لیے خطرہ بن سکتی ہیں۔
یہ سوویت یونین کی طرف سے پاکستان کو دوسری براہ راست دھمکی تھی۔
سٹیو کول لکھتے ہیں کہ واشنگٹن نے ماسکو کو یقین دہانی کروائی کہ انھوں نے کبھی ’مجاہدین‘ کو سوویت سرزمین پر حملوں کی اجازت نہیں دی جبکہ پاکستان میں جنرل ضیاالحق نے بریگیڈیئر یوسف کو حکم بھیجا کہ وہ اپنی ٹیمیں واپس بلائیں۔
یہ سرد جنگ کا عروج بھی تھا اور سوویت یونین اور پاکستان کے درمیان تعلقات کا بدترین دور بھی۔
پاکستان کے صدر ایوب خان اپنی بیٹی بیگم نسیم اورنگزیب کے ہمراہ امریکہ کے دورے پر گئے تھے
آج جب وزیراعظم عمران خان کا یہ شکوہ ہے کہ اُن کا تاحال امریکی صدر جو بائیڈن سے رابطہ استوار نہیں ہوا، کچھ ایسی ہی صورتحال قیام پاکستان کے بعد بھی پیدا ہوئی تھی۔ اگرچہ پاکستان کے وزیر خارجہ ظفراللہ خان اپریل 1948 میں روسی وزیر خارجہ سے سفارتی تعلقات کے قیام سے متعلق ملاقات کر چکے تھے تاہم ایسا ہونے میں سات ماہ کا عرصہ لگا۔
دوسری جانب پاکستانی حکمرانوں کی خواہش تھی کہ وہ امریکہ کے کیمپ میں ہو لیکن جب مئی 1949 میں انڈیا کے وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے آئندہ برس امریکہ کے دورے کا اعلان کیا تو پاکستان کو سخت مایوسی ہوئی۔
کچھ ہی عرصے بعد پاکستان کی جانب سے لیاقت علی خان کے دورہ ماسکو کا اعلان ہوا۔ اگر یہ دورہ ہو جاتا تو لیاقت علی خان ایک کامنز ویلتھ ملک کے پہلے وزیراعظم ہوتے جو سوویت یونین کے کیمپ میں جاتے۔
یہ بھی پڑھیے
تاہم یہ دورہ نہ ہو سکا اور اس کی بجائے یہ خبر آ گئی کہ لیاقت علی خان مئی 1950 میں امریکہ جائیں گے۔ انڈین وزیراعظم کا دورہ اسی سال دسمبر کے لیے طے تھا۔
اس وقت شائع ہونے والے پیپرز میں سوویت یونین کی بجائے امریکہ کا انتخاب کرنے کی بنیادی وجہ معاشی امداد بیان کی گئی تھی۔ پاکستان کو خدشہ تھا کہ ایک نیا ملک ہونے کے ناطے پاکستان کی معیشت اور دفاع کو مضبوط کرنے کے لیے جو معاشی مدد چاہیے وہ سوویت یونین فراہم نہیں کر سکے گا۔ مگر اس کی ایک توجیہہ یہ بھی دی گئی تھی کہ سوویت معاشرہ مارکسزم اور ایتھیسٹ (خدا کو نہ ماننے والے) نظریات کا حامل ہے جو مذہب اسلام کے منافی ہے۔
لیاقت علی خان کا امریکہ کا دورہ سرد جنگ میں پاکستان کا امریکی کیمپ میں داخل ہونے کا واضح پیغام تھا۔
اس دوران 1950 میں مشہور راولپنڈی سازش کیس بھی ہوا جب کمیونسٹ خیالات کے حامل میجر جنرل اکبر خان نے لیاقت علی خان کی حکومت کے خلاف ناکام فوجی بغاوت کی۔
ادھر سرد جنگ میں انڈیا نان الائنمنٹ موومنٹ کا حصہ بنا اور غیر جانبداری کی پالیسی اپنائی مگر پاکستان سیٹو اور سینٹو جیسے اتحاد کا حصہ بنا جو سوویت یونین سے پھیلنے والے کمیونزم کو روکنے کے لیے بنائے گئے تھے۔ یوں پاکستان امریکہ کا اعلانیہ اتحادی بن گیا۔
روس اور پاکستان کے تعلقات میں کچھ بحالی حسین شہید سہروردی کے دور میں ہوئی۔ اس دوران پاکستان میں سوویت فلموں کی نمائش، ثقافتی وفود کے دورے اور صنعت و زراعت میں بہتری کے حوالے سے ہونے والے دوروں سے حالات کچھ بہتر ہوئی۔
سرد جنگ میں انڈیا نان الائنمنٹ موومنٹ کا حصہ بنا اور غیر جانبداری کی پالیسی اپنائی
سنہ 1956 میں امریکی صدر نے حسین شہید سہروردی کی حکومت سے پشاور کے قریب خفیہ انٹیلیجنس سینٹر کے قیام کے لیے پشاور ایئر سٹیشن کی سہولت حاصل کر لی اور پھر 1960 میں جب صدر ایوب نے امریکی جاسوسی طیارے کو پروازوں کی اجازت دی تو اسی سال مئی میں پشاور ایئر فیلڈ سے اُڑان بھرنے والے سی آئی اے کے جاسوس طیارے یو ٹو کو سوویت ایئر ڈیفنس نے مار گرایا۔
جہاز کے پائلٹ کو گرفتار کر لیا گیا اور طیارے کی باقیات سے سوویت انسٹالیشنز کی تصاویر برآمد کر لی گئیں۔
یہ وہ دن تھا جب سوویت وزیر اعظم نے پاکستان کو ’آگ سے نہ کھیلنے‘ کی دھمکی دی اور کہا کہ پشاور کو میزائلوں سے تباہ کر دیا جائے گا۔
کتاب ’ڈسنچانٹڈ ایلائز‘ کے مطابق نکیتا خروشچیف نے یوٹو واقعے کے بعد ماسکو میں ایک اجلاس کے دوران کہا تھا کہ ’ہم ان ملکوں کو متنبہ کرتے ہیں جو اپنی سرزمین سوویت مخالف مقاصد کے لیے استعمال ہونے دیتے ہیں۔‘
گیری پاورز اور ان کا ساز و سامان جو روس نے اپنے قبضے میں لے لیا تھا
’آگ سے مت کھیلیں! ترکی، پاکستان اور ناروے کی حکومتوں کو واضح طور پر معلوم ہونا چاہیے کہ وہ اس لڑائی میں شریک ہیں۔‘
سنہ 1962 میں انڈیا اور چین کے درمیان جنگ ہوئی تو امریکہ اور انڈیا کے درمیان تعلقات بہتر ہونا شروع ہوئے۔ چونکہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا محور انڈیا تھا، اس لیے پاکستان نے سوویت یونین سے تعلقات میں بہتری کی کوشش کی۔ دونوں ملکوں کے درمیان تیل کی تجارت کا معاہدہ ہوا۔
اپریل 1965 میں پاکستان کے صدر ایوب خان نے روس کا دورہ کیا۔ یہ وہ وقت تھا جب امریکہ اور پاکستان کے درمیان تعلقات خراب ہو رہے تھے۔ انڈیا اور پاکستان کے درمیان 1965 کی جنگ میں روس نے ثالث کا کردار ادا کیا اور معاہدہ تاشقند طے پایا۔
دونوں ملکوں میں تعلقات بہتر ہوئے مگر 1971 کی جنگ میں روس نے کھل کر انڈیا کا ساتھ دیا تو پاکستان کے تعلقات ایک بار پھر ختم ہوئے۔ اس دوران انڈیا اور سوویت یونین کے درمیان بیس سالہ دوستانہ معاہدہ بھی طے پایا اور دفاعی ساز و سامان کی خریداری بھی کئی گنا بڑھی۔
1972 میں ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے پہلے وزیر اعظم تھے جنھوں نے سوویت یونین کا دورہ کیا
انڈیا اور سوویت کی قربتیں بڑھیں تو پاکستان اور امریکہ بھی ایک بار پھر قریب ہوئے۔ پاکستان نے چین اور امریکہ کے تعلقات میں کشیدگی کم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ پاکستان کی سفارتی کوششوں سے 1972 میں امریکی صدر رچرڈ نِکسن چین کے دورے پر آئے۔
سنہ 1972 میں ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے پہلے وزیر اعظم تھے جنھوں نے سوویت یونین کا دورہ کیا۔ ان کا دوسرا دورہ دو سال بعد یعنی سنہ 1974 میں ہوا۔
مزید پڑھیے
پاکستان اب امریکی اتحاد کا حصہ نہیں تھا مگر سوویت یونین کے ساتھ یہ تعلقات اب جلد ہی افغانستان میں جنگ کی نذر ہونے کو تھے۔ سنہ 1979 میں سوویت افواج افغانستان میں داخل ہوئیں تو پاکستان کے فوجی سربراہ جنرل ضیاالحق نے امریکہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا اور ’افغان مجاہدین‘ کی مدد کی۔
پاکستان اور روس کے تعلقات میں آنے والے کشیدگی سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد تک برقرار رہی۔
سنہ 2001 کی دوسری افغان جنگ کے نتیجے میں پاکستان نے طالبان کی حمایت ختم کرتے ہوئے امریکہ کا ساتھ دیا تب بھی پاکستان روس تعلقات میں زیادہ بدلاؤ نہیں آیا۔
2011 میں اس وقت کے پاکستانی صدر آصف علی زرداری نے روس کا دورہ کیا
البتہ سنہ 2007 میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں ایک اہم موڑ تب آیا جب اپریل 2007 میں روس کے وزیر اعظم پاکستان کے دورے پر آئے۔ یہ کسی بھی روسی وزیراعظم کا پاکستان کا پہلا دورہ تھا۔
اس کے جواب میں سنہ 2011 میں اس وقت کے پاکستانی صدر آصف علی زرداری نے روس کا دورہ کیا اور اپنے روسی ہم منصب ولادیمیر پوتن کو پاکستان کے دورے کی دعوت دی جو انھوں نے قبول کر لی۔
تاہم صدر پوتن کا اکتوبر 2012 میں پاکستان کا ہونے والا دورہ نامعلوم وجوہات کی بنا پر منسوخ کر دیا گیا۔ مگر پاکستان روس کے تعلقات میں آہستہ آہستہ بہتری آتی رہی اور اس دوران دونوں ممالک کے درمیان چند دفاعی معاہدے بھی ہوئے۔
اب روس کے صدر ولادیمر پوتن کی دعوت پر وزیر اعظم عمران خان ماسکو جا رہے ہیں۔
یہ دورہ ایک ایسے وقت ہو رہا ہے جب ہمسایہ ملک افغانستان میں طالبان اقتدار حاصل کر چکے ہیں اور روس کو افغانستان میں نام نہاد دولت اسلامیہ کی موجودگی پر تشویش ہے۔ دوسری جانب یہ دورہ پاکستان کے امریکی کیمپ کی بجائے چین اور روس کی جانب بڑھنے کا سیاسی پیغام لیے ہوئے ہے۔
Comments are closed.