دوسری عالمی جنگ: جب برطانیہ نے ہٹلر کی فوج سے لڑنے کے لیے گایوں اور بھیڑوں کو زہر دیا
دوسری عالمی جنگ کے دوران اتحادیوں اور جرمنی نے ایک دوسرے کو شکست دینے کے لیے ایک دوسرے کے خلاف کئی طرح کے ہتھکنڈے آزمائے۔ ایسا ہی ایک ہتھکنڈہ ہٹلر کی فوج کے خلاف برطانوی حکومت کی جانب سے ’اینتھریکس‘ کے استعمال کا منصوبہ تھا۔
برطانوی حکومت کی جانب سے حیاتیاتی ہتھیاروں کے استعمال کی یہ حکمت عملی سکاٹ لینڈ کے جزیرے کو اینتھریکس سے آلودہ کرنے کے بعد ختم ہوئی۔
چنانچہ یہ جزیرہ پانچ دہائیوں تک عوام کے لیے بند رہا۔ جزیرے کو اینتھریکس سے آلودہ کرنے کا پورا عمل اب بھی ایک معمہ ہے۔
مقامی لوگ اسے اب بھی ’اینتھریکس آئی لینڈ‘ یعنی اینتھریکس کا جزیرہ یا ’ڈیتھ آئی لینڈ‘ یعنی موت کا جزیرہ کہتے ہیں۔ گرونارڈ نام کا یہ جزیرہ ابھی تک غیر آباد ہے۔
اگرچہ سنہ 1990 میں اس جزیرے کو محفوظ قرار دیا گیا لیکن کبھی جو جزیرہ پرندوں کی پناہ گاہ تھا، آج وہاں سکاٹش ساحل سے صرف ایک میل سے بھی کم رقبے میں زندگی محدود ہے۔ بہر حال اس زمانے کے بعد سے یہاں زندگی اب تک معمول پر نہیں آ سکی ہے۔
یہ کہانی سنہ 1941 میں عین دوسری عالمی جنگ کے دوران شروع ہوئی تھی۔ اسی سال برطانیہ پر جرمنی کے حملے کا خوف بدستور برقرار تھا۔ لوگوں میں یہ خوف سرایت کر گیا تھا کہ نازیوں نے حیاتیاتی بم تیار کر لیا ہے۔
اس کے توڑ کے لیے برطانوی وزیراعظم سر ونسٹن چرچل نے ملک کی اعلیٰ خفیہ سائنسی تنظیم پورٹن ڈاؤن کو کوئی نیا ہتھیار بنانے کا حکم دیا۔ ایک ایسا ہتھیار جسے جرمن فوج کے خلاف استعمال کیا جا سکے۔
چند مہینوں کی تحقیق کے بعد سائنسدانوں کی ایک ٹیم (یہ ٹیم پہلی عالمی جنگ میں زہریلی گیس کے اثرات کا مطالعہ کرنے کے لیے بنائی گئی تھی) نے بیسیلس اینتھراسس کے زہریلے خواص کو دریافت کیا۔ اسے عرف عام میں اینتھریکس بھی کہا گیا۔ اسے جرمن آبادی کے خلاف استعمال کیا جانا تھا۔
اینتھریکس سے نقصان پہنچانے کی کوشش
وزارت دفاع کی خفیہ لیبارٹری میں حیاتیات کے ڈائریکٹر پال فیلڈس کے مطابق اگر برطانیہ نے اینتھریکس سے بھرے چارے کے گولے جرمنی کی سرزمین پر گرائے ہوتے تو وہاں گوشت اور ڈیری مصنوعات کی سپلائی تقریباً ختم ہو جاتی۔
ان کے مطابق اس بڑے پیمانے پر اینتھراکس کی وجہ سے بیماری پھیل جاتی اور لوگوں میں خوف و ہراس پھیل جاتا۔
اس خیال سے حوصلہ پاکر برطانوی فوج کے افسران سنہ 1942 میں فوری طور پر اس منصوبے کو آزمانا چاہتے تھے لیکن اسے کہاں اور کیسے آزمایا جا سکتا تھا یہ ایک بڑا سوال تھا۔ اس کے لیے انھیں ایک ایسی دور افتادہ اور غیر آباد جگہ کی ضرورت تھی، جہاں اسے آزمایا جا سکے۔
حالانکہ یہ جگہ ایسی ہونی چاہیے تھی جہاں سے اصل سرزمین تک پہنچا جا سکتا تھا۔
بہر حال گرونارڈ جزیرے کو اس تجربے کے لیے منتخب کیا گیا۔ اس طرح ایک غیر آباد لیکن خوبصورت جزیرہ نسل کشی کے ہتھیاروں کی تجربہ گاہ بن گیا۔
اینتھریکس کے رابطے میں آنے سے انسان اور جانور دونوں مہلک طور پر بیمار ہو سکتے ہیں
تجربہ
گرونارڈ میں کیا ہوا یہ طویل عرصے تک ایک معمہ ہی رہا۔ اس کے بارے میں طرح طرح کی افواہیں رائج تھی لیکن برطانیہ کی وزارت دفاع کی جانب سے سنہ 1997 میں ایک نادر ویڈیو ڈی کلاسیفائی کی گئی اور پوری دنیا نے اسے دیکھا۔
سکاٹ لینڈ کے تاریخ دان روری سکاتھورن نے بی بی سی منڈو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’دراصل، فوجی افسران یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ اینتھریکس ایک ہتھیار کے طور پر کتنا مؤثر ہے اور اس کا اثر کتنا دور رس ہے۔‘
پورٹن ڈاؤن کے سائنسدانوں نے احتیاط سے اینتھریکس بموں کو پیک کیا اور شمال کی طرف روانہ ہوئے۔ یہاں پہنچنے کے بعد یہ لوگ 80 بھیڑوں کے ساتھ گرونارڈ آئی لینڈ کی طرف روانہ ہوئے۔
یہاں پہنچنے کے بعد ان لوگوں نے ان بھیڑوں کو مختلف ڈبوں میں بند کر دیا اور اس بات کو یقینی بنایا کہ زہریلے بادل ان تک پہنچتے رہیں۔ اس کے ساتھ ہی انھوں نے اینتھریکس کے بادل کی بمباری کی۔
درحقیقت اینتھریکس کی جس قسم کو آزمایا گیا تھا وہ اتنی زہریلی تھی کہ تین دن کے اندر ہی تمام بھیڑیں مر گئیں۔
جان میک لیورٹی نے بی بی سی کے لیے اس موضوع پر ایک دستاویزی فلم ’دی مسٹری آف انتھریکس آئی لینڈ‘ بنائی تھی۔
اس میں ایک عینی شاہد نے وہاں کا منظر کچھ یوں بیان کیا کہ ’میں زمین کے اوپر سے اڑتے بادلوں کو ایک قطار میں بندھی ہوئی بھیڑوں تک پہنچتے ہوئے دیکھ سکتا تھا۔‘
اثر
سائنسدانوں نے یہ اندازہ نہیں لگایا کہ اینتھریکس سے جانوروں پر کتنا اثر ہوا لیکن کئی تحقیقات کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ جزیرے کی زیادہ تر زمین زہریلی ہو چکی تھی۔
یہ زہر سکاٹش ساحل کے کچھ علاقوں میں بھی پھیل گیا۔ اس تجربے کے بعد 30 سے 50 بھیڑیں، سات گائیں، دو گھوڑے اور تین بلیاں بھی ماری گئیں حالانکہ حکومت نے اسے چھپانے کی کوشش کی۔
1944 میں حکومت نے اس جزیرے کو مکمل طور پر بند کر دیا اور وہاں جانے پر پابندی لگا دی۔ اس تجربے کے 24 سال بعد تک کوئی وہاں نہیں گیا۔
اس طرح اینتھریکس کی سب سے زیادہ زہریلی قسم کے استعمال کے نتیجے میں گرونارڈ دنیا کا سب سے زہریلا مقام بن گیا اور اسے طویل عرصے تک سختی کے ساتھ علیحدہ یعنی دنیا کی پہنچ سے دور رکھا گیا۔
سکاتھورن نے کہا کہ ’لوگوں کو معلوم تھا کہ گرونارڈ آئی لینڈ کو زہر آلود کر دیا گیا ہے لیکن میڈیا میں اس کی اطلاع نہیں دی گئی۔ سنہ 1971 میں جب اس کی تحقیقات کی گئی تو حکام نے بتایا کہ اس زہر کو نکالنے میں کافی خرچ آئے گا۔ حالانکہ اس جزیرے کو صاف کرنے کے لیے اتنا دباؤ بھی نہیں تھا۔‘
،تصویر کا ذریعہGetty Images
راز کس طرح فاش ہوا؟
لیکن سنہ 1981 تک سب بدل گیا۔ اس وقت ایک زیر زمین سیل جو خود کو ’ڈارک ہارویسٹ کمانڈوز‘ کہتا تھا وہ وہاں کی زہریلی مٹی کو پورٹن ڈاون میں لے آیا۔
اس سیل نے اخبارات کو لکھے گئے ایک خط میں کہا کہ ان کے پاس 136 کلو مٹی ہے جسے دوسرے اہداف تک بھیجا جانا ہے۔ سائنسدانوں نے اس مٹی کا معائنہ کیا اور تصدیق کی کہ اس میں اینتھریکس موجود ہے اور یہ سکاٹش جزائر سے آئی ہے۔
اس گروپ کا مطالبہ بہت واضح تھا کہ گرونارڈ کو صاف کیا جائے۔
سکاتھورن نے کہا کہ وہ یہ بتانا چاہتے تھے کہ برطانوی حکومت نے سکاٹ لینڈ کی سرزمین کو اینتھریکس سے متاثر کیا ہے۔ یہ لوگ 20ویں صدی کے سب سے بڑے راز سے پردہ اٹھانا چاہتے تھے۔ وہ یہ بتانا چاہتے تھے کہ حکومت سکاٹ لینڈ کی سرزمین پر کیمیائی ہتھیاروں کا تجربہ کر رہی ہے۔
1970 میں وزارت دفاع کے ایک تجزیے سے معلوم ہوا کہ جزیرے کی صفائی پر کروڑوں پاؤنڈ خرچ ہوں گے۔ اس لیے بہتر ہو گا کہ اسے الگ تھلگ ہی رکھا جائے۔ آخر کار 24 اپریل سنہ 1990 کو وزارت دفاع نے کہا کہ وہ جزیرے کو اینتھریکس سے پاک کر دیں گے۔
ابھی تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ یہ مٹی جزیرے سے آئی یا مین لینڈ سے۔ اس کا تجزیہ کرنے والے سائنسدانوں نے اس مٹی کا جزیرے کی مٹی سے موازنہ کیا لیکن یہ کہا کہ جزیرے کی مٹی مین لینڈ کی مٹی بھی ہو سکتی ہے۔
سکاتھورن کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں کیے گئے ڈارک ہارویسٹ آپریشن کے آخری بیان میں کہا گیا تھا کہ یہ مٹی خشک زمین سے لی گئی تھی لیکن ہمیں اس کا درست علم نہیں۔ ہم ان کی باتوں پر یقین کر سکتے ہیں اور نہیں بھی۔ ان کے مطابق اگر مٹی خشک سرزمین سے لی گئی تھی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ مین لینڈ بھی اینتھریکس سے آلودہ ہو چکی ہے۔
بات چاہے کچھ ہو لیکن یہ غیر آباد جزیرہ برسوں تک اس تباہی کی یاد دہانی کراتا رہے گا کہ کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیار کیسی تباہی لا سکتے ہیں۔
Comments are closed.