اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے ریمارکس دیے ہیں کہ جبری گمشدگیوں کے کیس میں مشکل یہ ہے کہ ریاست خود ملوث ہو تو تفتیش کون کرے گا۔
اسلام آباد سے لاپتہ صحافی و بلاگر مدثر نارو کی بازیابی کیس میں ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ جبری گمشدگیوں کے معاملے میں یہ عدالت، وکیل، صحافی یا کوئی اور تفتیش نہیں کرسکتا۔
عدالت نے کہا کہ وفاقی حکومت کا واضح پیغام آنا چاہیے کہ اس معاملے کو برداشت نہیں کیا جائے گا، جبری گمشدگیاں آئین سے انحراف کے مترادف ہیں۔
چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ کا کہنا تھا کہ وہ بچہ یقیناً شمالی علاقہ جات تو نہیں گیا تھا، کم از کم معاملہ انویسٹی گیٹ ہوجاتا تو لوگوں کو اعتماد ہوتا۔
انہوں نے ریمارکس دیے کہ جبری گمشدگی پر ایک چیف ایگزیکٹو نے کتاب میں لکھا کہ یہ پالیسی تھی۔
اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ وہ غاصب تھے، انہیں منتخب چیف ایگزیکٹوز کے ساتھ نہ ملایا جائے، وہ تو مکا بھی دکھا رہے تھے اور اب مفرور ہیں۔
اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ نواز شریف، یوسف رضا گیلانی اور عمران خان سمیت کسی کی یہ پالیسی نہیں تھی کہ لوگوں کو غائب کیا جائے۔
عدالت نے جبری گمشدگی کیسز کی موثر تفتیش کیلئے 3 ہفتوں کی مہلت دے دی۔
Comments are closed.