نہر سوئز پر قبضے کی جنگ: جب امریکہ نے برطانیہ، فرانس اور اسرائیل کی نہر سوئز پر قبضے کی کوشش ناکام بنائی
- ثقلین امام
- بی بی سی اردو سروس
‘آپریشن مسکیٹر’ کے نام سے 29 اکتوبر 1956 کی صبح اسرائیلی فوج نے صحرائے سینا پر حملہ کر دیا۔ اسرائیلی حملے کا مقصد مصر کے درمیان بحیرہ روم اور بحیرہ احمر کو ملانے والی آبی گزرگاہ نہر سوئز پر قبضہ کرنا تھا جسے مصر نے قومی تحویل میں لے لیا تھا۔
آپریشن مسکیٹر کی کمان برطانوی جنرل سر چارلز کائیٹلی کے پاس تھی، حملہ برطانیہ اور فرانس نے بیک وقت اسرائیل کے ساتھ مل کر کرنا تھا، لیکن اسرائیل نے اس کا آغاز 29 اکتوبر کو کر دیا۔ برطانیہ کے اُس وقت کے وزیر اعظم سر اینٹونی ایڈن نے بعد میں دعویٰ کیا تھا کہ اُنھیں اسرائیل کے پہلے حملے کا علم نہیں تھا۔
اسرائیلی وزیرِ اعظم بین گوریون نے اپنے چیف آف سٹاف جنرل موشے دیان کو مصر پر حملے کی منصوبہ بندی کرنے کا حکم دیا تھا۔
29 اکتوبر 1956 کو اسرائیلی حملے کی قیادت ہوائی جہاز سے کی گئی تاکہ صحرائے سینا میں متلہ پاس پر کنٹرول حاصل کیا جا سکے۔ اس کے بعد مصری اور اسرائیلی افواج کے درمیان شدید لڑائی ہوئی۔
اگلے دن، برطانیہ اور فرانس نے دونوں فریقوں کو فوری طور پر لڑائی روکنے کا الٹی میٹم جاری کیا۔ اسرائیلیوں نے مصر کے جوابی حملے کی توقع کرتے ہوئے اپنی کارروائیاں جاری رکھیں۔ تاہم اسرائیلی توقع کے برعکس، صدر ناصر کی فوج پیچھے ہٹ رہی تھی۔
چھاتہ برداروں کا حملہ
جب مصر کے صدر جمال عبدالناصر نے برطانیہ اور فرانس کا مطالبہ ماننے سے انکار کر دیا تو اتحادی افواج کے فضائی حملوں سے مصری فضائیہ کو غیر موثر کرنے کا آپریشن شروع ہوا۔
برطانیہ کی تھرڈ بٹالین پیرا شوٹ رجمنٹ نے ایل جمیل کے ہوائی اڈے پر قبضہ کر لیا، جبکہ فرانسیسی چھاتہ برداروں نے پورٹ فواد کو قبضے میں لے لیا۔
پانچ نومبر کو، صدر ناصر کے نہر کو قومیانے کے تقریباً تین ماہ اور 10 دن بعد، نہر سوئز پر برطانیہ اور فرانس نے حملہ کیا تھا۔ اس سے پہلے فضائی بمباری کی گئی، جس نے مصری فضائیہ کو زمین بوس کر دیا۔
سمندر سے زمین پر حملہ
45 منٹ کے اندر، ایئر فیلڈ پر مصر کی تمام مزاحمت پر قابو پا لیا گیا اور برطانوی بحریہ باآسانی ہیلی کاپٹر پر سامان لے جا سکتی تھی۔ الجمیل کے ہوائی اڈے کے محفوظ ہونے کے بعد، برطانوی چھاتہ بردار مشرق کی طرف پورٹ سعید کی طرف بڑھے، راستے میں ان کے خلاف شدید مزاحمت ہوئی تھی۔
فضائی مدد کے ساتھ، انھوں نے مصری افواج کو زیر کر لیا پھر رات بھر کے لیے وہیں پڑاؤ ڈالا کیونکہ اگلے دن سمندر سے چڑھائی کرنے سے پہلے اتحادی فضائیہ نے پورٹ سعید کے ساحلی علاقے پر شدید بمباری کرنا تھی۔ چھ نومبر کو سمندر سے ایمفیبیئس کے ذریعے مصری ساحل پر چڑھائی کی گئی اور ہیلی کاپٹروں کے ذریعے بمباری کی گئی۔
برطانیہ کہ رائل میرین کمانڈوز نے برطانوی ٹینکوں کی مدد سے برطانوی اور فرانسیسی فضائیہ کے ساتھ مل کر جلد ہی مصری افواج کو شکست دے دی۔
چھ نومبر کی نصف شب کو اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل ڈیگ ہمارسک گولڈ کے اصرار پر جنگ بندی کی درخواست کی گئی۔ اینگلو – فرانسیسی افواج پورٹ سعید کے بالکل جنوب میں ایل کیپ تک پہنچ گئی تھیں، لیکن جب انھیں روکا گیا تو اس وقت تک پوری نہر ان کے قبضے میں نہیں آسکی تھی۔
فوجی مبصرین کے مطابق، عسکری طور پر یہ آپریشن بڑی کامیابی کی طرف گامزن تھا۔ لیکن عالمی سیاست کی بساط پر برطانیہ غلط چال چکا تھا، اس لیے یہ حملہ جو کہ فوجی لحاظ سے کامیاب تھا لیکن سیاسی طور پر برطانیہ کی ذلت اور ہزیمت کا باعث بننے والا تھا کیونکہ امریکہ نے برطانیہ کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا تھا۔
پس منظر
جولائی 1956 میں، مصر کے صدر کرنل جمال عبدالناصر نے ‘فرانکو-برٹش سوئز کینال کمپنی’ کو قومیانے کا اعلان کیا تھا۔ مصریوں نے نہر سوئزکی آمدن کو اسوان ڈیم کے منصوبے کی تعمیر میں مالی اعانت کے ایک ذریعہ کے طور پر دیکھا تھا۔ اس سے پہلے امریکہ نے اس ڈیم پر سرمایہ کاری سے انکار کردیا تھا۔
مصریوں کا خیال تھا کہ صرف پانچ سالوں میں نہر سوئزسے گزرنے والے بحری جہازوں سے جمع ہونے والے ٹیکسوں کی آمدن ڈیم کی تعمیر کے لیے کافی ہوگی۔ یہ ڈیم مصر کی صنعتی ترقی کی منصوبہ بندی کے لیے کافی اہم تھا۔
مصر اس زمانے میں مرکزی منصوبہ بندی پر انحصار کر رہا تھا جسے مغرب میں سوشلسٹ رجحان سمجھا جاتا تھا۔ مصر برطانیہ کے ساتھ شاہ فاروق کے دور اور اس سے قبل کولونیل دور کے کئی معاہدوں سے اپنے آپ کو آزاد کرانے کی کوشش کر رہا تھا۔
اکتوبر 1954 میں، برطانیہ اور مصر نے برطانیہ کے کینال زون کی چھاؤنی کو خالی کرنے کے بارے میں ایک معاہدہ کیا تھا۔ معاہدے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ سوئزکینال کمپنی سنہ 1968 تک مصری حکومت کے کنٹرول میں منتقل نہیں ہوگی۔ یہ نہر برطانیہ اور فرانس دونوں کی سرمایہ کاری سے انیسویں صدی کے آخر میں تعمیر ہوئی تھی۔
عالمِ عرب کا لیڈر
صدر ناصر کی پالیسیوں اور دیگر اقدامات کو برطانوی اور فرانسیسی دونوں خطے میں اپنے مفادات کے لیے خطرہ سمجھتے تھے۔ دونوں ممالک نے اس بات پر اتفاق کیا کہ اگر مذاکرات کی میز پر کوئی پیش رفت نہ ہو سکی تو وہ نہر پر قبضہ کرنے کے لیے فوج بھیجیں گے اور اگر ضرورت پڑی تو ناصر کو معزول کر دیں گے۔
فرانس بھی صدر ناصر سے چھٹکارا چاہتا تھا کیونکہ مصری صدر ان باغیوں کی حمایت کر رہے تھے جو الجزائر میں فرانسیسی حکمرانی کے خلاف برسرِ پیکار تھے۔ اس لحاظ سے برطانیہ اور فرانس دونوں مصر کے صدر ناصر کو اپنی ‘سلامتی’ کے لیے خطرہ سمجھ رہے تھے۔
برطانیہ کے اُس وقت کے وزیر اعظم، سر انٹونی ایڈن نے جنگ سے پہلے کہا تھا ‘ہمارا جھگڑا مصر سے نہیں ہے، اور نہ عالم عرب سے ہے۔ یہ کرنل ناصر سے ہے۔ اس نے ثابت کیا ہے کہ وہ ایسا شخص نہیں ہے جس پر بھروسہ کیا جا سکے۔ اب اس نے سوئزکینال کمپنی سے اپنے ملک کے تمام وعدوں کو توڑ دیا ہے اور وہ اپنے بیانات سے بھی مُکر گیا ہے۔’
‘ہم اس بات سے اتفاق نہیں کر سکتے کہ لوٹ مار کی ایسی کارروائی کو کامیاب ہونے دیا جائے جس سے بہت سی قوموں کی روزی روٹی خطرے میں پڑ جائے۔ اور ہمیں اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ دنیا کی عظیم تجارتی قوموں کی زندگی مستقبل میں کسی بھی لمحے نہر میں آزادانہ آمد و رفت میں کوئی رکاوٹ نہ ڈال سکے۔’
جبکہ اسی پس منظر میں عرب ممالک میں صدر ناصر کو عالم عرب کا ایک ہیرو تسلیم کیا جا رہا تھا۔ بائیں بازو کی دیگر ملکوں میں چلنے والی تحریکوں اور محکومیت کے خلاف برسِ پیکار خریت پسندوں کے بھی صدر ناصر ہیرو بن چکے تھے۔
سوویت یونین
یہ وہ زمانہ تھا جب کئی محکوم قوموں میں آزادی کی تحریکیں چل رہی تھیں۔ کیونکہ اکثر محکوم قومیں مغربی طاقتوں سے آزادی حاصل کرنا چاہتی تھیں، اس لیے وہ سوویت یونین کو ایک مسیحا کے طور پر دیکھتی تھیں۔ سوویت یونین بھی اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے ان ممالک کی آزادی کی حمایت کرتا تھا۔
جس وقت مصر اور برطانوی اتحاد کے درمیان نہر سوئز پر قبضے کا بحران چل رہا تھا، اس وقت سوویت یونین مشرقِ وُسطیٰ سمیت ایشیا اور افریقہ کی محکوم قوموں کی عملی اور سیاسی حمایت کر رہا تھا۔ یہ دور سرد جنگ کا تھا جب امریکہ اور سوویت یونین عالمی سیاست میں اثر و رسوخ کے لیے ایک دوسرے کے مدِّمقابل کھڑے تھے۔
امریکہ اور برطانوی خلیج
جبکہ اُس دور میں امریکہ کی کوشش تھی کہ وہ، نہ کہ سوویت یونین، محکوم ممالک کی آزادیوں کا چیمپیئن بنے۔ اس پس منظر میں سیاسی طور پر سوئز میں مداخلت برطانیہ کے لیے ایک تباہی ثابت ہوئی۔ اُس وقت کے امریکی صدر ڈوائٹ آئزن آور برطانوی حملے سے ناراض ہو گئے۔
برطانیہ میں بھی بڑے پیمانے پر عوامی سطح پر غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ لندن میں کئی مظاہرے بھی ہوئے۔ برطانیہ ابھی چند برس پہلے ہی ایک عالمی جنگ سے باہر نکلا تھا جس کی وجہ اس کی معیشت سنگین اقتصادی بحران کا شکار چلی آ رہی تھی۔ پاؤنڈ کی قیمت گر رہی تھی اور بیروزگاری بڑھ رہی تھی۔
ان حالات میں اگرچہ مکمل طور پر نہ سہی، لیکن امریکہ بہتر طور پر جانتا تھا کہ اسے اپنی لڑائیوں کو کیسے چننا ہے۔ جب کہ سوویت یونین نے مصر کی حمایت میں اس جنگ میں ملوث ہونے کی دھمکی دی تھی، تاکہ بڑھتی ہوئی جارحیت کو روکا جا سکے۔
ایسے حالات میں امریکی صدر آئزن آور نے برطانیہ اور فرانس کو فوری طور پر انخلا کا حکم دیا۔
یہ بھی پڑھیے
برطانیہ کی تذلیل
یہ احساس کہ ان کے پاس امریکی صدر کے اس حکم پر عمل کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا، برطانیہ اور فرانس کے لیے ایک ذلت آمیز صورت حال پیدا ہو گئی۔ اور یہ ایک واضح، تکلیف دہ علامت تھی کہ عالمی طاقتوں کے طور پر ان کے دن واقعی ختم ہو چکے تھے۔
امریکہ نے برطانیہ اور فرانس کو جنگ بندی اور انخلا پر مجبور کیا، جنگ بندی چھ اور سات نومبر 1956 کی درمیان شب عمل میں آئی۔ اقوام متحدہ نے نہر سوئز پر مصر کی خودمختاری کو تسلیم کیا، جنگ بندی کی نگرانی اور امن بحال کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی ایک امن فوج بھیجی گئی۔
نہر سوئز کو صاف کر کے دوبارہ کھول دیا گیا، لیکن خاص طور پر برطانیہ نے محسوس کیا کہ امریکہ نے اس کے ساتھ جو کیا اُس کے نتیجے میں اُس کی عالمی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی۔ اور نہر سوئز پر حملے کی مہم جوئی سے ‘سوئز کے مشرق میں’ برطانیہ کا اثر و رسوخ کم ہوا۔
برطانیہ، فرانس اور اسرائیل کے درمیان ملی بھگت کے الزامات سنہ 1956 میں عائد کیے گئے تھے، لیکن برطانوی وزیر اعظم ایڈن نے پارلیمنٹ میں ان کی تردید کی تاہم اُس نے واضح اور دوٹوک جواب دینے سے بچنے کی کوشش کی۔
آخر کار ان سے پوچھا گیا کہ کیا اسرائیلی حملے کے بارے میں انھیں پیشگی علم تھا تو ہاؤس آف کامنز سے اپنے آخری خطاب میں کہا کہ ‘میں یہ بات پیشگی علم کے سوال پر کہنا چاہتا ہوں کہ اس کی پیشگی اطلاع نہیں تھی کہ (خود سے) اسرائیل مصر پر حملہ کرے گا۔’
برطانیہ کا سورج غروب ہو گیا!
برطانیہ اپنے آپ کو سنہ پچاس کی دہائی تک بھی ایک ایسی عالمی طاقت سمجھتا تھا جس کی سلطنت پر سورج غروب نہیں ہوتا ہے۔ قانونی لحاظ سے شاید یہ بات درست ہو کیونکہ اس کا آئینی اقتدارِ اعلیٰ آسٹریلیا سے شروع ہو کر ایشیا اور افریقہ کے کئی چھوٹے ممالک سے ہوتا ہوا کینیڈا تک پھیلا ہوا تھا۔
تاہم جنوبی ایشیا میں انیا اور پاکستان اس کے ہاتھ سے نکل چکے تھے جہاں سے اُس کے پاس ڑنے کے لیے فوجیوں کی بہت بڑی تعداد مہیا ہوتی تھی۔
برطانیہ نے ایران میں سنہ 1952 میں اینگلو ایرانین آئیل کمپنی کے قومیانے کے واقعے پر سخت ردعمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے امریکہ کو مجبور کیا تھا کہ وہ ایران کو سبق سکھائے۔ اور اس طرح امریکہ اور برطانیہ نے مل کر ایران کے اس وقت کے وزیراعظم ڈاکٹر محمد مصدق کی حکومت کا تختہ الٹوا دیا تھا۔
تاہم جب مصر نے نہر سوئزکو قومی تحویل میں لیا تھا تو اُس وقت بھی برطانیہ کے مقتدر حلقوں میں جمال عبدالناصر کو معزول کر کے کوئی کٹھ پتلی صدر بنانے کی یا شاہ فاروق کی بادشاہت کو بحال کر نے کی بازگشت سنی گئی تھی۔ لیکن ایسا اب ہونا ممکن نہیں تھا۔
اس لیے فرانس اور اسرائیل جو اپنے اپنے اسباب کی بنا پر صدر ناصر کے مخالف تھے، نے نہر سوئز پر قبضے کے لیے فوجی کارروائی کا منصوبہ بنایا۔ فرانس شمالی افریقہ میں اپنے زیر قبضہ ممالک، الجزائر میں حریت کی تحریک میں مصری مدد پر ناراض تھا، جبکہ اسرائیل عرب اور فلسطینی تحریکوں کی امداد کی وجہ سے صدر ناصر کا مخالف تھا۔
بحران کے بعد کے اثرات
جنگ بندی کی نگرانی اور امن بحال کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی ایک امن فوج بھیجی گئی۔ نہر سوئزکو صاف کر کے دوبارہ کھول دیا گیا، لیکن خاص طور پر برطانیہ نے محسوس کیا کہ امریکہ اس کے موقف کے ساتھ نہیں تھا۔ اور اس مہم جوئی سے ‘سوئزکے مشرق میں’ اس کا اثر و رسوخ کم ہوا۔
جنوری 1957 میں سر ایڈن کی صحت بگڑ گئی اور ان کی سیاسی ساکھ کو شدید نقصان پہنچا، برطانوی وزیراعظم سر انتھونی ایڈن نے استعفیٰ دے دیا۔ گائے مولیٹ، فرانسیسی وزیر اعظم، شدید تنقید کے باوجود طویل عرصے تک زندہ رہے، لیکن ان کی حکومت جون 1957 میں الجزائر کی جنگ کی ادائیگی کے لیے عائد کیے گئے ٹیکس کی وجہ سے گر گئی۔
اینگلو-امریکی تعلقات سوئز بحران کی وجہ سے کشیدہ ہو گئے تھے، لیکن شمالی اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن (نیٹو) میں سرد جنگ کے اتحادیوں کے طور پر انہوں نے تعاون جاری رکھا، اور سنہ 1962 تک برطانیہ نے امریکی طپولارس میزائل سسٹم کو اپنا لیا تھا۔
بہر حال دوسری عالمی جنگ کے بعد کی دنیا میں طاقت کا حقیقی توازن واضح طور پر ظاہر ہوا اور برطانیہ کے وقار کو شدید دھچکا لگا۔ برطانیہ کو اور ساری دنیا کو یہ احساس ہو گیا کہ اب برطانیہ دنیا کا پولیس مین نہیں ہے، بلکہ یہ حیثیت امریکہ کے پاس چلی گئی ہے۔
انڈیا اور پاکستان کا کردار
جب نہر سوئزکا بحران جاری تھا تو پاکستان کے اس وقت کے وزیرِ اعظم حسین شہید سہروردی نے مصر کی کھل کر حمایت کرنے کے بجائے ‘صفر جمع صفر جمع صفر برابر صفر’ کے معروف الفاظ ادا کیے تھے جس کے بعد سے پاکستان کے عالم عرب کے ساتھ طویل عرصے تک تعلقات خراب رہے تھے۔
پاکستان نہر سوئزکے بحران کے وقت تک امریکہ کے دو فوجی معاہدوں، سیٹو اور سینٹو کا رکن بن کر امریکی حلقے میں شامل ہو چکا تھا۔ جبکہ انڈیا غیر جانبدار ممالک کی تحریک کا حصہ بن گیا اور سرد جنگ کے دوران عالمی قوتوں، یعنی سوویت یونین اور امریکہ، دونوں سے استفادہ حاصل کرتا رہا۔
جب پاکستان کے وزیرِ اعظم عالم عرب کی سیاسی ساکھ کو تسلیم نہیں کر رہے تھے، تو اُس وقت انڈیا، چین، مشرقی یورپ اور آزادی کی تمام تحریکوں کے رہنماؤں نے مصر کی حمایت کا اعلان کیا تھا اور برطانوی-فرانسیسی-اسرائیلی حملے کی مذمت کی تھی۔
Comments are closed.