جاپان کے ’بابائے سرمایہ کاری‘ جنھوں نے اپنے ملک کو مغربی طاقتوں کے برابر لا کھڑا کیا،تصویر کا ذریعہFine Art Images/Heritage Images via Getty Images
،تصویر کا کیپشناییچی شیبوساوا
ایک گھنٹہ قبلایک وقت وہ تھا جب جاپان میں اقتدار کے ایوانوں میں موجود لوگ تاجروں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔تاریخ دان جان ایچ سیجرز کہتے ہیں کہ بعض لوگ انھیں ’معاشرے کا خون چوسنے‘ والے افراد سے تشبیہ دیتے تھے۔لوگوں کے تاجروں کے بارے میں یہ خیالات 1603 سے لے کر 1867 تک کے ایڈو دور میں تھے جب جاپان میں ٹوکوگاوا خاندان کی حکومت تھی۔ لیکن اس زمانے میں ایک شخص تھا جس نے لوگوں کے خیالات اور نظریات بدلنے کا عزم کیا۔لنفیلڈ یونیورسٹی کے پروفیسر جان سیجر لکھتے ہیں کہ ‘جدید جاپانی کاروباری رہنماؤں کی زیادہ مثبت تصویر بنانے کے لیے اییچی شیبوساوا نے ایسے نظریات پیش کیے جسے وہ ‘اخلاقیات اور معاشیات کا مجموعہ’ کہتے تھے تاکہ وہ کنفیوشنزم کے نظریات اور اخلاقیات کو مارکیٹ میں رائج سرمایہ دارانہ نظام سے ہم آہنگ کر سکیں۔’

ہارورڈ بزنس سکول کے پروفیسر جیفری جونز نے بی بی سی منڈو کو بتایا کہ شیبوساوا نے ایک ایسے ملک میں نیا معاشی نظام بنانے میں مدد کی جو ‘250 سالوں سے (دنیا کے لیے) بند تھا۔وہ کہتے ہیں کہ ‘جاپان ترقی یافتہ مغربی ممالک کے مقابلے میں بہت پسماندہ تھا۔’شیبوساوا ملک میں تبدیلی لانے کے اس عمل سے منسلک واحد شخص نہیں تھے، لیکن انھوں نے اس تمام معاملے میں ایک کلیدی کردار ضرور ادا کیا اور اسی وجہ سے انھیں ‘جاپان میں سرمایہ دارانہ نظام کا بابا’ کہا جاتا ہے۔لندن سکول آف اکنامکس کی پروفیسر جینٹ ہنٹر نے بی بی سی منڈو کو بتایا کہ ‘شیبوساوا جاپان میں صنعت کاری کو فروغ دینے والے سرکردہ تاجر تھے۔ اگرچہ وہاں اور بھی تاجر تھے، لیکن وہ ان میں سب سے نمایاں تھے۔’

کنفیوشنزم

شیبوساوا 1840 میں ایک کاشتکار خاندان میں پیدا ہوئے تھے اور اس وقت جاپان میں جاگیردارنہ نظام رائج تھا۔ان کے والد اس بات کو یقینی بنانا چاہتے تھے کہ چینی فلسفی کنفیوشیس کے نظریات چھوٹی عمر سے ہی شیبوساوا کی تعلیم کا مرکز ہوں۔،تصویر کا ذریعہRischgitz/Getty Images

،تصویر کا کیپشنکنفیوشیس چینی فلسفی ہیں جن کی تعلیمات صدیوں تک بہت سے لوگوں کے لیے مشعل راہ رہی ہے
چینی فلسفی کنفیوشیس 551 قبل مسیح میں پیدا ہوئے تھے اور ان کے فلسفے کی بنیاد ایک ایسے اخلاقی نظام پر تھی جس میں سماجی ہم آہنگی پر زور دیا گیا تھا۔ ان کی تعلیمات میں ماضی سے سبق سیکھنے کی اہمیت کے ساتھ ساتھ مرتبے کے لحاظ اور والدین کی عزت کا درس شامل تھا۔کنفیوشنزم نظریات ایسی تحریروں پر مبنی ہیں جنھیں ’کنفیوشیس کلاسکس‘ کہا جاتا ہے۔ یہ تحریریں نہ صرف لوگوں کو انفرادی طور پر زندگی گزارنے کا طریقہ سکھاتی ہیں بلکہ معاشرے کو بھی بتاتی ہیں کہ لوگوں کے ساتھ کیسا برتاؤ کرنا چاہیے۔ٹوکیو یونیورسٹی میں معاشیات کے پروفیسر ماساکی ناکابایاشی نے بی بی سی منڈو کو بتایا: ‘شیبوساوا سامورائی طبقے میں تو پیدا نہیں ہوئے تھے بلکہ انھوں نے اپنی صلاحیتوں کے ذریعے اپنی حیثیت حاصل کی تھی۔ اس لیے وہ بعد میں شوگنیٹ دور کے حکمران سامورائی طبقے کے مفادات کے درمیان نہیں پھنسے۔’ایڈو دور میں شوگنیٹ فوجی حکومت کو دیا جانے والا نام تھا۔

بیرونی اور اندرونی جھگڑے

پروفیسر ماساکی یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ اپنی جوانی کے دور میں شیبوساوا نے یوکوہاما کی کھلی بندرگاہ میں تعینات مغربی تاجروں اور فوجیوں کے خلاف حملوں کی منصوبہ بندی بھی کی تھی۔تاہم انھوں نے ایسی کسی سرگرمی میں بذات خود حصہ نہیں لیا کیونکہ انھوں نے محسوس کیا کہ ضروری تبدیلیاں لانے کے لیے تشدد کا راستہ اپنانا درست نہیں ہے۔شیبوساوا کے لیے صرف بیرونی چیزیں ہی پریشانی کا باعث نہیں تھیں۔،تصویر کا ذریعہUniversal Images Group via Getty Images

،تصویر کا کیپشنپیرس میں جاپانی وفد
سیجرز کہتے ہیں کہ جب شیبوساوا بڑے ہوئے تو انھوں نے طاقتور ٹوکوگاوا خاندان کے قائم کردہ نظام کو ‘طاقت کے غلط استعمال کی حوصلہ افزائی کرتے اور دوسرے لوگوں کی صلاحیتوں کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے دیکھا۔’اخلاقی تربیت حاصل کرنے کے ساتھ کنفیوشیس کے کلاسکس کا مطالعہ کرنے سے شیبوساوا کو اعلیٰ درجے کے سامورائی طبقے اور اشرافیہ کے قریب آنے کا موقع ملا۔سیجرز کہتے ہیں کہ انھوں نے اپنے آپ کو ٹوکوگاوا خاندان کے اس گروہ کی خدمت میں پیش کرنے کا فیصلہ کیا جو ملک میں اصلاحات کرنا چاہتا تھا۔جب شیبوساوا 27 برس کے ہوئے تو انھیں سنہ 1867 میں پیرس میں ہونے والی بین الاقوامی نمائش میں سرکاری وفد کے ساتھ سفر کرنے کے لیے منتخب کیا گیا۔پروفیسر ہنٹر کہتی ہیں کہ: ‘یہ وہ وقت تھا جب جاپانی لوگ بمشکل بیرون ملک سفر کرتے تھے، شیبوساوا ایک بہت چھوٹے سے طبقے کا حصہ تھے جنھیں یہ موقع ملا۔‘’پہلے تو وہ جانا ہی نہیں چاہتے تھے اور کہتے تھے کہ آخر میں جاپان کیوں چھوڑوں؟ لیکن پھر انھیں کبھی بیرونِ ملک سفر کرنے پر پچھتاوا نہیں ہوا۔’برسوں بعد بھی وہ شوق سے اپنے یورپ کے تقریباً ایک سال کے قیام کو یاد کرتے تھے۔

سفر

شیبوساوا نے اپنے یورپ کےدورے کے دوران صنعتی اور سائنسی انقلابات کے نتائج کا مشاہدہ کیا۔جیفری جونز کا کہنا ہے کہ فرانس میں شیبوساوا نے ٹیکنالوجی اور کاروباری نظام دونوں کو دیکھا اور ان کا ایمان پختہ ہو گیا کہ ملٹی سٹیک ہولڈر کمپنیاں خاندانوں کے تحت چلنے والی کمپنیوں سے زیادہ بہتر طریقے سے کام کرتی ہیں۔،تصویر کا ذریعہUniversal Images Group via Getty Imagesپروفیسر جونز نے کہا کہ: ‘میرے خیال میں فرانس میں حاصل کیے گئے تجربے نے ان کے خیالات کی تشکیل میں واقعی اہم کردار کیا تھا۔’ماساکی کا کہنا ہے کہ ‘مغرب کے جدید اداروں کا مطالعہ کرنے کے بعد ہی وہ جاپان میں مغربی اداروں کے نظام کو متعارف کروانے کے حامی بنے۔’ان کے پس منظر اور تاریخ نے انھیں طبقات پر مبنی معاشرے کی جگہ ایک آزاد اور متحرک معاشرے کو فروغ دینے پر مجبور کیا۔ اپنی قوم کے ساتھ ان کی وابستگی نے جاپانی شناخت کو کمزور کیے بغیر ملک کو مغربی معیار پر استوار کرنے میں ان کی رہنمائی کی۔’سیجرز کہتے ہیں کہ شیبوساوا کی توجہ ایک چیز کی جانب گئی کہ ‘یورپی معاشروں میں تاجروں اور صنعتی رہنماؤں کو اعلی درجہ ملا ہوا تھا، جبکہ جاپان میں ٹوکوگاوا حکام وہاں کے تاجروں کو حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے۔‘شیبوساوا نے اس تضاد پر غور کیا اور اسے ان الفاظ میں بیان کیا: ‘قوم کو مالدار کرنے کے مشن میں اہلکاروں اور عوام کو متحد کرنے کے لیے حکام کی تعظیم اور لوگوں کو حقیر سمجھنے کی روایت کو ختم کرنا ہوگا۔ ایک نئے دور کے آغاز کے لیے ایسا کیا جانا ضروری ہے۔’،تصویر کا ذریعہKiyoshi Ota/Bloomberg via Getty Images

،تصویر کا کیپشنشیبوساوا کا قائم کردہ بینک

کنفیوشنزم کی از سر نو تشریح

کنفیوشنزم نظریات میں اخلاقی کردار کو بہت اہمیت دی جاتی ہے اور یہ کرادار لوگوں کے ساتھ نیک سلوک کر کے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔جیفری جونز کہتے ہیں کہ ‘شیبوساوا نے کنفیوشن ازم کو ایک نیا موڑ دیا۔”روایتی کنفیوشن ازم کی نظر میں پیسہ بنانا سب سے کم نیک کام تھا۔”شیبوساوا کنفیوشنزم کی دوبارہ تشریح کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پیسہ کمانا اور قوم کی خدمت کرنا ایک نیکی ہے۔ لہذا وہ ہمیشہ کاروبار کو وسیع تر نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں۔ ان کے مطابق اس کا مقصد ملک اور برادری کو ایک بہتر مقام تک لے جانا ہے۔’ان کے نزدیک کاروبار کے ذریعے حاصل ہونے والی خوشحالی اور دولت اچھی چیز تھی۔ان کی فکر کو سمجھنے کے لیے تاریخی پس منظر کو یاد رکھنا ضروری ہے۔’وہ ایک ایسے جاپان کی بات کر رہے ہیں جو جاگیردارانہ تھا، جسے امریکیوں نے اپنی سرحدیں کھولنے پر مجبور کیا، جس نے چین کی طرح اپنے ارد گرد کے ممالک کو مغرب کی کالونیوں میں بدلتے یا ذلیل و خوار ہوتے ہوئے دیکھا۔’اس طرح ‘جاپان کو اس راستے پر جانے سے روکنے میں کاروبار کا کردار’ ان کی فکر میں مرکزی حیثیت اختیار کر گیا۔

کنفیوشنزم اور اقتصادی نظریات کا مِلاپ

کنفیوشنزم کے نقطہ نظر سے تجارتی سرگرمی کی دوبارہ تشریح کرنے کے علاوہ شیبوساوا نے اقتصادی نظریات کواس کے ساتھ جوڑ دیا۔ہنٹر کا کہنا ہے کہ ‘تاریخی طور پر کنفیوشیس کے نظریات کے مطابق جو اقتدار میں ہیں چاہے وہ معاشی طور پر ہوں یا سیاسی طور، انھیں ایسے لوگوں کا خیال رکھنا چاہیے جو ان کی طرح خوش قسمت نہیں۔’شیبوساوا میں یہ خصوصیات تھیں کیونکہ وہ کاروبار چلاتے تھے اور اپنے کارکنوں کی دیکھ بھال میں یقین رکھتے تھے۔’،تصویر کا ذریعہPrint Collector/Getty Images’کنفیوشس کے نظریات کو استعمال کرنے کی ان کے پاس وجہ یہ تھی کہ جب کاروبار کرنے کی بات آتی ہے تو اس میں صرف پیسہ کمانے کے علاوہ اور بھی بہت کچھ کرنا ہوتا ہے۔’اس کا ایک وسیع تر سماجی مقصد ہونا ضروری ہے اور یہ ان خیالات پر پورا اُترتا ہے جو کنفیوشنزم میں طویل عرصے سے موجود ہیں۔ شیبوساوا نے یہ کیا کہ انھوں نے تمام چیزوں کو ایک ساتھ ضم کر دیا۔’ان کے نزدیک اخلاقیات اور اقتصادیات ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ لہذا کاروباری میدان میں کریئر کی ترقی ایک بہت مثبت چیز تھی کیونکہ اس سے قوم کی فلاح و بہبود کو فروغ ملے گا۔سیجر اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ یہ سب ‘کنفیوشیس کی وفاداری کی تعلیمات اور عوامی خدمت کی قدیم اقدار کے مطابق تھا۔’

کنفیوشیس سرمایہ داری

جونز بتاتے ہیں کہ مغربی اصطلاحات میں سے شیبوساوا اس بات پر یقین رکھتے تھے جسے ہم سٹیک ہولڈر کیپٹلزم یا اخلاقی سرمایہ داری کہتے ہیں۔’میرا ماننا ہے کہ کاروبار کا مقصد پوری برادری کی فلاح ہے اور کمپنیوں کو ہمیشہ ہر ایک سٹیک ہولڈر اور ملازمین کے ساتھ اپنے رویے میں اخلاق کو مدِنظر رکھنا چاہیے۔ کاروبار یا تجارت ملک میں مجموعی طور پر خوشحالی لانے میں مدد کرتے ہیں۔’شیبوساوا کے لیے ‘اخلاقیات کی کوئی قیمت نہیں تھی، لیکن یہ ایک کامیاب نظام کی تعمیر کے لیے ضروری تھیں۔’سیجرز کے مطابق اپنے پورے کریئر میں شیبوساوا نے سرمایہ داری کے ایک ایسے وژن کو فروغ دیا جس میں حصص رکھنے والوں اور مینیجرز کو بازار میں نجی منافع حاصل کرنے کا جائز حق حاصل تھا، لیکن صرف اس حد تک کہ ان کے اداروں سے پوری قوم کو فائدہ پہنچے۔انھوں نے جاپان کا پہلا جدید ڈائی-ایچی بینک قائم کیا اور تقریباً 500 کمپنیاں قائم کرنے میں بھی مدد کی۔ ان میں سے کئی کمپنیاں جاپانی معیشت کو جدید بنانے میں اہم کردار ادا کرتی رہی ہیں۔کنفیوشیس کی سرمایہ داری کی سوچ کے بارے میں شیبوساوا کا نظریہ بالکل سیدھا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے کنفیوشیس کی اس نصیحت پر عمل کیا کہ وہ دوسروں کے ساتھ کبھی ایسا سلوک نہیں کرتے جیسا وہ اپنے ساتھ نہیں چاہتے۔کنفیوشیس کلاسکس کا مطالعہ کرتے ہوئے انھوں نے بچپن میں جو کچھ سیکھا اسے قومی ترقی کے خیال میں شامل کر دیا گیا۔،تصویر کا ذریعہUniversal Images Group via Getty Images

’جاپانی سرمایہ دارانہ نظام کے باپ‘

ماساکی بتاتے ہیں کہ شیبوساوا کو ‘جاپانی سرمایہ داری کا باپ’ سمجھا جاتا ہے، خاص طور پر ایسی کمپنیاں جن میں شیئرز کی تعداد زیادہ ہوتی ہے ان کے قیام میں انھوں نے بہت بڑا کردار ادا کیا۔ ان کے اقدامات نے 1880 کی دہائی میں جاپان میں صنعت کاری کو آگے بڑھایا۔’یہ کردار قابل ذکر تھا کیونکہ زیادہ تر جاپانی تاجر صنعتی سرمایہ دارانہ اداروں سے ناواقف تھے اور اس بات پر یقین نہیں رکھتے تھے کہ جاپان ایک صنعتی طاقت کے طور پر اپنے مغربی ہم منصبوں کا مقابلہ کر سکتا ہے۔’ماہرین کے خیال میں مثال کے طور پر جب جاپان کو 1859 میں آزاد تجارت کے نظام میں شامل ہونا پڑا تو اس کی کپاس کی صنعت انتہائی مسابقتی برطانوی اور ہندوستانی کپاس کی صنعتوں کے سامنے تقریباً ختم ہو چکی تھی۔جب 1883 میں جاپان میں اس شعبے میں کام کرنے والی کمپنیاں قائم ہوئیں تو زیادہ تر تاجروں کو اس کی کامیابی پر شک تھا۔شیبوساوا نے ان کمپنیوں کی کامیابی کی پیشین گوئی کرتے ہوئے سب سے پہلے ان امرا کو قائل کیا جو 1868 کی میجی بحالی تحریک سے پہلے جاگیردار تھے اور کہا کہ وہ اپنی سماجی ذمہ داری کے طور پر کمپنی میں سرمایہ کاری کریں۔’اس نئی صنعت سے پرانے جاگیردارں کی وابستگی نے تاجروں کو کمپنی میں سرمایہ کاری کرنے پر مجبور کیا۔’1930 کی دہائی تک جاپان نے برطانیہ کو دنیا کے سب سے بڑے کپاس سپلائی کرنے والے ملک کے طور پر پیچھے چھوڑ دیا تھا۔،تصویر کا ذریعہStanislav Kogiku/SOPA Images/LightRocket via Getty Images

،تصویر کا کیپشندس ہزار کی کرنسی پر شیبوساوا کی تصویر

شفافیت

پروفیسر ماساکی بتاتے ہیں کہ مارکیٹ میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے سے سرمایہ داروں کا ڈر ختم ہوتا ہے۔’شیبوساوا نے یہ کردار ادا کیا، اسی لیے انھیں جاپانی سرمایہ داری کا بابا سمجھا جاتا ہے۔‘’وہ سرمایہ داری میں شفافیت اور کھلی منڈی کی معیشت پر یقین رکھتے تھے، جو ان کے مطابق اس وقت حقیقت بن جائے گی جب عام لوگ اس کی خوبیوں سے آگاہ ہو جائیں گے۔’شیبوساوا ایک ‘نیم سرمایہ دارانہ معیشت پر یقین نہیں رکھتے تھے جس کا انحصار حکومت کے ساتھ قریبی تعلقات پر تھا۔”ڈیپلی ریسپانسبل بزنس’ نامی کتاب کے مصنف جونز کہتے ہیں کہ گذشتہ 10، 15 سالوں میں جب سے ای ایس جی کی سرمایہ کاری دنیا بھر میں زیادہ مقبول ہوئی ہے شیبوساوا کو پھر سے یاد کیا جا رہا ہے۔ای ایس جی کا مخفف ماحولیات، سماج اور گورننس ہے، جو سماجی طور پر ذمہ دارانہ سرمایہ کاری کے تصور کو پیش کرتا ہے۔’شیبوساوا کے خیالات پر دوبارہ بحث ہو رہی ہے، مجھے لگتا ہے کہ ان کی موت کے تقریباً 50 سال بعد بھی ان کے حوالے سے بات ہو رہی ہے۔’تین جولائی کو جاپان ٹائمز نے اطلاع دی کہ کئی دہائیوں بعد پہلی بار جاپان کے پاس بینک نوٹوں کا مکمل طور پر نیا مجموعہ چھاپا گیا ہے۔ان میں سے ایک کرنسی نوٹ پر شیبوساوا کی تصویر بھی ہے۔ یہ وہ شخص ہے جو اس بات پر یقین رکھتا تھا کہ ‘اخلاقیات اور معاشیات لازم و ملزوم ہیں۔’
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}