اسلام آباد ہائیکورٹ نے بلاگر صحافی مدثر نارو اور دیگر لاپتہ افراد کے بازیابی کیسز میں ریمارکس دیئے کہ جبری گمشدگی پر دہشتگردی کی دفعات لگتی ہیں، جبری گمشدگی بغاوت ہے، اس پر بغاوت کا مقدمہ بنتا ہے، آئین کے تحت چلنے والے ملک میں جبری گمشدگیاں ناقابل قبول ہیں۔
صحافی مدثر نارو اوردیگر لاپتہ افراد کے بازیابی کیسز کی سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ میں جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کی ۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ سیکیورٹی اداروں نے بہت کوشش کی مگر مدثر نارو کا کچھ پتہ نہیں چلا، عدالت نے سوال کیا کہ کیا مدثر نارو کو تلاش نہ کر پانا ریاستی اداروں کی ناکامی ہے؟
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے ریمارکس دیئے کہ اگر ریاستی ادارے ایگزیکٹو کے کنٹرول میں نہیں تو ایگزیکٹو ذمہ دار ہے، کیوں نہ چیف ایگزیکٹو کو ذمہ دار ٹھہرائیں؟ کیا وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی مرضی کے بغیر کسی کو لاپتہ کیا جاسکتا ہے؟ نہیں کیا جاسکتا۔
ہائیکورٹ نے کہا کہ لوگوں کا مسنگ ہوجانا ریاست کی نااہلی ہے، پھر وہ ٹریس بھی نہیں ہو پاتے، حالت یہ ہے کہ بلوچستان کے طلبہ کب سے بیٹھے ہیں حکومت پر کوئی اثر نہیں پڑا، آج تک کسی کو جوابدہ نہیں ٹھہرایا گیا۔ا
Comments are closed.