جب جاپانی ریڈ آرمی نے دو عرب ہائی جیکروں کی موت کا بدلہ لینے کے لیے اسرائیل کے ’لوڈ‘ ائیر پورٹ پر حملہ کیا
- مصنف, منزہ انوار
- عہدہ, بی بی سی اردو
- 45 منٹ قبل
23 سالہ روز سلوبودا ائیر پورٹ پر شیشے کے پار کھڑی اپنے مہمان کی منتظر تھیں اسی لمحے انھوں نے زور زور سے جیسے چیزوں کے ٹکرانے جیسی آوازیں سنیں۔ شیشے کے ٹکڑے ہر طرف پھیل گئے اور روز کو لگا جیسے بارش ہو رہی ہو لیکن یہ بارش نہیں گولیوں کی بوچھاڑ تھی۔’ہر طرف خون ہی خون تھا اور لوگ فرش پر گر رہے تھے۔ میں نے بھاگنے کی کوشش کی مگر اسی لمحے میری ٹانگ کے پچھلے حصے میں ایک سوراخ ہو گیا۔۔ تب مجھے احساس ہوا کہ مجھے گولی ماری گئی ہے۔‘آج سے تقریباً 52 برس قبل 30 مئی 1972 کو فلسطین کی آزادی کی جدوجہد کرنے والی تنظیم ’پاپولر فرنٹ فار دی لبریشن آف فلسطین‘ سے تعلق رکھنے والے جاپانی ریڈ آرمی کے تین مسلح افراد نے تل ابیب کے قریب لوڈ ہوائی اڈے پر حملہ کیا تھا جس میں 26 افراد ہلاک اور 70 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔اس وقت کو یاد کرتے ہوئے روز نے بی بی سی وٹنس ہسٹری کو بتایا کہ ’میں بھاگی اور ایک کرسی کے نیچے چھپ گئی۔۔اس وقت جو دہشت ناک منظر میری نظروں کے سامنے تھا۔۔ وہ منظر جس میں آپ کو اپنی موت نظر آ رہی ہوتی ہے۔۔۔ یہ ناقابلِ بیان ہے۔‘
’میری نظروں کے سامنے لندن میں میرے گھر کی تصویر، جس میں میرا خاندان ہے، گھوم رہی تھی۔۔میں بس انتظار کر رہی تھی کہ دوسری گولی مجھے آ کر لگے کیونکہ مجھے یقین ہو چکا تھا کہ وہ گولی میری زندگی کا خاتمہ کر دے گی مگر پھر سب کچھ ایک دم رک گیا اور اتنی خاموشی ہو گئی کہ سوئی گرنے کی آواز بھی سنائی دیتی‘۔روز نے کھڑے ہونے کی کوشش کی اور آس پاس بکھری تباہی دیکھی ’میرے قریب موجود آدمی مر چکا تھا جس کا سر اس کی بیوی کی گود میں تھا۔
’تمھیں لگتا ہے میرے شوہر خیریت سے ہوں گے؟‘
زخمیوں کو تل ابیب ہوشومیر ہسپتال لے جایا گیا جہاں روز کے ساتھ والے بستر پر پورتوریکو کی ایک حاملہ خاتون موجود تھیں۔ وہ بار بار اپنے شوہر کو پکار رہی تھیں۔ روز بتاتی ہیں کہ ان کے ارد گرد کھڑے ڈاکٹر ہیبرو زبان میں ایک دوسرے کو بتا رہے تھے کہ ان کے شوہر ہلاک ہو چکے ہیں۔روز اس وقت کو یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ وہ میری جانب مڑی اور کہنے لگی ’تمھیں پتا ہے وہ میرے شوہر کو تلاش نہیں کر پا رہے، تمھیں لگتا ہے وہ خیریت سے ہوں گے؟‘ روز کہتی ہیں کہ میں نے جھوٹ بولا اور کہا میں کوشش کروں گی کہ تمھارے شوہر کی خیریت کا پتا چلا سکوں۔یہ بتاتے ہوئے روز خاصی جذباتی ہو گئیں اور کہنے لگیں اس وقت میں نے سوچا ’ابھی میں صرف 23 برس کی ہوں۔۔۔ میں اس بھیانک خواب سے نکل کر کیسے جیوں گی۔‘اسی سال روز نے اسرائیل چھوڑ دیا کیوںکہ ان کے لیے وہاں مزید زندگی گزارنا ممکن نہیں رہا تھا۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
’حملہ آوروں کو جو نظر آیا اس پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی‘
اگلے دن کے اخبارت سے روز کو معلوم ہوا کہ گولیاں چلانے والے تین جاپانی افراد تھے۔ یہ واقعہ 52 سال قبل آج کے دن یعنی 30 مئی 1972کو اسرائیل کے شہر تل ابیب کے لوڈ ائیر پورٹ پر پیش آیا تھا۔ یہ تینوں جاپانی پیرس سے ائیر فرانس کی فلائٹ لے کر تل ابیب ائیر پورٹ پہنچے۔ جیسے ہی ان کا سامان باہر آیا انھوں نے فوراً آٹومیٹک بندوقیں اور ہینڈ گرینیڈ نکالے اور جو نظر آیا اس پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی۔ اس حملے میں 26 افراد ہلاک جبکہ 70 سے زائد زخمی ہوئے۔مرنے والوں میں معروف اسرائیلی سائنسدان پروفیسر آرون قطزر بھی شامل تھے۔ اس وقت ان کی عمر 62 برس تھی اور وہ ویزمان انسٹیٹیوٹ اف سائنس میں کیمسٹری کے پروفیسر ہونے کے ساتھ ساتھ اسرائیل اکیڈمی آف سائنسز کے صدر بھی تھے۔حملہ آوروں میں سے ایک نے جہاز سے باہر آنے والے مسافروں پر گولیاں چلائیں اور پھر اپنے ہاتھ میں موجود گرینیڈ سے خود کو اڑا لیا۔ دوسرے حملہ آور کو سکیورٹی گارڈز نے گولی مار دی جبکہ تیسرا گرفتار کر لیا گیا۔تل ابیب کے ائیر پورٹ پر آنے والی تمام پروازوں کو قبرص کی جانب موڑنا پڑا۔حملے کے فوراً بعد اس وقت کے اسرائیلی وزیر دفاع موشے دیان اور ٹرانسپورٹ کے وزیر شمیون پیریس جائے وقوعہ پہر پہنچے اور انھیں ٹرمینل کے ہر جانب لاشیں اور مرتے ہوئے لوگ ملے۔بعد میں تحقیقات سے معلوم ان تینوں جاپانیوں کا تعلق جاپانی ریڈ آرمی نامی عسکریت پسند گروہ سے تھا۔مگر یہاں سوال یہ ہے کہ ریڈ آرمی عسکریت پسند گروہ کیا تھا، ان تینوں جاپانیوں نے کہاں تربیت پائی اور تل ابیب ائیر پورٹ پر حملہ کیوں کیا؟
جاپانی ریڈ آرمی عسکریت پسند گروہ کیا ہے؟
جاپانی ریڈ آرمی (جے آر اے) ایک عسکریت پسند کمیونسٹ تنظیم تھی جو 1971 سے 2001 تک سرگرم رہی۔ فروری 1971 میں فوساکو شیگینوبو اور سیوشی اوکیوڈیرا نے مل کر اس تنظیم کی بنیاد رکھی تھی۔جے آر اے کے بیان کردہ اہداف میں جاپانی حکومت اور بادشاہت کا تختہ الٹنا تھا۔ اسے جاپان اور امریکہ نے دہشت گرد تنظیم قرار دیا تھا۔یہ اپنے وقت میں انتہائی خطرناک گوریلا گروہوں میں سے ایک تھی جس نے 16 سال تک پوری دنیا میں دہشت پھیلائے رکھی اور کئی خوفناک حملے کیے۔سنہ 1970 اور 1980s میں یہ بہت فعال رہی اور خیال کیا جاتا ہے کہ اس عرصے میں یہ زیادہ تر لبنان سے آپریٹ کر رہی تھی۔ یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ اس وقت اس تنظیم کو پاپولر فرنٹ فار دی لبریشن آف فلسطین اور لیبیا کے معمر قذافی کے علاوہ شام اور شمالی کوریا سے فنڈنگ ملتی تھی۔اسرائیلی ائیر پورٹ پر حملے کے بعد اس تنظیم نے کچھ عرصے کے لیے خود کو عرب-جے آر اے کہلانا پسند کیا۔ اس گروپ کو اینٹی امپیریلسٹ انٹرنیشنل بریگیڈ (اے آئی آئی بی)، ہولی وار بریگیڈ اور اینٹی وار ڈیموکریٹک فرنٹ کے نام سے بھی جانا جاتا تھا۔جے آر اے نے دنیا بھر میں متعدد حملے کیے، جن میں 1972 میں اسرائیل کے لوڈ ہوائی اڈے پر حملہ جس میں 26 افراد ہلاک اور 80 زخمی ہوئے، 1975 میں کوالالمپور میں امریکی سفارت خانے پر قبضے کی کوشش اور 1988 میں نیپلز، اٹلی میں یو ایس او کلب پر بمباری شامل تھیں۔گروپ کے پانچ رہنماؤں کو 2000 میں گرفتار کیا گیا تھا، اور اس گروپ نے 2001 میں اپنی سرگرمیاں ختم کرنے کا اعلان کیا۔8 اکتوبر 1997 کو امریکی محکمہ خارجہ نے امیگریشن ونیشنلٹی ایکٹ کے سیکشن 219 کے تحت جے آر اے کو غیر ملکی دہشت گرد تنظیم (ایف ٹی او) کے طور پر نامزد کیا تھا۔
تین جاپانیوں نے تل ابیب ائیر پورٹ پر حملہ کیوں کیا؟
ہلاک ہونے والے دو حملہ آوروں کو کیوٹو یونیورسٹی کے طالب علموں کے طور پر شناخت کیا گیا۔ یہ تاکیشی اوکوڈیرا جس کا کوڈ نام گیرو تھا اور یاسویوکی یاسودا تھے۔ان تینوں نے بعلبیک، لبنان میں تربیت حاصل کی تھی اور اپنا ’مشن‘ مکمل ہونے کے بعد خودکشی کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔حملے کے بعد پاپولر فرنٹ فار دی لبریشن آف فلسطین کی جانب سے ایک بیان جاری کیا گیا جس میں انھوں نے بتایا کہ حملہ آوروں کو جاپانی ریڈ آرمی سے بھرتی کیا گیا ہے۔۔۔ انھوں نے مزید کہا تھا کہ یہ تینوں ہزاروں میل دور سے فلسطینی عوام کی جدوجہد میں شامل ہونے کے لیے آئے ہیں۔بیان میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ اسرائیلی ائیر پورٹ پر حملہ ان دو عرب ہائی جیکروں کو مارنے کا بدلہ ہے جنھوں نے 8 مئی 1972 کو ایک طیارہ اغوا کرنے کی کوشش کی تھی تاہم وہ اس حملے میں مارے گئے تھے۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
تیسرے اور زندہ بچ جانے والے حملہ آور نے اسلام قبول کر لیا
تیسرے اور زندہ بچ جانے والے حملہ آور کوزو اوکاموٹو پر جون 1972 میں مقدمہ چلایا گیا اور اسے عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ کوزو نے درخواست کی تھی کہ اسے خود کو گولی مارنے کی اجازت دی جائے جسے قبول نہیں کیا گیا۔فلسطینیوں کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے میں رہا ہونے سے قبل کوزو نے اسرائیلی جیل میں 13 سال گزارے۔ اسے لبنان میں پناہ دی گئی جہاں اسے ہیرو سمجھا جاتا ہے اور بعد میں اس نے اسلام قبول کیا۔لوڈ یا لڈا ائیر پورٹ کا نام بدل کر بین گوریون ہوائی اڈہ رکھ دیا گیا ہے اور آج یہ دنیا کے ان چند ائیر پورٹس میں شامل ہے جہاں سخت ترین سیکیورٹی کا نظام قائم ہے۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
جب نتن یاہو آٹھ مئی کے ہائی جیکرز کو مارنے کی کارروائی کا حصہ بنے
یاد رہے آٹھ مئی 1972 کو ’بلیک ستمبر آرگنائزیشن‘ کے دو خواتین سمیت چار اراکین نے ویانا، آسٹریا سے آنے والی فلائٹ کو ہائی جیک کیا اور اسرائیلی جیلوں میں قید 315 فلسطینوں کی رہائی کا مطالبہ کیا۔آئی ڈی ایف کا دعویٰ ہے کہ اس ہائی جیکنگ کا منصوبہ علی حسن سلامہ عرف ’ریڈ پرنس‘ نے بنایا تھا۔اس جہاز کو لوڈ ائیر پورٹ پر ایمرجنسی لینڈنگ کرائی گئی اور اس وقت کے اسرائیلی وزیر دفاع موشے دیان نے انتظار کیے بغیر فوری طور پر بلیک ستمبر گروہ کے ساتھ بات چیت شروع کی مگر ساتھ ہی ساتھ ایک خفیہ ریسکیو آپریشن کی منصوبہ بندی کی، جسے ’آئیسوٹوپ‘کا نام دیا گیا تھا۔اسرائیلی ایجنٹوں کو ہوائی جہاز کو سبوتاژ کرنے کے لیے متحرک کیا گیا تاکہ وہ ائیر پورٹ سے اڑ نہ سکے۔ ہائی جیکروں کو لگا کہ جہاز میں کوئی فنی خرابی ہے۔مذاکرات شروع ہونے کے 21 گھنٹے بعد اسرائیل کی ایلیٹ متکل یونٹ کے کمانڈوز تکنیکی ماہرین کے بھیس میں جہاز کی جانب آئے۔ یونٹ کے کمانڈر یہود باراک تھے اور ان کی کمان میں موجودہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو بھی تھے۔ اس یونٹ نے آتے ہی ایمرجنسی ایگزیٹ سے اچانک حملہ کیا اور دو مرد ہائی جیکروں کو ہلاک کر دیا جبکہ دونوں خواتین کو گرفتار کر لیا گیا۔،تصویر کا ذریعہAFPجاپانی ریڈ آرمی نامی عسکریت پسند گروہ کی شریک بانی فوساکو شیگینوبو کئی دہائیوں تک پولیس سے بھاگتی رہی تھی تاہم سنہ 2000 میں انھیں 76 برس کی عمر میں اوساکا سے گرفتار کر لیا گیا۔اگرچہ اس گروہ نے دنیا بھر میں کئی حملے کیے تاہم شیگینوبو کو قید کی سزا نیدرلینڈز کے شہر دی ہیگ میں فرانسیسی سفارت خانے پر حملے کے جرم میں ہوئی جس میں ریڈ آرمی کے جنگجوؤں نے سفیر سمیت کئی افراد کو 100 گھنٹوں تک یرغمال بنائے رکھا تھا۔2006 میں انھیں 20 برس قید کی سزا سنائی گئی تھی اور سنہ 2022 میں انھیں رہا کر دیا گیا۔فوساکو شیگینوبو کی بیٹی مے شیگینوبو نے سنہ 2011 میں بی بی سی کو بتایا تھا کہ اُن کے والد بھی فلسطین کی آزادی کے جنگجو تھے اور ایسے والدین کی بیٹی ہونے کی وجہ سے اُنھیں ہر وقت اپنی شناخت چھپائے رکھنی پڑتی اور بالخصوص اپنی والدہ کے بغیر کافی عرصہ گزارنا پڑا۔انھوں نے بتایا تھا کہ ’جب میں چھوٹی تھی تو ہم لوگ ہر ماہ اپنا گھر بدل لیتے، خاص طور پر تب جب میں جاپانی ریڈ آرمی کے ارکان کے ساتھ رہ رہی ہوتی۔‘وہ بتاتی ہیں کہ وہ بچپن میں کچھ عرصہ پناہ گزین کیمپوں میں بھی رہیں کیونکہ اس دوران وہ مختلف طبی اداروں کے لیے رضاکار کے طور پر کام کرتی رہیں، اور کبھی کبھی اُنھیں رہنے کے لیے نئے ٹھکانے کی بھی ضرورت ہوتی۔سنہ 2000 میں اُنھیں معلوم ہوا کہ اُن کی والدہ کو جاپان میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔ یہ اُن کے لیے نہایت صدمہ انگیز تھا۔اس گروہ کی آخری معلوم کارروائی سنہ 1988 میں اٹلی میں ایک امریکی فوجی کلب پر کار بم حملہ تھا۔جب فوساکو شیگینوبو کو رہا کیا گیا تو اُنھوں نے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے’معصوم لوگوں کو نقصان‘ پہنچانے پر معافی مانگی۔ اس سے پہلے وہ سنہ 1972 میں تل ابیب کے لود ایئرپورٹ پر حملے میں 26 افراد کی ہلاکت پر بھی افسوس کا اظہار کر چکی ہیں۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.