جب اسلام نے ایک عام سے جاپانی کی زندگی بدل دی
کیجی کا کہنا ہے کہ وہ کبھی اس روحانی تجربے کو بھلا نہیں پائیں گے جو انھیں خانۂ کعبہ کو دیکھ کر حاصل ہوا
یہ 2015 کی بات ہے جب سٹوڈنٹ ایکسچینج پروگرام کے تحت برونائی کا دورہ کرنے والے ایک جاپانی نوجوان کی زندگی ہی بدل گئی۔
کیجی واڈا کا کہنا ہے کہ اس تجربے سے انھیں حقیقت میں علم ہوا کہ مسلمان کیا ہیں۔
اس سے قبل انھوں نے اسلام کے بارے میں جو کچھ سنا تھا وہ ذرائع ابلاغ سے ملنے والی خبروں پر مبنی تھا جس میں خاص طور پر مشرقِ وسطی میں شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ کی کارروائیوں کی خبریں شامل تھیں۔
وہ سٹوڈنٹ ایکسچینج پروگرام کیجی واڈا کی مسلمانوں اور عالم اسلام سے پہلی ملاقات اور رابطہ تھا۔
یہ بھی پڑھیے
اس پروگرام سے واپسی پر کیجی نے اپنے ملک میں مقیم مسلمانوں سے ملنا شروع کیا جس سے اسلام کے بارے میں انھیں بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔
وہ کہتے ہیں کہ ان ملاقاتوں سے انھیں ایک خاص روحانی تجربہ ملا جس نے انھیں اپنی زندگی کے مقصد کی پہچان میں مدد دی اور پھر 2017 میں انھوں نے اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کر لیا۔
بی بی سی انڈونیشیا کے صحافی اینڈانگ نوردین سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا ’یہ ایک جاپانی مسلمان کی حیثیت سے میرا چوتھا رمضان رہا۔ مجھے اپنے مذہب پر فخر ہے‘۔
کیجی نے کہا کہ ’عبادت کے ذریعے میری بطور ایک مسلمان شناخت مزید مضبوط ہوتی ہے۔‘
کیجی واڈا نے 2017 میں اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کیا تھا
اسلام قبول کرنے کے بارے میں بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا ’میرا ذہن بدل گیا تھا۔ میں (جاپان) واپس آنے کے بعد اکثر ملائیشیا، انڈونیشیا اور برونائی سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں سے ملتا تھا۔ وہ پرسکون تھے، نرم مزاج تھے۔ میں اس تجربے سے متاثر ہوا تھا اور اسی وجہ سے میں اسلام میں دلچسپی رکھتا تھا اور اس کے بارے میں جاننا چاہتا تھا۔‘
کیجی کو اس سفر میں صرف اپنے اردگرد کے ماحول سے ہی نہیں بلکہ اپنے اہلخانہ کی جانب سے بھی مشکلات کا سامنا رہا جو یہ سمجھ نہیں پا رہے تھے کہ کیجی کو مذہب کی ضرورت کیوں ہے۔
’میری والدہ کو صرف اسلام ہی نہیں بلکہ کوئی بھی مذہب پسند نہیں۔ میرے خیال میں اس لیے کہ انھیں مسلمانوں سے براہ راست بات چیت کرنے کا کوئی تجربہ نہیں ہے اور وہ ان کے بارے میں صرف میڈیا کے ذریعے جانتی ہیں جبکہ اگر آپ ان سے ملیں تو وہ خطرناک نہیں ہیں۔‘
کیجی نے برونائی سے واپسی پر اپنے ملک میں مقیم مسلمانوں سے ملنا شروع کیا جس سے اسلام کے بارے میں انھیں بہت کچھ سیکھنے کو ملا
کیجی کا کہنا ہے کہ ’میری ماں تاحال وہ میرے مذہب سے راضی نہیں ہیں لیکن وہ میرے فیصلے کی حمایت کرتی ہیں ، کیونکہ میں ان کا بیٹا ہوں، الحمدللہ، وہ اکثر مجھے حلال کھانا بھی بھیجتی ہیں۔‘
واسیڈا یونیورسٹی کی تانڈا ہیروفوومی کے مطابق، جاپان میں مقیم مسلمانوں کی تعداد ، اگرچہ کم ہے تاہم گذشتہ دس برس میں یہ تعداد دوگنا ہو چکی ہے۔ 2010 میں جاپان میں ایک لاکھ دس ہزار مسلمان تھے جبکہ 2019 کے آخر تک یہ تعداد دو لاکھ 30 ہزار ہو چکی تھی جن میں تقریباً 50 ہزار جاپانی بھی شامل ہیں جنھوں نے اسلام قبول کیا ہے۔
میناچی اخبار کے مطابق تانڈا کا کہنا ہے کہ جاپان میں مسلمانوں میں اضافہ ملک میں طلبا اور کارکنوں کی بڑھتی ہوئی تعداد سے مطابقت رکھتا ہے۔
واسیڈا یونیورسٹی کی تانڈا ہیروفوومی کے مطابق، جاپان میں مقیم مسلمانوں کی تعداد گذشتہ دس برس میں دوگنی ہو چکی ہے
تانڈا کی تازہ ترین تحقیق کے مطابق، جاپان میں اس وقت 100 کے قریب چھوٹی مساجد یا نماز کی ادائیگی کے مقامات ہیں۔
ٹوکیو میں نوکری کرنے والے کیجی کا کہنا ہے کہ ’نماز پڑھنے کے لیے جگہ ڈھونڈنا میرے لیے چیلنج ہے کیونکہ یہاں بہت کم مساجد ہیں اور یہی مسئلہ حلال کھانے کی تلاش کا بھی ہے۔‘
تاہم وہ ان مشکلات سے گھبرانے والے نہیں۔ ’میں ایک عام جاپانی ہوں جو سیکولر ہوا کرتا تھا جس کا کوئی مذہب نہیں تھا اور اب اس کی زندگی کا ایک مقصد ہے۔‘
کائیجی نے کہا کہ انھوں نے جاپانی اساتذہ کے آن لائن لیکچرز کے ساتھ ساتھ جاپان میں انڈونیشیائی برادری اور مذہبی تقریبات میں شرکت کے ذریعے اسلام کی تعلیم حاصل کی۔
کیجی کا کہنا ہے کہ گذشتہ تین برس میں ان کی زندگی میں ٹھہراؤ آیا ہے اور وہ پرسکون ہو گئی ہے اور وہ 2017 سے پہلے کی زندگی سے بہت مختلف ہے جو ایسا وقت تھا جب وہ خود کو ایک بےمقصد زندگی جینے والے شخص کے طور پر یاد رکھتے ہیں۔
انھوں نے کہا ’عام طور پر جاپانی معاشرے میں ایسے افراد اکثر گم ہوجاتے ہیں یا الجھن میں پڑ جاتے ہیں (اس بات کا تعین کرنے میں) کہ ان کی زندگی میں کیا اہم ہے ، کیا صحیح ہے اور کیا صحیح نہیں۔ لہٰذا وہ کام کرنے کے لیے جیتے ہیں اور پھر تھکن کی وجہ سے خودکشی کر لیتے ہیں۔‘
’اسلام قبول کرنے کے بعد میرے تمام اہداف اور سوالوں کے جواب قرآن میں موجود ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ اب میری زندگی کا مقصد واضح ہے، میں اپنی زندگی جینے کی ترغیب پاتا ہوں ۔‘
کیجی کو اس سفر میں صرف اپنے اردگرد کے ماحول سے ہی نہیں بلکہ اپنے اہلخانہ کی جانب سے بھی مشکلات کا سامنا رہا
خیال رہے کہ جاپان میں خودکشی کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ نوجوان جاپانیوں میں خودکشی کی شرح میں اضافے کے پیچھے موجود عناصر میں خاندانی مسائل، دادا گیری اور مستقبل کے بارے میں پریشانیوں کو قرار دیا جاتا ہے۔
کیجی کا کہنا ہے کہ وہ کبھی اس روحانی تجربے کو بھلا نہیں پائیں گے جو انھیں خانۂ کعبہ کو دیکھ کر حاصل ہوا۔
وہ 2019 میں دیگر ممالک کے نومسلم افراد کے ہمراہ عمرے کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب گئے تھے۔
وہ کہتے ہیں ’جب میں نے کعبہ کو دیکھا تو سوچا کہ میں تو ایک عام جاپانی تھا جو سیکولر ہوا کرتا تھا، جس کا کوئی مذہب نہیں تھا اور جس کی زندگی اسلام کی تعلیمات سے کوسوں دور تھی۔‘
تانڈا کا کہنا ہے کہ جاپان میں مسلمانوں میں اضافہ ملک میں طلبا اور کارکنوں کی بڑھتی ہوئی تعداد سے مطابقت رکھتا ہے
ان کے مطابق ’کون سوچ سکتا تھا کہ میرے جیسا شخص خدا کے گھر کے سامنے کھڑا ہو گا۔ ہر چیز کا کنٹرول اسی ذاتِ باری تعالیٰ کے پاس ہے یہ بات میں کبھی نہیں بھولوں گا۔‘
کیجی کا کہنا ہے کہ اپنے گھر میں اکیلے مسلمان ہونے کی وجہ سے وہ عید جیسے تہواروں پر گھر نہیں جاتے بلکہ ’میں اپنی اہلیہ کے ساتھ عید مناتا ہوں۔ جن کا تعلق انڈونیشیا سے ہے۔‘
کیجی کے مطابق اس کے علاوہ وہ مسجد میں دیگر مسلمانوں کے ساتھ یہ تہوار مناتے ہیں مگر اس مرتبہ کووڈ کے تناظر میں عائد پابندیوں کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں ہوا۔
جاپان میں موجود دو لاکھ سے زیادہ مسلمانوں میں سے 50 ہزار جاپانی ہیں جنھوں نے اسلام قبول کیا ہے
کیجی کی اہلیہ یوسین پٹیلوکا کا کہنا ہے کہ ’کیجی ایک عبادت گزار شخص ہیں جو قانون کے مطابق زندگی گزارنے کی کوشش کرتے ہیں۔’
مستقبل کے ارادوں پر بات کرتے ہوئے کیجی نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ جاپانی کمیونٹی میں اسلام کی نیکی کا پیغام پھیلائیں۔
جاپان کی 100 سے زائد مساجد اور نماز کی ادائیگی کے مقامات میں سے ، قدیم ترین مسجد 1935 میں ترکی اور ہندوستان سے آنے والے افراد نے تعمیر کروائی تھی۔
وسیدا یونیورسٹی کے پروفیسر تانڈا ہیروفیومی کی تحقیق کے مطابق 1980 کی دہائی کے آخر میں جاپان میں صرف تین مساجد تھیں۔
تاہم 1980 کی دہائی کے وسط کے بعد ایران، پاکستان اور بنگلہ دیش کے ساتھ ساتھ دیگر مسلمان آبادی والے ممالک کے بہت سے کارکن جاپان آئے۔
جاپان میں اس وقت مساجد کی تعداد 100 سے زیادہ ہے
ان میں سے بہت سے تعمیراتی شعبے اور دیگر شعبوں میں کام کرنے آئے تھے۔
اس کے علاوہ ، تانڈا کی تحقیق کے مطابق ، بہت سے افراد انڈونیشیا سے بھی مزدور کی حیثیت سے آئے تھے اور اس آمد کے ساتھ ہی، 1990 اور 2000 کی دہائی میں، مساجد کی تعداد مزید بڑھ گئی۔
اس سے پہلے ، جاپان میں مساجد ایسے علاقوں میں تھیں جہاں کارخانے واقع تھے جیسے کہ ٹوکیو میں اور اس کے آس پاس ، ناگویا کے آس پاس چوکیو کا علاقہ اس کے ساتھ ساتھ اوساکا اور کیوٹو بھی۔
شیبویا میں جاپان کی سب سے بڑی مسجد ، ٹوکیو کامی میں نماز جمعہ کے لیے لگ بھگ 700 افراد کی جگہ ہے اور یہاں آنے والے نمازی جنوب مشرقی ایشیا، عرب دنیا اور افریقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔
پروفیسر تانڈا کے مطابق، حالیہ دنوں میں، بڑی تعداد میں مسلمان آبادی والے ممالک خاص طور پر بڑے شہروں میں زیادہ سے زیادہ طلبا آئے ہیں اور یہی وہ جگہ ہے جہاں نئی مساجد تعمیر ہوئی ہیں۔
پروفیسر تانڈا نے اندازہ لگایا ہے کہ جاپان میں موجود دو لاکھ سے زیادہ مسلمانوں میں سے 50 ہزار جاپانی ہیں جنھوں نے اسلام قبول کیا ہے اور ان میں وہ لوگ بھی ہیں جنھوں نے اپنے جیون ساتھی کے مسلمان ہونے کی وجہ سے اس مذہب کا انتخاب کیا۔
Comments are closed.