جگتار سنگھ جوہل: جب برطانوی شہری سے انڈیا میں ’تشدد‘ کے ذریعے اعتراف جرم کرایا گیا
جگتار سنگھ جوہل کو انڈیا کے انسداد دہشت گردی کےقوانین کے تحت نظربند کیا گیا ہے اور اُن پر الزام ہے کہ انھوں نے متعدد دائیں بازو کے ہندو رہنماؤں کو قتل کرنے کی سازش کی تھی
تین سال تک بغیر جرم کیے انڈین جیل میں قید سکاٹ لینڈ کے ایک شخص جگتار سنگھ جوہل نے بی بی سی کو بتایا کہ اُن پر ’تشدد کر کے اعتراف جرم کے ایک خالی حلف نامے پر دستخط کرائے گئے تھے۔‘
سکاٹ لینڈ کے شہر ڈمبارٹن سے تعلق رکھنے والے جگتار سنگھ جوہل کو انڈیا کے انسداد دہشت گردی کے قوانین کے تحت نظربند کیا گیا اور اُن پر الزام ہے کہ انھوں نے متعدد دائیں بازو کے ہندو رہنماؤں کو قتل کرنے کی سازش کی تھی۔
عدالتی دستاویزات کے مطابق الزام لگایا گیا ہے کہ انھوں نے جرائم کی مالی اعانت کی ہے اور یہ دعویٰ کیا گیا کہ وہ ایک ‘دہشت گرد گروہ’ کے رکن تھے۔
جگتار سنگھ جوہل نے بی بی سی کو اپنے وکیل کے توسط سے بتایا کہ انھیں ‘جھوٹی بنیادوں پر جرم میں ملوث’ کیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
ورچوئل جیل میٹنگ کے دوران اپنے وکیل کے ذریعے بی بی سی کے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے 33 برس کے جگتار سنگھ کا کہنا تھا کہ اُن پر جسمانی تشدد کر کے اعتراف جرم کے ایک خالی حلف نامے پر دستخط کروائے گئے اور اُنھیں ایک ویڈیو ریکارڈ کرنے پر مجبور کیا گیا جو انڈین ٹی وی پر نشر کی گئی۔
انھوں نے اپنے وکیل کے توسط سے کہا کہ ‘انھوں نے مجھ سے کاغذ کے خالی صفحوں پر دستخط کروائے اور سخت تشدد کیے جانے کے خوف کی حالت میں مجھے ایک کیمرے کے سامنے کچھ سطور کہنے کو کہا۔’
جگتار سنگھ جوہل کی قانونی ٹیم نے نومبر 2017 میں اُن کی گرفتاری کے فوراً بعد ان کے ہاتھ سے لکھے ہوئے ایک خط کی نقل بھی جاری کی تھی جس میں انھوں نے اِن الزامات کی تفصیل بتائی کہ اُن پر تشدد کس طرح کیا گیا۔
اس خط میں کہا گیا ہے کہ ‘میرے کانوں، پستان کے سرے اور میرے جنسی اعضا پر مگرمچھ کے منہ والے کلپس لگا کر متعدد بار جھٹکے لگائے گئے تھے۔ اِس خط میں یہ بھی درج تھا کہ ‘ہر دن ایک سے زیادہ بار جھٹکے دیے جاتے تھے۔’
دو افراد میری ٹانگیں پھیلا دیتے اور دوسرا شخص مجھے پیچھے سے تھپڑ مارتا اور ضرب لگاتا اور کرسی پر بیٹھا ہوا افسرجھٹکے دیتا۔’
‘کچھ مواقع پر میں چلنے کے قابل نہیں رہا اور مجھے تفتیشی کمرے سے اُٹھا کر باہر لے جانا پڑتا۔`
بی بی سی تشدد کے ان الزامات کی آزادانہ طور پر تصدیق کرنے میں ناکام رہی ہے۔
انڈین حکام نے ان کی سختی سے تردید کی ہے اور کہا ہے کہ ‘مبینہ طور پر کی جانے والی بدسلوکی یا تشدد کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔’
جگتار سنگھ جوہل کی شادی 2017 میں ہوئی تھی
جگتار سنگھ جوہل اکتوبر 2017 میں اپنی شادی کے لیے انڈیا گئے تھے۔
اس موقع کی ویڈیوز میں نئے دولہا جوش و خروش سے بھنگڑا میوزک پر رقص کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ ایک اور وڈیو میں وہ دوستوں اور اہل خانہ کے سامنے اپنی اہلیہ کا ہاتھ تھامے ہوئے اُن کے ساتھ پہلا رقص کرتے نظر آتے ہیں۔
اُن کے بھائی گُرپریت سنگھ جوہل نے اس موقع کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ ‘یہ ہمارے لیے ایک خوشگوار دن تھا اور جو منصوبہ بندی ہم نے کی سب کچھ اُس کے مطابق ہوا۔’
لیکن پندرہ روز کے بعد، جب شمالی انڈیا کی ریاست پنجاب میں وہ اپنی نئی دلہن کے ساتھ خریداری کے لیے گئے ہوئے تھے تو جگتار سنگھ جوہل کو پولیس نے حراست میں لے لیا اور تب سے وہ نظربند ہیں۔
‘سکھوں کے خلاف زیادتیاں’
سکاٹ لینڈ میں رہنے والے اُن کے بھائی گُرپریت کا کہنا ہے کہ جگتار سنگھ جوہل ایک پرامن کارکن تھے اور انھیں یقین ہے کہ انھیں اس لیے گرفتار کیا گیا کیونکہ انھوں نے انڈیا میں سکھوں کے خلاف انسانی حقوق کی تاریخی خلاف ورزیوں کے بارے میں لکھا تھا۔
گُرپریت کا کہنا ہے کہ ‘مجھے یقین ہے کہ میرے بھائی کو نشانہ بنایا جارہا ہے کیونکہ وہ بے لاگ بات کہنے والا تھا۔’ اُن کا مزید یہ بھی کہنا تھا کہ’مجھے یقین ہے کہ وہ بے قصور ہے اور مقدمے کی سماعت شروع ہونے پر وہ بے قصور ثابت ہوگا۔
نومبر 2017 میں جگتار سنگھ (دائیں طرف) کو عدالت میں پیشی کے لیے لایا گیا
انڈین حکام کی طرف سے جگتار سنگھ جوہل اور مردوں کے ایک گروہ کے خلاف فرد جرم اس لیے عائد کی گئی ہے کیونکہ حکام کے خیال میں وہ دائیں بازو کے ہندو رہنماؤں کے ‘قتل کیے جانے کے سلسلے’ میں ملوث تھے۔
یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ جگتار سنگھ جوہل خالصتان لبریشن فرنٹ (کے ایل ایف) کے ایک رکن تھے، جسے دستاویزات میں بین الاقوامی ‘دہشت گرد گروہ’ کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔
ان پر الزام ہے کہ انھوں نے کے ایل ایف کے سابق سربراہ کو تین ہزار پاؤنڈ کی ادائیگی کی تا کہ جرائم کی مالی اعانت کی جاسکے۔ دستاویزات میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اُنھوں نے ‘متحرک طور پر سازش میں حصہ لیا وہ اور اُنہیں اس کا مکمل علم تھا۔’
ایک انڈین سرکاری اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘اُن کے خلاف بہت سنگین الزامات ہیں جن میں قتل اور دہشت گردی کی معاونت شامل ہے۔’
انھوں نے مزید کہا کہ ‘ان کے خلاف الزامات کی سنگینی کے بارے میں برطانوی حکام کو بتایا گیا ہے۔’
وڈیو جس میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ جگتار سنگھ زیر حراست ہیں انڈین ٹی وی چینلز پر دکھائی گئی
جگتار سنگھ جوہل کے وکیل، جسپال سنگھ منجپھر نے اُن کی پہلی بار گرفتاری کے بعد سے ان کی نمائندگی کی ہے۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ اس معاملے کو انڈین قانونی نظام میں جتنا وقت لگ رہے، اس کی وجہ سے انھیں تشویش ہے۔
‘وہ تین سال سے زیر حراست ہیں’۔ جسپال سنگھ منجپھر نے کہا کہ ‘عام طور پر اگر استغاثہ چاہے تو وہ اس معاملے کو اتنے وقت میں مکمل کرسکتے ہیں۔’
جسپال سنگھ منجپھر نے کہا کہ حکام نے ان کے موکل کو ان جرائم سے جوڑنے کے لیے کوئی ثبوت فراہم نہیں کیے ہیں اور خدشہ ہے کہ انھیں پھنسایا جا رہا ہے۔ حکام اس الزام سے انکار کرتے ہیں۔
کچھ ہفتے قبل جگتار سنگھ جوہل پر ایک اور جرم میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ جیل میں رہتے ہوئے انھیں اکتوبر 2020 میں ایک شخص کے قتل کا منصوبہ بنانے میں مدد کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔
جسپال سنگھ منجپھر نے کہا کہ ‘وہ ایک سخت سکیورٹی والی جیل میں ہیں، اُن کی 24 گھنٹے سی سی ٹی وی سے نگرانی ہو رہی ہے۔ وہ کسی سے کیسے رابطہ کر سکتے ہیں۔’
جگتار سنگھ جوہل آحری بار اس ماہ دلی کی ایک عدالت میں پیشی کے وقت دیکھا گیا
جگتار سنگھ جوہل نئی دہلی کی سخت سکیورٹی والی تہاڑ جیل میں قید ہیں۔
اُن کا الزام ہے کہ اُنھیں اکثر قید تنہائی میں رہنے پر مجبور کیا جاتا ہے اور انھیں دوسرے قیدیوں کو دی جانے والی سہولیات دینے سے انکار کیا جاتا ہے جیسے کہ گرم پانی۔
انھوں نے کہا ‘مجھے ان حالات میں رکھ کر وہ اس بات کو یقینی بنا رہے ہیں کہ میری ذہنی حالت خراب رہے۔’ انھوں نے کہا ‘یہاں رہنا بہت مشکل ہے۔’
اس جیل میں موجود زیادہ تر قیدیوں کی حیثیت جگتار سنگھ جوہل جیسی ہے، جن کا جرم ابھی ثابت ہونا ہے اور اُن کے مقدمے زیر سماعت ہیں مگر وہ جیل میں وقت گزار رہے ہیں۔
سنہ 2019 کے اختتام پر تہاڑ جیل میں قید 82 فیصد قیدیوں کے مقدمے کی سماعت مکمل نہیں کی گئی تھی۔
جگتار سنگھ جوہل کے وکیل کے لیے تشویشناک بات یہ ہے کہ انڈیا میں زیر سماعت قیدیوں کو عدالت آنے سے پہلے کئی سال لگ سکتے ہیں، خاص طور پر دہشت گردی کے معاملات میں جہاں ضمانت حاصل کرنا مشکل ہے۔
جسپال سنگھ منجپھر نے کہا کہ ‘مقدمے کی سماعت مکمل ہونے تک وہ جیل میں ہی رہیں گے، ایسے معاملات میں اُنھیں پانچ سے دس سال کے درمیان لگ سکتے ہیں۔’
برطانوی وزیر خارجہ نے اپنے انڈین ہم منصب کے سامنے یہ معاملہ اُٹھایا
انسانی حقوق کی فلاحی تنظیم ریپریو نے برطانیہ کے وزیر خارجہ ڈومینک راب کو خط لکھ کر کہا ہے کہ وہ جگتار سنگھ جوہل کی فوری رہائی کا مطالبہ کریں۔
ریپریو کو اس بات کی پریشانی بھی ہے کہ جگتار سنگھ جوہل کو جن مقدمات کا سامنا ہے اس کی سخت ترین سزا سزائے موت ہے۔ لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ انڈیا میں سزائے موت بہت کم ہی دی جاتی ہے۔
برطانیہ کے فارن کامن ویلتھ اینڈ ڈیویلپمنٹ آفس نے بی بی سی کو بتایا کہ ڈومنیک راب نے دسمبر میں انڈیا کے دورے کے دوران اپنے انڈین ہم منصب کے ساتھ یہ معاملہ اٹھایا تھا۔
اُن کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا کہ ‘ہم نے انڈین حکومت کے ساتھ اس کیس کے بارے میں بار بار اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے جن میں تشدد اور بدسلوکی کے الزامات اور ان کے منصفانہ مقدمے کا حق شامل ہے۔’
‘ہمارا عملہ انڈیا میں نظربند ہونے کے بعد جگتار سنگھ جوہل کی حمایت کرتا رہا ہے، اور اُن کی صحت اور تندرستی کے بارے میں اُن کے خاندان اور جیل کے حکام سے باقاعدہ رابطے میں رہتا ہے۔’
کئی سو افراد نے برطانوی وزارت خارجہ کے دفتر کے باہر مظاہرہ کیا
لیکن جگتار سنگھ جوہل کے بھائی گُرپریت نے کہا کہ اُن کا خاندان ابھی تک وزیر خارجہ سے ملاقات کا انتظار کر رہا ہے۔
انھوں نے کہا ‘ہمارا مطالبہ ہے کہ یا تو جگتار پر فرد جرم عائد کر کے اس کیس کا منصفانہ مقدمہ چلایا جائے یا پھر انھیں ملک واپس بھیجا جائے تاکہ وہ اپنی زندگی برطانیہ میں اپنی اہلیہ کے ساتھ گزار سکیں۔’
پچھلے سال اگست میں گُرپریت سنگھ جوہل کے ساتھ درجنوں افراد نے ڈاؤننگ اسٹریٹ کے باہر احتجاج کیا۔
جگتار سنگھ جوہل کے معاملے پر ویسٹ منسٹر سے لے کر واشنگٹن اور جنیوا سے لے کر ٹورنٹو تک پوری دنیا میں احتجاج کیا گیا ہے۔
بی بی سی کو اپنے بیان میں جگتار سنگھ جوہل نے عہدیداروں کے لیے گھر واپس یہ پیغام بھیجا ہے ‘میں برطانیہ کی حکومت سے التجا کرتا ہوں کہ وہ میری مدد کریں ، میں ایک برطانوی شہری ہوں اور حکومت کو یہ سمجھنا چاہیے۔’
Comments are closed.