جب امام خمینی کے کفن کے ٹکڑے یادگار کے طور پر رکھنے کے لیے لوگوں میں مقابلہ شروع ہو گيا
- مصنف, ریحان فضل
- عہدہ, بی بی سی ہندی، نئی دہلی
ایران کے مذہبی رہنما آیت اللہ روح اللہ موسوی خمینی 3 جون سنہ 1989 کو فوت ہوئے۔ وہ گذشتہ 80 سالوں میں ایران کے پہلے رہنما تھے جنھوں نے اس دنیا کو قدرتی موت کے ساتھ الوداع کہا تھا۔
ان سے پہلے ایرانی حکومت کے سربراہوں کو یا تو جلاوطنی کی اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا تھا یا ان کا قتل ہوا تھا۔ جب خمینی کی موت ہوئی تو حکومت ایران نے انھیں اسلام کے پیغمبر حضرت محمد اور ان کے بعد آنے والے اماموں کے بعد سب سے دینی شخص قرار دیا تھا۔
امام خمینی 24 ستمبر سنہ 1902 کو ایران کے شہر خمین میں پیدا ہوئے۔ خمینی کم لوگوں سے ملنا جلنا پسند کرتے تھے۔ انھوں نے چھ سال کی عمر سے قرآن پڑھنا شروع کیا۔ بعد میں انھوں نے قم شہر میں سکونت اختیار کرنے کا فیصلہ کر لیا۔
خمینی نے آیت اللہ بننے کے بعد ایران کے شاہ اور امریکہ کے ساتھ ان کے تعلقات پر تنقید شروع کر دی، جس کی وجہ سے شاہ نے انھیں ملک بدر کر دیا۔
آیت اللہ وہاں سے ترکی چلے گئے۔ اس کے بعد وہاں سے پہلے وہ عراق اور پھر فرانس گئے۔
بی بی سی کی فارسی سروس سننے شوقین
فرانس میں خمینی کا دن صبح تین بجے شروع ہوتا تھا یعنی صبح کی نماز سے بہت پہلے۔ اس وقت کو وہ ان کاغذات کو پڑھنے میں صرف کرتے جو ایک دن پہلے آئے ہوتے تھے اور جنھیں پڑھنے کا وقت نہیں ملتا تھا۔
سات بجے ناشتہ کرنے سے پہلے وہ غیر ملکی پریس رپورٹس کے فارسی ترجمے پڑھتے تھے۔
باقر معین اپنی کتاب ‘خمینی: دی لائف آف اے آیت اللہ’ میں لکھتے ہیں کہ ‘اگلے تین گھنٹے وہ ایران کی تازہ ترین خبروں اور اپنے ذاتی معاملات پر غور و فکر کرتے تھے۔ دس بجے سے بارہ بجے تک وہ عبادت کرتے تھے۔ کھانے کے بعد دن میں ایک گھنٹے کا قیلولہ کرتے تھے، تین بجے کے بعد دو گھنٹے سیاسی کام کرتے تھے۔ دن میں جب بھی وقت ملتا تھا، آس پاس کے گاؤں کی سیر کرنے نکل جاتے تھے۔’
فرانس میں فراہم حکومتی سکیورٹی کی وجہ سے ایسا بہت کم ہوتا تھا کہ وہ تنہا باہر سیر کے لیے نکل سکے ہوں۔ ان کا دن نو بجے ختم ہوتا تھا۔ پھر وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ رات کا کھانا تناول فرماتے تھے۔
اس کے بعد وہ غیر ملکی ریڈیو سٹیشنوں خصوصاً بی بی سی کی فارسی سروس کی ریکارڈنگ سنتے تھے۔ وہ سب سے زیادہ اس وقت خوش ہوتے تھے جب وہ اپنے پوتوں اور نواسوں کے ساتھ کھیلتے ہوتے تھے۔
رضا شاہ پہلوی
ایران کے شاہ کو اقتدار سے ہٹایا
اسلامی معاشرے میں خواتین کے کردار کے بارے میں ان کے خیالات کچھ بھی ہوں، خمینی ہمیشہ اپنی اہلیہ اور خاندان کے لیے وقف تھے۔
ان کی بیٹی نے ایک بار ایک ایرانی ٹیلی ویژن کو بتایا کہ ‘انھوں نے کبھی ہماری ماں سے پانی کا گلاس لانے کو بھی نہیں کہا۔’
ایران میں سنہ 1979 کے اوائل میں جو افراتفری پھیل گئی تھی اس کی وجہ سے معیشت ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی، تیل کی پیداوار شدید متاثر ہوئی تھی، اور ملک کا دارالحکومت تہران بائیں بازو اور دائیں بازو کے درمیان خونریز لڑائیوں کا مشاہدہ کر رہا تھا۔ اس دور میں ایران کے شاہ کو اقتدار سے ہٹانا خمینی کی ایک بڑی سیاسی کامیابی تھی۔
جب ایران میں انقلاب برپا ہوا تو مغربی ممالک کے لوگوں کو قطعی یقین نہیں آیا۔ اس وقت تک مغربی ممالک ایران کو بہت مستحکم ملک سمجھتے تھے، لیکن شاہ کا تخت چھوڑنا اور آیت اللہ کا وہاں کے مذہبی رہنما بننا ایک دن میں نہیں ہوا تھا۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
امریکی صدر رچرڈ نکسن کے ساتھ رضا شاہ (بائيں)
شاہ کو خزانہ لے جانے میں کامیابی نہ ملی
شاہ کے زمانے میں ایران مغربی ممالک کے کیمپ میں تھا جبکہ آیت اللہ کھل کر اس کی مخالفت کرتے تھے۔ اسی وجہ سے انھیں سنہ 1962 میں گرفتار کر لیا گیا۔ اس گرفتاری نے انھیں ملک کا ہیرو بنا دیا۔
وہ پہلے ترکی گئے، پھر عراق اور پھر فرانس میں رہنے لگے۔ یہاں قیام کے دوران وہ اپنے حامیوں پر زور دیتے رہے کہ وہ شاہ کو اقتدار سے نکال باہر کریں۔
سنہ 1979 کے آنے سے قبل ہی شاہ کی مقبولیت پورے ایران میں کم ہونے لگی۔ ہر طرف فساد پھیل گیا اور روزانہ ہڑتالیں اور مظاہرے ہونے لگے۔
شاہ نے ایران چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا لیکن وہ 16 جنوری تک تہران میں ہی رہے۔ شاہ اتنی دیر تک وہیں رہے کیونکہ وہ شاہی خزانے کا سارا یا کچھ حصہ اپنے ساتھ لے جانا چاہتے تھے۔
محمد ہیکل اپنی کتاب ‘دی ریٹرن آف دی آیت اللہ’ میں لکھتے ہیں: ‘درحقیقت وہ اپنے ساتھ وہ زیورات لے جانا چاہتے تھے جو انھوں نے اور ان کی بیوی نے اپنی تاجپوشی کے دن پہنے تھے۔ انھوں نے رايل گارڈز کی ٹولی کو کئی بار اس حکم کے ساتھ بینک بھیجا کہ وہ زبردستی شاہی تجوری کو کھلوانے کی کوشش کرے لیکن وہ ہر بار خالی ہاتھ واپس آئے۔’
‘شاہی تجوری کو حفاظتی اقدامات کے تحت زمین سے 20 میٹر نیچے بنایا گیا تھا، بینک کے اہلکار جو تجوری کھولنا جانتے تھے غائب ہو گئے، آخر شاہ کی جانب سے شاہی خزانے کو محفوظ رکھنے کے لیے جو احتیاطی تدابیر اختیار کی گئی تھیں، وہ ان کے خلاف گئیں اور انھیں ایران سے اپنے جواہرات کے بغیر جانا پڑا۔’
ان جواہرات کو اس وقت 500 ارب ڈالر میں بیمہ کرایا گیا تھا۔ یہ خزانہ آج بھی ایران کے بینک میں محفوظ ہے۔
،تصویر کا ذریعہANDREDEUTSCH LTD
کئی ممالک نے شاہ کو سیاسی پناہ دینے سے انکار کر دیا
شاہ نے ایران سے اپنی روانگی کو اس طرح پیش کیا کہ وہ مصر کے سرکاری دورے پر جا رہے ہیں۔ دراصل، وہ پہلے اردن جانا چاہتے تھے لیکن اردن کے بادشاہ نے شائستگی سے ان کی درخواست مسترد کر دی۔
شاہ کا وفد سب سے پہلے دریائے نیل پر اسوان ریزورٹ پہنچا۔ وہاں بھی انھوں نے خود کو حکومت کے سربراہ کے طور پر پیش کیا۔ وہاں انھوں نے مصری صدر انور سادات کے ساتھ تین روزہ سربراہی اجلاس کیا۔
وہاں انھوں نے سابق امریکی صدر جیرالڈ فورڈ سے بھی ملاقات کی۔ مصر میں پانچ دن گزارنے کے بعد شاہ 22 جنوری کو مراکش کے دارالحکومت کے لیے روانہ ہوگئے۔
ان کا منصوبہ یہ تھا کہ وہ پانچ دن وہاں گزاریں گے اور پھر امریکہ چلے جائیں لیکن وہاں انھیں اپنے داماد اور امریکہ میں ایران کے سفیر کا پیغام ملا کہ امریکہ نے اپنا ارادہ بدل لیا ہے اور اب وہ ان کی میزبانی کے حق میں نہیں ہے۔
تین ہفتے بعد مراکش کے شاہ نے اپنے اے ڈی سی کو ایران کے شاہ کے پاس یہ بتانے کے لیے بھیجا کہ وہ انھیں اپنے ملک میں سیاسی پناہ دینے کی مخلصانہ خواہش رکھتے ہیں، لیکن اب صورتحال بدل چکی ہے اور وہ چاہ کر بھی انھیں اپنے پاس نہیں رکھ سکتے۔ زندگی کے آخری دور میں مصر نے انھیں اپنے یہاں آنے کی اجازت دے دی۔ جب شاہ 27 جولائی سنہ 1980 کو کینسر کے باعث فوت ہوگئے تو انھیں سرکاری اعزاز کے ساتھ وہیں سپرد خاک کر دیا گیا۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
خمینی پیرس سے تہران روانہ ہوئے
دوسری جانب یکم فروری سنہ 1979 کی رات ایک بجے چارٹرڈ بوئنگ 747 طیارے ‘دی مے فلاور’ نے پیرس کے ہوائی اڈے سے تہران کے لیے پروواز کیا۔ اس پر ایران کے شاہ کے خلاف انقلاب کے ہیرو آیت اللہ روح اللہ خمینی سوار تھے۔ 16 سال جلاوطنی کی زندگی گزارنے والے خمینی اپنے وطن واپس آرہے تھے۔
طیارے میں سوار مسافروں کی کل تعداد 168 تھی۔ اس پرواز میں کوئی خاتون یا بچہ اس خوف سے شامل نہیں کیا گیا تھا کہ ہوائی جہاز پر حملہ ہو سکتا ہے۔ یہ خدشہ بالکل بے بنیاد بھی نہیں تھا۔
کون کفلن اپنی کتاب ‘خمینیز گوسٹ’ میں لکھتے ہیں: ‘ایرانی فضائیہ کے سینیئر کمانڈر اس طیارے کو مار گرانا چاہتے تھے جو خمینی کو ایران لے کر آ رہا تھا۔ انھوں نے مصر میں پناہ گزین شاہ سے طیارے کو مار گرانے کی اجازت بھی مانگی تھی، لیکن شاہ نے اس درخواست کا جواب نہیں دیا۔’
معروف مصری صحافی محمد ہیکل نے اپنی کتاب ‘دی ریٹرن آف آیت اللہ’ میں لکھا ہے کہ ‘جہاز میں سوار ہوتے ہی خمینی جہاز کے اوپری حصے میں گئے، انھوں نے پہلے وضو کیا، نماز پڑھی اور کچھ دہی کھائی۔ اس کے بعد انھوں نے طیارے کے فرش پرش توشک بچھوائی، ایئر فرانس کے دو کمبل اوڑھ کر سونے چلے گئے۔ ڈھائی گھنٹے سونے کے بعد انھوں نے پھر نماز پڑھی اور آملیٹ کا ناشتہ کیا۔
‘طیارے کے پچھلے حصے میں ان کے آدمی اور تقریباً 100 صحافیوں کا ایک گروپ بیٹھا ہوا تھا۔ جیسے ہی طیارہ ایرانی فضائی حدود میں داخل ہوا، اے بی سی نیوز کے نمائندے پیٹر جیننگز نے خمینی سے پوچھا: ‘ایران واپس آتے ہوئے آپ کیسا محسوس کرتے ہیں؟’ آیت اللہ کا جواب تھا ‘ہیچی’ یعنی کچھ بھی نہیں۔ ان کے فارسی مترجم صادق غوتبزادہ نے حیرت سے پوچھا، ‘ہیچی؟’ خمینی نے پھر اصرار کیا، ‘ہیچ احساسی نہ دارم’، جس کا مطلب ہے کہ مجھے کچھ محسوس نہیں ہو رہا۔’
امام خمینی فرانس سے ایران کے سفر پر
خمینی کے طیارے کو مار گرائے جانے کا خوف
بی بی سی کے نامہ نگار جان سمپسن بھی اسی طیارے میں سوار تھے۔ بعد ازاں انھوں نے اپنی سوانح عمری ‘نیوز فرام نو مینز لینڈ’ میں لکھا: ‘خمینی کے ساتھ تہران جانا ایک خوفناک تجربہ تھا۔ ہمارے ساتھ آنے والے مسافروں کو پورا یقین تھا کہ ایرانی فضائیہ ہمارے طیارے کو مار گرائے گی۔ پرواز کے دوران ہم نے کچھ لمحے کے لیے خمینی سے بات کی تھی۔ وہ زیادہ بولنے والے شخص نہیں تھے۔ جب میں ان سے کوئی سوال پوچھتا تو وہ جہاز کی کھڑکی سے باہر دیکھنے لگتے۔’
خمینی کے طیارے نے لینڈ کرنے سے پہلے تین بار تہران کا چکر لگایا۔ آخر کار یکم فروری کی صبح ساڑھے نو بجے خمینی کا طیارہ تہران کے مہرآباد ہوائی اڈے پر اترا۔
جیسے ہی ہوائی جہاز کا دروازہ کھلا، کالی پگڑی اور ٹخنوں تک لمبے پاجامے میں ملبوس ایک کمزور، جھکی ہوئی کمر والے بوڑھے نے 16 سال بعد اپنے چہرے پر ٹھنڈی ایرانی ہوا کا جھونکا محسوس کیا۔
خمینی کے استقبال کے لیے بھیڑ امڈ پڑی
ان کو ایک بازو سے ایئر فرانس کے ایک اٹینڈنٹ نے سہارا دے رکھا تھا۔ ایرانیوں کا ایک ہجوم خمینی کے استقبال کے لیے وہاں جمع تھا۔ انھیں پہلے آسمانی نیلے رنگ کی مرسڈیز کار میں بٹھایا گیا۔ لیکن لوگوں کا ہجوم اتنا تھا کہ انھیں ہیلی کاپٹر میں شفٹ کرنا پڑا۔ جب تک وہ گاڑی میں تھا وہ ان سڑکوں کے نام پوچھتے رہے جن سے وہ گزر رہے تھے۔ جب انھوں نے برسوں پہلے تہران چھوڑا تو تہران اور اب کے درمیان بڑا فرق تھا۔
ان کی آمد تک شاہ کے دور کے وزیراعظم شاہ پور بختیار نے استعفیٰ نہیں دیا تھا۔ انھیں نظر انداز کرتے ہوئے خمینی نے مہدی بازارگان کو وزیر اعظم مقرر کر دیا۔
محمد ہیکل لکھتے ہیں: ‘بختیار نے پورے ملک میں کرفیو نافذ کر دیا تاکہ یہ ظاہر ہو کہ وہ اقتدار پر قابض ہے۔ خمینی نے جب یہ سنا تو ایک کاغذ نکالا اور اس پر فارسی میں لکھا: ‘کرفیو کی پیروی نہ کریں۔’
اس کاغذ کے ٹکڑے کو ہر ٹیلی ویژن چینل پر دکھایا گیا۔ اس کے فوراً بعد لوگ کرفیو کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے۔ جنرل غرابگی نے نو منتخب وزیر اعظم بزرگان کو بلایا اور ان سے کہا کہ وہ اپنا نمائندہ بھیجیں تاکہ میں فوج کا کنٹرول ان کے حوالے کر سکوں۔
جنرل نصیری کو گولی ماری
11 فروری کو جنرل غرابگی نے اچانک اعلان کیا کہ اب سے فوج سیاسی طور پر غیر جانبدار رہے گی۔ انھوں نے تمام فوجی یونٹوں کو بیرکوں میں واپس جانے کا حکم دے دیا۔
اس دن سے ہی سڑکوں پر انقلابیوں کا قبضہ ہو گیا۔ بختیار نے اپنا عہدہ چھوڑنے کا اعلان کیا اور روپوش ہو گئے۔ اس دن کے بعد سے پرانی حکومت سے وابستہ فوجی افسران کو گرفتار کر لیا گیا۔
یہ بھی پڑھیے
ڈیسمنڈ ہارنی اپنی کتاب ‘دی پریسٹ اینڈ دی کنگ’ میں لکھتے ہیں: ’12 فروری کی رات پہلے جنرل نصیری، شاہ کے خاص الخاص اور ان کی بدنام زمانہ خفیہ ایجنسی سواک کے سربراہ نصیری کو مارا پیٹا گیا اور پھر انھیں جنرل ربی، ناجی اور خولروداد کر ساتھ 15 فروری کی رات ایک سکول کی چھت پر گولی مار دی گئی۔
ایک ہفتہ قبل ہی خمینی نے اس سکول کو اپنا ہیڈکوارٹر بنایا تھا۔
خمینی نے صادق خلخیلی کو مقدمے کی سماعت کے لیے مقرر کیا۔ اس نے خلخیلی کو ہدایت کی کہ ان لوگوں کی باتوں کو سنیں اور ‘اس کے بعد ان سب کو جہنم واصل کریں۔’
جنرل نصیری
فرانس میں آیت اللہ خمینی نے بھلے ہی ایران میں جمہوریت کی واپسی کی خواہش کا اظہار کیا ہو لیکن ایرانی سرزمین پر قدم رکھتے ہی ان کی تمام تر توجہ ایران میں ایک بنیاد پرست اسلامی ریاست کے قیام پر مرکوز تھی۔
کون کفلن لکھتے ہیں: ‘ان جرنیلوں کو آنکھوں پر پٹی باندھ کر سکول کی چھت پر لے جایا گیا جہاں انھیں ایک ایک کر کے گولی مار دی گئی۔ جب خمینی کو ان کی موت کی خبر ملی تو وہ لاشوں کو دیکھنے کے لیے خود تنگ سیڑھیوں سے چڑھ کر چھت پر گئے اور ایک منٹ تک وہاں رہے۔ اس کے بعد ان لاشوں کی فلم بناکر ایرانی ٹیلی ویژن پر دکھایا گیا۔’
اس سے یہ پیغام دینا تھا کہ آیت اللہ خمینی کی اسلامی انصاف کی روایت اب ایران کی سرزمین پر اپنی جڑیں جمانے جا رہی ہے۔
اس واقعے کے چند دن بعد تہران یونیورسٹی کے ایک طالب علم نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ‘میں سمجھتا تھا کہ خمینی ایران میں جمہوریت لا رہے تھے، لیکن اب مجھے لگتا ہے کہ ہم نے ایک آمر کی جگہ دوسرے آمر کو لا کھڑا کیا ہے۔’
سلمان رشدی کی موت کا فتویٰ
سنہ 1989 میں خمینی نے ‘سیٹینک ورسز’ کے مصنف سلمان رشدی اور اس کتاب کی اشاعت سے وابستہ افراد کے خلاف موت کا فتویٰ جاری کیا۔ انھوں نے دنیا بھر کے مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ رشدی کو دیکھتے ہی قتل کر دیں۔
اعلان کیا گیا کہ جو شخص رشدی کو قتل کرے گا اسے 26 لاکھ ڈالر کا انعام دیا جائے گا۔ اس فتوے کی وجہ سے رشدی کو اپنی باقی زندگی سخت سکیورٹی میں گزارنی پڑی۔
3 جون 1989 کو خمینی کی موت ہئی تو تہران ریڈیو کے پریزینٹر نے روتے ہوئے اس کا اعلان کیا۔
ملک بھر میں ہنگامی حالت کا اعلان کر دیا گیا اور ٹیلی فون لائنیں کاٹ دی گئیں۔ تمام ہوائی اڈے بند کر دیے گئے اور ایران کی سرحدیں سیل کر دی گئیں۔
جنازے میں لاکھوں لوگوں کی شرکت
اس وقت ایران کے صدر رفسنجانی کو لگا کہ خمینی کے اس دنیا سے چلے جانے سے ایران میں استحکام آئے گا۔
خمینی کے جنازے میں لاکھوں ایرانیوں نے شرکت کی۔ ان کی میت کو ائر کنڈیشنڈ باکس میں رکھا گیا تاکہ لوگ ان کے آخری دیدار کرسکیں۔ ایک اندازے کے مطابق خمینی کے جنازے میں تقریباً بیس لاکھ افراد نے شرکت کی۔
اس وقت ہجوم اتنا زیادہ تھا کہ تہران کی فائر بریگیڈ کو لوگوں پر پانی کی بارش کرنی پڑی تاکہ وہ گرمی اور دم گھٹنے سے بیہوش نہ ہو جائیں۔
بالآخر ان کی میت کو ہجوم سے بچانے کے لیے ہیلی کاپٹر میں منتقل کرنا پڑا۔ لیکن جیسے ہی ہیلی کاپٹر اترا، ہجوم نے آگے بڑھ کر خمینی کی لاش کو قبضے میں لے لیا۔
لوگوں میں ان کے سفید کفن کا ٹکڑا حاصل کرنے کا مقابلہ شروع ہو گیا تاکہ وہ اسے یادگار کے طور پر اپنے پاس رکھ سکیں۔
ایرانی میڈیا نے بتایا کہ خمینی کو سپرد خاک کیے جانے کے دوران تقریباً دس ہزار افراد زخمی ہوئے اور درجنوں کو جان سے ہاتھ دھونا پڑی۔
Comments are closed.