- مصنف, وقار مصطفیٰ
- عہدہ, صحافی و محقق، لاہور
- 19 منٹ قبل
یہ جنوری 930 کی بات ہے جب مکہ میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے اس زمانے کی پوری مسلم دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ خلافت عباسیہ اندرونی اختلافات سے متاثر تھی جب مکہ میں داخل ہونے والے ایک گروہ نے کعبہ سے حجر اسود اکھاڑ لیا جسے مسلمان مقدس سمجھتے ہیں۔ تاہم یہ گروہ حجر اسود کو اپنے ساتھ لے گیا اور اگلے 22 برس تک واپس نہیں آ سکا۔یہ گروہ مکہ کیوں آیا اور حجر اسود کو کہاں لے گیا؟ ان سوالوں کے جواب جاننے سے قبل یہ سمجھنا ضروری ہے کہ حجر اسود کیا ہے اور اس کی اتنی اہمیت کیوں ہے؟
حجرِ اسود کیا ہے؟
حجر اسود کے لغوی معنی ’سیاہ پتھر‘ کے ہیں۔ سرخی اور سیاہی مائل زرد رنگ کے اس بیضوی پتھر کا قطر تقریباً 30 سینٹی میٹر ہے اور یہ کعبہ کے جنوب مشرقی کونے پر دیوار کے ساتھ زمین سے کوئی پانچ فٹ کی بلندی پر نصب ہے۔ علی شبیر تاریخ حجر اسود میں لکھتے ہیں کہ اسے سنگ اسود، رکن اسود (سیاہ گوشہ)، حجر اور رکن بھی کہتے ہیں جو طواف کے آغاز اور اختتام کی علامت ہے۔امریکا میں غامدی سینٹر آف اسلامک لرننگ ڈیلَس سے منسلک محقق نعیم احمد بلوچ کے مطابق حجر اسود کا استلام (حجر اسود کو چومنا یا چھونا) ایک علامت ہے۔ ’ہم علامتاً اللہ سے بیعت کرتے ہیں اور اس کی اطاعت کا اعلان کرتے ہیں۔‘
اس پتھر سے جڑی تاریخ دراصل مذہب اسلام سے بھی زیادہ قدیم ہے اور یہ بحث رہی ہے کہ آیا یہ شہاب ثاقب، آتش فشانی پتھرہے یا قدرتی شیشے کا ٹکڑا۔،تصویر کا ذریعہTwiiter/@ReasahAlharmain
جب حجر اسود 22 سال کے لیے کعبہ سے اکھاڑ لیا گیا
پیر 18 جنوری 930 کی سہ پہر تھی جب وہ واقعہ پیش آیا جس کے بعد کئی برس حجر اسود کعبہ کے بجائے ایک اور مقام پر موجود رہا۔نویں سے گیارہویں صدی کے دوران عراق، یمن اور خاص طور پر بحرین میں سرگرم قرامطہ کی فوج اس سے چھ دن پہلے، حج کے پہلے روز، ابو طاہر سلیمان کی قیادت میں گھوڑوں پر سوار حرم میں داخل ہوئی تھی۔فرانسس ای پیٹرز اپنی کتاب ’مکہ: اے لٹریری ہسٹری آف دی مسلم ہولی لینڈ‘ میں لکھتے ہیں کہ ’قرامطہ عباسی خلافت کو جہاں کمزور پاتے، حملہ کرتے اور کوفے سے مکے جاتی، درب زبیدہ کہلاتی حج کی شاہراہ تو ان کا آسان ہدف تھی۔‘’دسویں صدی کے پہلے سات سال، قرامطہ عراقی حج قافلوں کو ہراساں کرتے رہے۔ اگلی دو دہائیوں میں خاموشی رہی۔ پھر سنہ 925 میں بغداد سے چلا حج قافلہ مکہ نہ پہنچ سکا اور عباسی خلافت کے اس دارالخلافہ سے اگلے دو سال کسی نے حج پر جانے کی جرات نہ کی۔‘عثمانی مورخ قطب الدین کے مطابق ابو طاہر کی فوج نے ’حرم، مکہ اور اردگرد کی گھاٹیوں میں تقریباً 30 ہزار لوگوں کو قتل کیا۔ 1700 افراد کی جان طواف کرتے ہوئے لی گئی اور زم زم اور دیگر کنوئیں لاشوں سے اٹ گئے۔‘پھر انھوں نے ’کعبہ کے خزانے کو لوٹا۔ مقام ابراہیم یعنی وہ پتھر جس پر کعبہ کی تعمیر کرتے ہوئے حضرت ابراہیم کے قدموں کے نشان ہیں، کی تلاش کی لیکن اسے کہیں چھپا دیا گیا تھا۔ مایوس ہو کر ابو طاہر نے حجرِ اسود اکھڑوا کر اپنے علاقے الاحسا کے دارالحکومت ہَجَر میں دارالہجرۃ نامی مسجد میں لگو ا دیا۔‘،تصویر کا ذریعہTwitter/@ReasahAlharmainاسلامی انسائیکلوپیڈیا میں سید قاسم محمود لکھتے ہیں کہ ’اب ابو طاہر پر خبط سوار ہوا کہ لوگ کعبہ کے حج اور طواف کو چھوڑ کر دارالہجرۃ کا حج کریں لیکن ناکامی ہوئی۔‘’حجرِ اسود تقریباً 22 سال تک ابو طاہر کے قبضے میں رہا اور تقریباً 10 سال تک کعبہ کا حج امن نہ ہونے کی وجہ سے نہ ہو سکا۔ سنہ 939 میں ابو طاہر کی اجازت اور ہر حاجی سے پانچ دینار محصول کی وصولی کی شرط سے حج دوبارہ شروع ہوا۔‘قطب الدین کے مطابق کعبہ کے مشرقی کونے کی جانب حجر اسود کی جگہ خالی رہی اور لوگ تبرک کے طور پر اس جگہ ہاتھ رکھ دیا کرتے۔سنہ 950 میں حجر اسود دوبارہ کعبہ میں نصب کیا گیا۔ اردو دائرہ معارف اسلامیہ میں شفا الغرام کے حوالے سے لکھا ہے کہ یوم النحر (قربانی کے دن) کو سُنبُربن حسن قرمطی نے حجر اسود کو دوبارہ اس کی جگہ پر لگایا۔ ’لوگوں نے حجراسود کو دیکھا تو سجدہ شکر بجا لائے اور اسے بوسہ دیا۔‘
آگ کی تباہی اور کعبے کی تعمیر نو
واضح رہے کہ اسلام سے قبل بھی حجر اسود مقدس سمجھا جاتا تھا۔ اسلام کے آغاز سے قبل ایک بار کعبے کی عمارت آگ لگنے سے تباہ ہو گئی جس کے بعد کعبے کی نئی تعمیر ہوئی لیکن جب حجراسود کو اس کی جگہ پر نصب کرنے کا موقع آیا تو اہل مکہ اس بات پر جھگڑنے لگے کہ یہ اعزاز کس کے حصے میں آئے۔دائرہ میں سیرۃ ابن ہشام اور شفا الغرام کے حوالے سے لکھا ہے کہ ’آخر قریش کے معتبر ترین شخص ابوامیہ بن المغیرہ نے کہا کہ جو شخص سب سے پہلے نمودار ہو وہی یہ خدمت بجا لائے گا اور عین اسی وقت پیغمبر اسلام کا گزر ہوا تو سب پکار اٹھے کہ امین آ گئے، محمد آ گئے، یہ ہمیں پسند ہیں۔‘
روایت ہے کہ ’پیغمبر اسلام نے کمال دانش مندی سے کہا مجھے ایک چادر دیجیے۔ چادر مہیا کر دی گئی۔ اس میں حجراسود رکھا اور قبائل کے سرداروں سے کہا کہ وہ اس کپڑے کے کونے پکڑ کر لے چلیں۔ پھر آپ نے خود پتھر کو اٹھایا اور مقررہ مقام پر رکھ دیا۔‘اس روایت سے علم ہوتا ہے کہ گویا تب تک حجراسود ایک ہی پتھر تھا اور اس کے ٹکڑے نہیں ہوئے تھے۔
حجر اسود کو کب کب نقصان پہنچا؟
الارزقی ساتویں صدی میں عبد اللہ بن زبیر کی تعمیر کعبہ میں شریک لوگوں سے نقل کرتے ہیں کہ کعبے کو آگ لگنے سے حجر اسود کے تین ٹکڑے ہو گئے تھے۔’ایک چھوٹا سا ٹکڑا کسی طرح بنوشیبہ کے ایک آدمی کے ہاتھ لگ گیا اور بہت دن بعد تک بنوشیبہ کے پاس رہا۔ پھر عبداللہ بن زبیر نے حجر اسود کے ٹکڑوں کو چاندی کے حلقے سے باندھ دیا۔ جب بعد میں یہ حلقہ کمزور ہو گیا اور حجر اسود کے ٹکٹرے ہلنے لگے تو عباسی خلیفہ ہارون الرشید نے حجر اسود میں آر پار سوراخ کر کے اس میں چاندی بھروا دی۔‘علی شبیر کی تاریخ حجر اسود کے مطابق تاریخ میں کوئی تین بار حجر اسود پر ضربیں لگائی گئیں۔’گو بظاہر اس کے ٹکڑے علیحدہ علیحدہ نہیں ہوئے مگر کئی حصوں میں ٹوٹ گیا تھا جو نقرئی (چاندی کے) حلقے کی وجہ سے جدا نہ ہو سکے۔‘’عثمانی سلطان مراد رابع کی خلافت (1623سے 1640 تک) کے زمانے میں جب کثرت بارش سے، جس میں ایک ہزار افراد بھی ہلاک ہوئے، کعبے کو نقصان پہنچا اور حجر اسود کو نکال کر باہر رکھا گیا تواس وقت دیکھا گیا کہ اس کے 13 ٹکڑے تھے جن میں زیادہ تر چھوٹے تھے۔‘ہلمی آیدن کا توپکاپی پیلس میوزیم کے بارے میں اپنی تحریر میں کہنا ہے کہ ’عثمانی سلطان حرمین شریفین کے نگہبان کے طور حجر اسود کے گرد چاندی کے فریم وقتاً فوقتاً تبدیل کرواتے رہے۔ بوسیدہ فریموں کو واپس استنبول لایا جاتا جہاں وہ اب بھی توپکاپی محل میں مقدس آثار کے حصے میں رکھے ہیں۔‘علی شبیر کے مطابق ایک بار ایک شخص نے ہتھوڑی سے ایک ٹکڑا توڑا جو بعد میں جوڑ دیا گیا۔ اس سمیت اب مجموعی طور پر حجر اسود کے 14 ٹکڑے ہیں جو مسالے سے جوڑ دیے گئے ہیں۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.