جب امریکہ میں بچوں کو ڈاک کے ذریعے ’پارسل‘ کر دیا جاتا تھا
- مصنف, وقار مصطفیٰ
- عہدہ, صحافی، محقق
ایک زمانہ تھا جب امریکہ میں ڈاک کے ذریعے صرف یورپ ہی پارسل بھجوایا جا سکتا تھا لیکن جب 1913 میں مقامی طور پر پارسل کی ترسیل کی سہولت مسیر ہوئی تو دیہی علاقوں نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔
دوردراز شہروں تک کے مہنگے سفر کے بجائے ان کو ایک ایسی سہولت ملی جس کا استعمال کرتے ہوئے لوگ مکھن، انڈے، مرغیاں، چوزے حتیٰ کہ اپنے چھوٹے بچے تک ایک مقام یا شہر سے دوسرے مقام تک بھجوانے لگے۔
جی ہاں۔ آپ نے ٹھیک پڑھا۔ انسانی بچے جن کے والدین امریکی محکمہ ڈاک پر اعتماد کی وجہ سے ہی نہیں بلکہ ایک سستے حل کی تلاش میں بھی اس طریقے سے پارسل کر دیا کرتے تھے۔
دراصل چند والدین کے لیے ریل یا کوچ کا سفر مہنگا تھا تو انھوں نے سوچا کہ کیوں نہ اس نئی سروس کا استعمال کیا جائے اور بچے بھی سستے داموں پارسل ہی کر دیے جائیں۔
جو سِلویا کی تحقیق کے مطابق امریکی ریاست اوہائیو کے بیگل میاں بیوی نے اپنے شیرخوار بیٹے کو ایک میل دور اس کی دادی کے پاس بھجوانا تھا جب ان کو یہ خیال آیا۔
ڈاکیے ورنن او لیٹل نے خوشی خوشی ان کے بچے کو محفوظ طریقے سے منزل پر پہنچا دیا جس کے عوض بیگل خاندان کو صرف 15 سینٹ کا رعایتی معاوضہ ادا کرنا پڑا مگر 50 ڈالر انشورنس کے ساتھ۔
اس واقعے کے بارے میں نیویارک ٹائمز تک میں خبر چھپی۔ خبر کچھ یوں تھی کہ ’جب ڈاکیا بچے کو لینے پہنچا تو وہ اچھی طرح سے لپٹا ہوا ڈاک کے لیے تیار تھا۔ مسٹر لیٹل (ڈاکیا) نے اس لڑکے کو کارڈ پر دیے گئے پتے پر بحفاظت پہنچایا، جو لڑکے کی دادی، مسز لوئس بیگل کا گھر ہے۔ وہ تقریباً ایک میل دور رہتی ہیں۔‘
یہ خبر چھپی تو امریکی محکمہ ڈاک کے سربراہ فرینک ہچکاک کو ایک ایسے شخص کی درخواست وصول ہوئی جو بچے کو گود لینے کے خواہش مند تھے۔
درخواست میں لکھا تھا کہ ’کیا میں آپ سے پوچھ سکتا ہوں کہ پارسل کے لیے کیا ہدایات ہیں تاکہ یہ (بچہ) ضوابط کی تعمیل کرے اور پارسل پوسٹ کے ذریعے شپمنٹ کی اجازت دی جائے کیونکہ ایکسپریس والے تو بہت برے طریقے سے ہینڈل کرتے ہیں۔‘
پنسلوینیا سے آنے والی اس درخواست کے بعد امریکی پوسٹ ماسٹر جنرل کا آفس یہ بیان جاری کرنے پر مجبور ہوا کہ ’بچے، پوسٹ ماسٹر جنرل کی رائے میں، شہد کی مکھیوں اور کیڑوں کے زمرے میں نہیں آتے، صرف یہی وہ زندہ چیزیں ہیں جو ڈاک کے ذریعے منتقل کی جا سکتی ہیں۔‘
معلوم ہوا کہ بچوں کو ڈاک سے بھجوانا سرکاری پالیسی سِرے سے تھی ہی نہیں لیکن ایسے میں اور بچوں کو ڈاک سے بھجوانے کے واقعات سامنے آتے رہے۔
بچوں کو ڈاک پارسل کا سب سے مشہور واقعہ شارلٹ مے پیئرسٹورف کا ہے جن کو 19 فروری 1914 کو ٹرین کے ذریعے ان کے دادا دادی کے گھر بھیجا گیا
اوکلاہوما میں ایک خاتون نے اپنے دو سالہ پوتے کو کنساس کے شہر ویلنگٹن میں اس کی خالہ کے ہاں بھیجا تو نیویارک ٹائمز کی خبر یوں تھی کہ ’لڑکے کی گردن پر ایک ٹیگ تھا جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ اسے ڈاک کے ذریعے بھیجنے پر 18 سینٹ خرچ ہوئے ہیں۔ ریل کی پٹڑی تک پہنچنے سے پہلے اسے دیہی راستے سے 25 میل لایا گیا تھا۔ وہ ڈاکیوں کے ساتھ سوار ہوا، ان کے ساتھ اپنا لنچ شیئر کیا اور اچھی حالت میں یہاں پہنچا۔‘
جون 1914 میں ایک دلچسپ واقعہ پیش آیا جب ایک خاتون نے اپنے دو سالہ بیٹے کو لا پورٹ میں اس کے والد ہنری ایولر کو ’پوسٹ‘ کیا تو ایولر کی ماں نے ’ڈلیوری‘ وصول کرنے سے انکار کر دیا کیونکہ ان کی بہو نے طلاق کا مقدمہ دائر کر رکھا تھا۔
اب بچہ دیہی لا پورٹ کاؤنٹی کے ایک پوسٹ آفس میں پھنس کر رہ گیا۔ دی سٹار نے لکھا ’بظاہر اس کے بعد اسے ناقابل ِترسیل خطوط کے دفتر ڈیڈ لیٹر آفس ہی جانا تھا لیکن یہ ہیجان یوں ختم ہوا کہ ایولر نے بچے کا دعویٰ کر دیا۔ اس بچے کو سفر کا بہت مزہ آیا، شاید اس لیے کہ ڈاکیے فریڈ سٹول نے یہ پارسل آٹوموبیل ( گاڑی) میں ڈیلیور کیا تھا۔‘
بچوں کو ڈاک پارسل کا سب سے مشہور واقعہ شارلٹ مے پیئرسٹورف کا ہے جن کو 19 فروری 1914 کو ٹرین کے ذریعے ان کے دادا دادی کے گھر بھیجا گیا جو 73 میل دور رہتے تھے۔
الیگزینڈرا ڈینزر نے لکھا ہے کہ ’مے نے اپنی دادی مریم سے ملنے کا خواب دیکھا تھا جو ان کے مطابق ایک ملین میل دور پرانے ایڈاہو پہاڑوں میں رہتی تھیں۔‘
لیکن اس خواب کی تعبیر کے لیے مے کا خاندان ٹرین ٹکٹ کا متحمل نہیں تھا لہٰذا انھوں نے مے کو گرینج ویل، ایڈاہو میں ان کے دادا دادی کے گھر بھیجنے کا تخلیقی حل نکالا۔
بس ان کے کوٹ پر 53 سینٹ مالیت کے ڈاک ٹکٹ لگے کیونکہ مے کی والدہ کے کزن، لیونارڈ موچل، ریلوے میل سروس میں کام کرتے تھے۔ ہو سکتا ہے کہ ان کے اثر و رسوخ اور بچی کو سنبھالنے کی یقین دہانی پر مقامی عملہ بچی کو میل کے ساتھ بھیجنے پر راضی ہو گیا ہو۔
مے کا ایڈوینچر اتنا مشہور ہو گیا کہ مائیکل او ٹنل نے کتاب ’میلنگ مے‘ لکھ ڈالی۔
اس واقعے کے بعد امریکی پوسٹ ماسٹر جنرل برلسن نے انسانوں کو ڈاک میں بھیجنے پر پابندی عائد کر دی۔
تاہم اس اعلان کے محض ایک ماہ بعد ڈاکیے بی ایچ کنیپر 14 پاؤنڈ کے بچے کو کلیئر سپرنگ، میری لینڈ، میں اس کی دادی کے گھر سے 12 میل دور اس کی ماں کے گھر پہنچا آئے۔
25 فروری 1915 کو میسوری کے ڈاکیے چارلس ہیز نے کومبس کی بیٹی ہیلن کو پارسل پوسٹ کے ذریعے 10 سینٹ میں ان کی دادی کو پہنچایا جن کا گھر ان کے راستے میں تھا۔
الیگزینڈرا ڈینزر کے مطابق اس رواج کے پنپنے کی وجہ دراصل یہ تھی کہ بچوں کو ٹرین سے بھجوانا انتہائی مہنگا تھا جو چند والدین کی پورے دن کی اجرت کے برابر پڑتا۔ دوسرے یہ کہ لوگوں کو اس وقت ڈاک کے عملے پر اعتماد تھا۔
جارڈن گاس پور کے مطابق جب ایک شریک حیات بیمار ہو جاتا اور بچوں کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہ ہوتا تو والدین بعض اوقات اپنے مقامی ڈاکیے پر انحصار کرتے کہ وہ انھیں بچے کے دادا دادی کے گھر لے جائیں۔
گاس پورنے نیشنل پوسٹل میوزیم کی تاریخ دان نینسی پوپ کے حوالے سے لکھا ہے کہ ’یہ ٹرین کے ٹکٹ سے سستا تھا۔ بچوں کو دوسرے پیکج کے ساتھ کینوس کی بوری میں نہیں ڈالا جاتا تھا۔ اس کے بجائے، ان کی نگرانی ڈاکیے کرتے۔ والدین اور ڈاکیوں کے درمیان اعتماد کا رشتہ تھا، جو اکثر دوست، پڑوسی یا خاندان کے افراد ہوتے تھے۔‘
سلویا کہتے ہیں کہ ’یہ تقریباً ایسے ہی تھا کہ جیسے کسی طرف جاتے ہوئے ڈاکیے سے کہہ دیا جائے کہ ہمارے بچے کو بھی ادھر چھوڑ دینا۔‘
تاریخ میں ایک 9 سالہ لڑکی کا بھی ذکر ہے جو خود واشنگٹن سٹی کے مرکزی پوسٹ آفس گئی کہ اسے کینٹکی بھیجا جائے تاہم اسے انکار کر دیا گیا۔
پوپ کے مطابق ان بچوں میں سے کچھ کے لیے تو ایسا ہی تھا جیسے ایک ہی سڑک پر کچھ دور لے جایا جانا لیکن کچھ بچوں کو دور بھی بھیجا گیا۔
پینساکولا، فلوریڈا کی ایڈنا نیف 6 سال کی تھیں جب انھیں 27 مارچ 1915 کو 720 میل دور کرسچن برگ، ورجینیا میں ان کے والد کے ہاں بھیجا گیا۔ نیف کے ٹرین کے سفر کی تفصیلات کے بارے میں ان کے وزن کے علاوہ، جو 50 پاؤنڈ کی حد سے کم تھا، بہت کم معلومات ہیں۔ ان پر 15 سینٹ مالیت کے ڈاک ٹکٹ لگے۔
الیگزینڈرا ڈینزرکے مطابق پارسل پوسٹ کے ساتھ یہ کسی بچے کا اب تک کا سب سے طویل سفر ہے۔
چھ ماہ بعد امریکی پوسٹل سروس کے کارکن جم ہیڈکس او اینڈ کے ٹرین سٹیشن سے ایک غیر معمولی پارسل جیکسن، کینٹکی، پوسٹ آفس لے کر گئے۔
ان کے گھٹنوں کے درمیان خطوں کی بوریوں کے اوپر بیٹھی تین سالہ ماؤڈ اسمتھ اپنے بیگ سے کینڈی کھا رہی تھیں۔ شہر کے متجسس لوگوں نے انھیں پکارا تو جواب میں وہ مسکرا دیں۔
انھوں نے گلابی لباس پہنا ہوا تھا جس کے ایک طرف 33 سینٹ کے ڈاک ٹکٹوں کے ساتھ شپنگ ٹیگ لگا ہوا تھا۔ ماؤڈ کا یہ سفر دادا دادی کے گھر سے والدہ سیلینا سمتھ کے گھر تک کا تھا۔
1915 میں پابندی کو سختی سے نافذ کیا گیا لیکن دیہی ڈاکیے اور اخبارات تفریح کے لیے پارسل کی بوریوں میں مقامی بچوں کے ساتھ تصویریں بنانے سے نہ رکے۔
پوپ کا کہنا ہے کہ 100 سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد بھی لوگ بچوں کو ڈاک سے بھیجے جانے والی کہانیوں سے متوجہ ہوتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’یہ بہت عجیب اور موجودہ دور میں بچوں سے ہونے والے سلوک سے برعکس ہے۔ ہم اب ایسا کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے لیکن پھر بھی لوگ اس کی یاد مناتے ہیں۔‘
سِلویا نے بہت سے ایسے لوگوں کی کہانیاں سوشل میڈیا پر پڑھیں جو 1910 اور 1920 کی دہائیوں میں بچے تھے۔
ان میں سے ایک نمایاں کہانی یہ ہے جس میں بتایا گیا کہ ’میرے والد کی کزن کو 1918 کے فلو کی وبا میں اس کی والدہ، خالہ اور چھوٹی بہن کی موت کے بعد مغربی انڈیانا میل کیا تھا۔‘
’وہ اس وقت 5 سال کی تھی۔ میرے والد نے بتایا کہ وہ بحفاظت پہنچی تھی اگرچہ وہ ٹرین کے کوئلے کی دھول سے گندی ہو چکی تھی اور اس کے پاس کافی رقم تھی جو اسے دوسرے مسافروں نے دی تھی۔ یہ تقریباً 1920 کی بات ہے۔‘
اس وقت تک محکمہ ڈاک کے لیے معاملہ بہت زیادہ سنجیدہ ہو چکا تھا۔
13 جون 1920 کو واشنگٹن ہیرالڈ میں شہ سرخی لگی بچوں کو نہیں بھیج سکتے۔ ڈاک کے محکمے نے بالآخر یہ فیصلہ دیا کہ بچے بے ضرر جانور نہیں اور انھیں خطرے کے امکانات کی وجہ سے پارسل پوسٹ کے طور پر نہیں بھیجا جا سکتا۔‘
اس فیصلے میں کہا گیا کہ ’بچوں کو بے ضرر، زندہ جانور قرار نہیں دیا جا سکتا جنھیں خوراک یا پانی کی ضرورت نہ ہو۔‘
Comments are closed.