جب اسرائیل کے وزیر خارجہ موشے دایان بھیس بدل کر انڈیا کے خفیہ دورے پر آئے
- مصنف, شکیل اختر
- عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، دلی
انڈیا عرب-اسرائیل تنازع کی ابتدا سے ہی عرب ممالک کے ساتھ تھا۔ انڈیا نے اسرائیل کو تسلیم تو کیا لیکن فلسطینیوں کی حمایت میں اس نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم نہیں کیے اور اسرائیل اس حوالے سے مسلسل کوشاں تھا۔
سنہ 1977 کے انتخابات میں کانگریس پارٹی اور اندرا گاندھی کی شکست کے بعد جب جنتا پارٹی کی حکومت بنی اور مرار جی دیسائی وزیر اعظم بنے تو اسرائیلی قیادت میں یہ امید پیدا ہوئی کہ نئی حکومت کی پالیسیاں کانگریس سے مختلف ہوں گی۔
تاہم نئی قیادت سے رابطہ کیسے قائم ہو یہ ایک مسئلہ تھا۔ انڈیا میں کوئی بھی رہنما اور سیاسی جماعت اسرائیل سے بات کرنے کا سیاسی خطرہ مول نہیں لے سکتی تھی۔
اس پسِ منظر میں اسرائیل کے اس وقت کے وزیر خارجہ جنرل موشے دایان بھیس بدل کر انتہائی رازداری سے دلی آئے۔
انھوں نے دلی میں وزیر اعظم مرار جی دیسائی اور وزیر خارجہ اٹل بہاری واجپئی سے بات چیت کی لیکن واپسی پر طیارے میں ایک انڈین مسافر نے انھیں پہچان لیا۔
اسرائیل کے وزیر دفاع کے اس دورے کا راز اپریل 1979 میں اس وقت افشا ہوا جب امریکہ کے ایک اخبار نے اس دورے کی تفصیل شائع کر دی۔
13 جون 1979 کو ’جیوئش ٹیلیگرافک ایجنسی‘ نے اسرائیل میں اس خفیہ دورے کا راز افشا کرتے ہوئے خبر دی کہ ’خبر رساں ایجنسی کو ایک معتبر شخص سے معلوم ہوا ہے کہ اسرائیل اور انڈیا کے رشتوں کے جمود کو توڑنے کے لیے دونوں ملکوں کے اعلیٰ رہنماؤ ں کے درمیان خفیہ ملاقاتیں ہوئی ہیں۔
’اس کے لیے اسرائیل کے وزیر خارجہ موشے دایان نے 1977 میں بھیس بدل کر انڈیا کا خفیہ کا دورہ کیا تھا۔‘
ایجنسی نے مزید لکھا تھا کہ ’انڈیا کی حکمراں جنتا پارٹی کے ایک اعلی رہنما نے جو اسرائیل کے بہت بڑے حمایتی ہیں بتایا ہے کہ موشے دایان کے انڈیا کے خفیہ دورے کا مقصد دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات کی راہ ہموار کرنا تھا۔‘
ایجنسی کے مطابق ’گذشتہ مہینے بھی ایک اور میٹنگ کا انتظام کرنے کی کوشش کی گئی تھی لیکن موشے دایان نے بظاہر دوبارہ بھیس بدل کر انڈیا جانے سے انکار کر دیا تھا۔‘
امریکہ اور اسرائیل کے بعد یہ خبر انڈیا پہنچ گئی۔ معلوم ہوا کہ انڈیا میں جنتا پارٹی کے سابق وزیر سبھرامنیم سوامی نے اس میٹنگ کا راز افشا کیا تھا۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
اسرائیل کے اس وقت کے وزیر خارجہ جنرل موشے دایان بھیس بدل کر انڈیا آئے اور انڈین وزیراعظم سے ملاقات کی
ان کے حوالے سے بتایا گیا تھا کہ وزیر خارجہ اٹل بہاری واجپئی نے اسرائیلی رہنماؤں سے دو اور ملاقاتیں کی تھیں۔ انڈیا میں اس خبر پر ہنگامہ ہو گیا۔
اندرا گاندھی نے الیکشن کے دوران اس معاملے کو انتخابی مہم میں استعمال کیا۔ سبھرامنیم سوامی نے بی بی سی کے ذریعے رابطہ کیے جانے پر اس کے بارے میں کوئی بات کرنے سے انکار کر دیا۔
13 جون 1980 کو انڈیا کی پارلیمنٹ میں اس کے بارے میں سوالات کیے گئے۔ اس وقت کانگریس دوبارہ اقتدار میں آ چکی تھی اور نرسمہا راؤ ملک کے وزیر خارجہ تھے۔
راجیہ سبھا یعنی ایوان بالا میں وقفہ سوالات کے دوران ان سے پوچھا گیا کہ موشے دایان نے انڈیا کا کتنی بار دورہ کیا ہے اور ان دوروں کا کیا مقصد تھا؟
راجیہ سبھا کے ریکارڈ کے مطابق راؤ نے جواب دیا کہ ’حکومت کے پاس جو اطلاعات ہیں ان کے مطابق موشے دایان اگست 1977 میں مرار جی دیسائی اور اٹل بہاری واجپئی کی ایما پر انڈیا آئے۔
’وہ بمبئی میں اترے اور وہاں انڈین فضائیہ کے ہوائی جہاز سے دلی آئے۔ انھوں نے مرار جی دیسائی اور واجپئی سے ون اکبر روڈ کی عمارت میں ملاقات کی اور اگلے روز فضائیہ کے طیارے سے ممبئی واپس چلے گئے۔‘
جب ایک رکن نے ان سے پوچھا کہ خبر ہے کہ وہ 1978 اور 1979 میں بھی انڈیا آ چکے ہیں تو نرسمہا راؤ نے جواب دیا ’ہمارے پاس جو اطلاعات ہیں ان کی بنیاد پر ہم ان کے صرف ایک دورے کی تصدیق کر سکتے ہیں۔
’اگست 1977 کے بعد اگر ان کا کوئی دورہ ہوا ہے تو اس کے بارے میں ہمارے پاس کوئی مصدقہ اطلاعات نہیں ہیں۔‘
انڈیا نے عرب-اسرائیل مسئلے میں واضح طور پر فلسطینیوں اور عرب ممالک کی حمایت کا مؤقف اختیار کر رکھا تھا۔
غیر وابستہ ممالک کی تنظیم کے ارکان بھی اسرائیل کے خلاف تھے دنیا میں میں بس چند ممالک ایسے تھے جنھوں نے اسرائیل کو تسلیم کیا تھا اور اس سے سفارتی تعلقات قائم کیے تھے۔
اسرائیل کے لیے سفارتی سطح پر یہ ایک انتہائی سخت مرحلہ تھا۔ بحرین کے ایک محقق اور ایشیائی امور کے ماہر عبداللہ المدنی نے ’گلف نیوز‘ میں ستمبر 2003 میں انڈیا-اسرائیل تعلقات پر اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ ’سنہ 1966 میں اسرائیلی صدر شازار کا طیارہ نیپال جاتے ہوئے انڈیا کی فضا سے گزر رہا تھا۔ طیارے میں ایندھن بھرنے کے لیے اسے غیر متوقع طور پر کولکتہ کے ہوائی اڈے پر اترنا پڑا۔
’اسرائیل کے صدر وہ رات کولکتہ میں ہی گزارنا چاہتے تھے ۔ لیکن انڈیا کی حکومت نے ان کی درخواست مسترد کر دی اور بحیثیت صدر ان کا خیر مقدم کرنے کے لیے بھی ہوائی اڈے پر کسی اہلکار کو نہیں بھیجا۔‘
یہ ایک ایسا دور تھا جب انڈیا میں سیاسی اور عوامی سطح پر اسرائیل کی مخالفت بہت شدید تھی۔
اسرائیل کے وزیر خارجہ موشے دایان کا انڈیا کا خفیہ مشن رشتوں کے جمود کو توڑنے کی ایک کوشش تھی۔ سنہ 1981 میں موشے نے اپنی معروف کتاب ’دا بریک تھرو‘ میں انڈیا کے اس خفیہ دورے کا پہلی بار تفصیل کے ساتھ ذکر کیا تھا۔
موشے دایان کا انڈیا کے خفیہ مشن دونوں ممالک کے درمیان رشتوں میں بہتری لانے کے لیے ایک کوشش تھی
انھوں نے لکھا تھا کہ ’یہ ایک خفیہ مشن تھا اور یہ ان کے اسرائیلی بزنس مین دوست کے توسط سے ممکن ہو ا تھا۔
’انڈیا کی طرف سے بہت شدت کے ساتھ کہا گیا تھا اس دورے کو پوری طرح خفیہ رکھا جائے۔‘
موشے دایان اپنی ایک آنکھ میں میں چوٹ لگنے کے بعد ہمیشہ اس آنکھ کو کپڑے کی پٹی سے ڈھکے رہتے تھے۔
وہ بھیس بدل کر اطالوی ایر لائن ’ایل اٹالیہ‘ کی ایک پرواز سے ممبئی پہنچے۔ ممبئی سے دلی جانے کے لیے وہاں انڈین فضائیہ کا ایک طیارہ ان کا انتظار کر رہا تھا۔
انھوں نے لکھا ہے کہ ’طیارے میں انڈیا کی خفیہ ایجنسیوں کے اہلکار بھرے ہوئے تھے۔ حفاظتی انتظامات اتنے سخت تھے کہ میں نے ایسے مناظر پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔
’مجھے بتایا گیا کہ یہ انتظامات میرے تحفظ اور اس دورے کی رازداری کے لیے کیے گئے ہیں۔’
یہ 14 اگست 1977 کا دن تھا۔ دلی پہنچنے پر شام چار بجے موشے دایان کو ایک گیسٹ ہاؤس میں ٹھہرایا گیا۔
وزیر اعظم سے ملاقات شام ساڑھے سات بجے طے تھی۔ یہ ملاقات ون اکبر روڈ پر واقع وزیر اعظم کی سرکاری رہائش گاہ پر ہوئی۔
مرار جی دیسائی ویزیٹر روم میں موشے کا انتطار کر رہے تھے۔ کچھ ہی دیر میں وزیر خارجہ اٹل بہاری واجپائی بھی وہاں پہنچ گئے۔
موشے دایان نے اس ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’میٹنگ روم ایک سادہ کمرہ تھا۔ دیواروں پر کوئی تصویر آویزاں نہیں تھی۔ ایک چھوٹی سی میز رکھی ہوئی تھی۔
’ایک صوفا تھا اور عام طرح کی کچھ کرسیاں رکھی ہوئی تھیں۔ وزیراعظم دیسائی اور وزیر خارجہ واجپائی کے کپڑوں سے بھی سادگی ظاہر ہو رہی تھی۔
’دونوں نے روایتی سفید دھوتی اور کرتا پہن رکھا تھا۔ دیسائی نے انھیں اپنے پاس صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ کچھ ہی دیر میں چائے پیش کی گئی۔‘
وہ مزید لکھتے ہیں ’میں نے وزیر اعظم مناہیم بیگن کی جانب سے خوشحالی کے پیغام دینے کے بعد اپنی حال میں لکھی ہوئی کتاب انھیں پیش کی۔
’مرار جی دیسائی نے کتاب کا کور دیکھتے ہوئے اسے کھولنے سے پہلے اس کی قیمت پوچھی۔ میں نے جواب دیا 10 ڈالر ۔ انھوں نے کہا اوہ اتنی مہنگی۔‘
موشے دایان نے لکھا ہے کہ انھوں نے سفر کے دوران ہی اپنے ذہن میں بات چیت کا ایک خاکہ تیار کر رکھا تھا۔
اس ملاقات کے لیے شکریہ ادا کرنے کے بعد وہ بات چیت کےلیے تمہید شروع ہی کرنے والے تھے کہ دیسائی نے کہا ’کیا آپ جانتے ہیں کہ میں کیوں ملنا چاہتا تھا؟‘ اور پھر خود ہی اس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’کیونکہ وہ عرب خطے میں امن دیکھنا چاہتے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اسرائیلیوں نے نازیوں کے مظالم اور یورپی ممالک کے جبر کی تکالیف جھیلی ہیں لیکن ان مظالم کی قیمت فلسطینی کیوں ادا کریں۔‘
موشے دیان اسرائیل کی سابق وزیر اعظم گولڈا میر کے ساتھ
انھوں نے مزید کہا کہ ’پناہ گزینوں کو واپس بسانا ہو گا اور ہمیں مقبوضہ علاقے خالی کرنے ہوں گے اور جس کے بعد اسے فلسطینی ریاست کا درجہ دیا جائے گا۔‘
ان کی بات چیت سے واضح تھا کہ مرارجی دیسائی مقبوضہ علاقے سے اسرائیل کے انخلا اور ایک فلسطینی ریاست کے قیام کے بارے میں واضح طور پر واقف تھے۔
انڈیا اسرائیل کے تعلقات کے حوالے سے بھی ان کا موقف بہت سخت تھا۔
انھوں نے کہا کہ ’جب تک اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان امن کا معاہدہ نہیں ہو جاتا تب تک انڈیا اسرائیل کے ساتھ مکمل سفارتی تعلقات نہیں قائم کر سکتا۔
’انڈیا کو یہ فیصلہ آزادی کے فوراً بعد جب جواہر لعل نہرو اقتدار میں آئے تھے اسی وقت کر لینا چاہیے تھا۔‘
انھوں نے کہا کہ موجودہ حالات میں اسرائیل کو انڈیا میں دوسرا قونصل خانہ کھولنے کی بھی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
دیسائی نے کہا کہ ’انھوں نے صرف امن کے قیام کو فروغ دینے کے لیے اس ملاقات کا خطرہ مول لیا ہے۔
’اگر اس ملاقات کی خبر افشا ہو جائے تو مجھے اپنے عہدے سے ہاتھ دھونا پڑ سکتا ہے۔‘
اسرائیل کے وزیر خارجہ موشے دایان نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ’میں نے وضاحت کی کہ ہم کیوں فلسطینی ریاست کے قیام کے خلاف ہیں اور یہ کہ فلسطینی پناہ گزینوں کے مسلے کا حل یہی ہے کہ وہ اس وقت جہاں ہیں وہیں انھیں بسایا جائے بالکل اسی طرح جس طرح ہم نے ان 85 ہزار یہودیوں کو اسرائیل میں بسایا جو عرب ممالک سے یہاں آئے۔‘
موشے دایان مزید لکھتے ہیں کہ ’میں نے انڈیا اسرائیل کے تعلقات پر دلیل دیتے ہوئے سخت لہجے میں کہا کہ اگر وہ امن کے قیام میں مدد کرنا چاہتے ہیں تو انھیں دونوں فریقوں کو برابری کا درجہ دینا چاہیے۔
’اسرائیل سے انڈیا کے سفارتی تعلقات نہیں۔ ان حالات میں ان کی کوششیں کارگر نہیں ہو سکتیں۔‘
موشے نے لکھا ہے کہ ’اگرچہ دیسائی اور واجپئی سے کسی بھی پہلو پر اتفاق نہیں ہو سکا لیکن یہ گفتگو پُرخلوص ماحول میں ہوئی۔
’بات چیت کا سلسلہ کسی تیسرے ملک میں جاری رکھنے کے ارادے کے ساتھ یہ خفیہ ملاقات ختم ہوئی۔ رات میں موشے جب اپنے گیسٹ ہاؤس واپس پہنچے تو انھیں مشروبات کے بعد مسالے دار انڈین کھانا پیش کیا گیا۔‘
وہ لکھتے ہیں کہ ’کھانے کے بعد میرے پیٹ میں زبردست جلن پیدہ ہو گئی۔ جو کساٹا آئس کریم کھانے کے بعد ختم ہوئی۔‘
موشے دلی سے ممبئی دوبارہ وزیر اعظم کے طیارے میں گئے۔ روانہ ہونے سے قبل دیسائی نے قدیم طرز کے چاندی کے کے برتن تحفے کے طور پر دینے کی خواہش ظاہر کی لیکن موشے نے اسے نرمی کے ساتھ قبول کرنے سے انکار کر دیا۔
ممبئی سے اسرائیل کے لیے موشے نے ایک کمرشل فلائٹ لی۔
موشے نے لکھا ہے کہ ’طیارے پر سوار ہوتے وقت میں نے بہت گہرا کالا چشمہ پہن لیا تھا اور سر پر ایک بڑا ہیٹ لگا رکھا تھا تاکہ کوئی پہچان نہ سکے۔
’حالانکہ رات میں طیارے کے اندر اس طرح کا حلیہ بنا کر بیٹھنا عجیب تھا۔ مجھے پورا اعتماد تھا کہ مجھے کوئی پہچان نہیں سکے گا۔ اسی اعتماد کے کے ساتھ کچھ ہی دیر بعد جب ہلکی سی نیند کا جھونکا آنے ہی والا تھا کہ ایک مسافر میرے پاس آیا اور کہا ’گڈ ایوننگ مسٹر دایان‘ اور مجھ سے میرا آٹو گراف مانگا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’میں نے بہت غصے میں اسے واپس بھیج دیا۔ وہ بھی سبکی کے ساتھ واپس چلا گیا۔ میں اس کے سامنے کیسے وضاحت کرتا کہ میرا غصہ اس پر نہیں تھا بلکہ اس بات پر تھا کہ میں اپنے ’آپریشن بہروپ‘ میں ناکام ثابت ہوا تھا جس کے بارے میں میرا خیال تھا کہ اس میں مجھے کوئی نہیں پہچان سکے گا۔‘
موشے انڈیا کے سفر کے بعد اس خفیہ مشن سے بہت مایوس لوٹے تھے۔
انڈیا نے بعد میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرتے ہوئے دلی میں فلسطینی سفارتخانہ کھولنے کی اجازت دی۔ انڈیا اور اسرائیل کے رہنماؤں کو امریکہ اور یوروپی ممالک میں اکثر بات چیت کے مواقع ملے جس سے تعلقات میں بہتری آتی گئی۔
اسرائیل کے کئی عرب ممالک سے امن معاہدہ ہو چکا تھا۔ سابق سفارتکار رونین سین نے بی بی سی کو بتایا کہ ’راجیو گاندھی نے 1988 میں دمشق کا دورہ کیا تھا جہاں انھوں نے صدر حافظ الاسد سے مفصل بات چیت کی تھی۔ اسی برس انھوں نے فلسطین کو ریاست کے طور پر باضابطہ طور پر تسلیم کیا اور دلی میں فلسطینی سفارتخانے کے قیام میں ذاتی طور پر مدد کی۔
’راجیو چاہتے تھے کہ اسرائیل سےمکمل سفارتی تعلقات قائم کیے جائیں لیکن یہ اس وقت ممکن نہیں ہو سکا۔‘
سین نے کہا کہ ’بدلتے ہوئے حالات اور مجھ سمیت راجیو گاندھی کے معاونین کے بروقت قدم نہ اٹھانے کے سبب راجیو گاندھی کے دور اقتدار اور ان کے بعد دو اور مختصر حکومتوں کے دوران اسرائیل کو سفارتی طور پر تسلیم نہیں کیا جا سکا۔
’یہ کام بعد میں وزیر اعظم نرسہما راؤ نے بہت خوش اسلوبی سے انجام دیا۔ انھوں نے جنوری 1992 میں فلسطینی رہنما یا سر عرفات کو انڈیا آنے کی دعوت دی۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’راؤ نے اپنی رہائش گاہ پر یاسر عرفات کو بتایا کہ انڈیا نے تل ابیب میں اپنا سفارتخانہ کھولنے کا فیصلہ کیا ہے۔ دراصل انھوں نے اس کے لیے یاسر عرفات کی بھی منظوری حاصل کی۔‘
سنہ 1992 میں انڈیا اور اسرائیل کےدرمیان سفارتی تعلقات قائم ہوئے۔ اس وقت سے دونوں ملکوں کے تعلقات مضبوط ہوتے گئے ہیں۔ عرب ممالک سے بھی انڈیا کے تعلقات بہت گہرے ہیں۔ انڈیا اب بھی اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان امن کے قیام کا حامی ہے۔
Comments are closed.