ولادیمیر پوتن: جب روسی صدر کو اخراجات پورے کرنے کے لیے ٹیکسی چلانی پڑی
کیا آپ جانتے ہیں کہ روس کے موجودہ صدر ولادیمیر پوتن کسی زمانے میں گھر کے اخراجات پورے کرنے کے لیے دو نوکریاں کرتے تھے، اور یہ دوسری نوکری تھی ٹیکسی ڈرائیور کی؟
1991 میں سویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کا آج بھی روس کے موجودہ صدر ولادیمیر پوتن کو افسوس ہے۔ لیکن اس تاریخ ساز واقعے نے پوتن کی ذاتی زندگی کو کس طرح متاثر کیا، اس راز سے انہوں نے حال ہی میں پردہ اٹھایا ہے۔
آج دنیا کے طاقتور ترین رہنماؤں میں شمار ہونے والے پوتن کے لیے وہ ایک مشکل وقت تھا۔ سویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد معاشی بحران نے عام آدمی کی زندگی کو شدید متاثر کیا تھا اور لوگ پیسہ کمانے کے لیے ایک سے زیادہ نوکریاں کرنے پر مجبور ہو گئے تھے۔
پوتن کا شمار بھی ایسے ہی لوگوں میں ہوتا تھا جن کے مطابق انہیں بھی اس وقت زیادہ پیسہ کمانے کی ضرورت تھی کیوں کہ ان کا گزارہ نہیں ہوتا تھا۔
‘بدقسمتی سے حالات ہی کچھ ایسے تھے’
‘بعض اوقات زیادہ پیسے کمانے کے لیے بطور ٹیکسی ڈرائیور گاڑی چلانی پڑتی تھی۔ سچ تو یہ ہے کہ اس وقت کے بارے میں بات کرنا مجھے پسند نہیں ہے لیکن بدقسمتی سے حالات کچھ ایسے ہی تھے۔’
یہ کہنا تھا ولادیمیر پوتن کا جن کے یہ جملے اتوار کے روز چلائی جانے والی ڈاکومینٹری ‘روس، حالیہ تاریخ’ میں سنے گئے۔
واضح رہے کہ یہ وہ وقت تھا جب معاشی حالات خراب ہونے کی وجہ سے روس میں ٹیکسی بھی کم کم ہی نظر آتی تھی اور زیادہ تر افراد اپنی گاڑیوں میں ہی اجنبیوں کو بھی بٹھا کر کچھ کما لیتے تھے۔ کئی لوگ تو ایمبولنس کو بھی بطور ٹیکسی چلاتے تھے تاکہ گھر کے اخراجات پورے ہو سکیں۔
ولادیمیر پوتن سے متلعق عام طور پر یہ رائے موجود ہے کہ وہ سویت یونین کی خفیہ ایجنسی کے جی بی کے ایجنٹ تھے۔ لیکن ان کا دعویٰ ہے کہ اگست 1991 میں انہوں نے کے جی بی سے اس وقت استعفی دے دیا تھا جب اس وقت کے صدر میخائیل گورباچوف کا تختہ الٹنے کی کوشش کی گئی تھی۔ اس کے کچھ ہی عرصے بعد سویت یونین ٹوٹ گیا تھا اور ولادیمیر پوتن نے سینٹ پیٹرزبرگ کے میئر اناتولی سوبشیک کے دفتر میں کام کرنا شروع کر دیا تھا۔
سویت یونین کے ٹوٹنے کا دکھ
اس ڈاکومینٹری کے دوران پوتن نے سویت یونین کے ٹوٹنے پر اپنی رائے کا کھل کر اظہار کیا۔
انہوں نے کہا کہ ‘سویت یونین کا ٹوٹنا دراصل تاریخی روس کا شیرازہ بکھرنا تھا۔’ پوتن کے مطابق مغرب میں اب بھی یہ تصور موجود ہے کہ روس کے مزید ٹکڑے ہونا بھی کچھ ہی وقت کی بات ہے۔
یاد رہے کہ پوتن کی جانب سے ماضی میں بھی سویت یونین کے بکھرنے سے متعلق ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے اور ان کے انٹرویو میں نئی بات صرف اس تاریخی واقعے کے ان کی ذاتی زندگی پر اثرات سے متعلق تھی۔
یہ بھی پڑھیے
کیا پوتن نے ڈھکے چھپے الفاظ میں یوکرین تنازعے پر کارروائی کا عندیہ دیا؟
لیکن اس وقت روس اور مغربی دنیا کے درمیان یوکرین کے تنازعے کی وجہ سے ان جملوں کو بھی اہمیت دی جا رہی ہے۔ قیاس آرائی ہو رہی ہے کہ کیا پوتن نے سابق سویت یونین کی ریاست یوکرین کے بارے میں اپنے خیالات ڈھکے چھپے الفاظ میں بتانے کی کوشش کی ہے اور کیا اس سے روس کے منصوبے کا پتہ چلتا ہے؟
واضح رہے کہ روس نے یوکرین کی سرحد پر 90 ہزار فوجی تعینات کر رکھے ہیں اور مغربی دنیا کی جانب سے بار بار اس خدشے کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ روس جلد ہی یوکرین پر حملہ کرنے والا ہے۔ روس کی جانب سے اس الزام کے جواب میں موقف اپنایا گیا ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ روس کی جانب سے یوکرین پر اشتعال دلانے کا جوابی الزام لگایا جاتا ہے۔
روس کی ایک شکایت یہ بھی ہے کہ یوکرین کے تنازعے کی آڑ میں مغربی دنیا اور نیٹو مشرقی یورپ پر اپنا تسلط قائم کر رہے ہیں جس کا نشانہ براہ راست روس ہے۔
Comments are closed.