جاپان میں مسلمان اپنے پیاروں کی تدفین کے لیے پریشان: ’لاشوں کو دفنانے سے زیر زمین پانی آلودہ ہو جائے گا‘،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, سوامیناتھن نٹراجن
  • عہدہ, بی بی سی نیوز
  • ایک گھنٹہ قبل

جاپان میں مسلمان برادری ایک چھوٹی سی اقلیت ہیں اور اس بات کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ 12 کروڑ سے زیادہ کی آبادی والے ملک میں مُسلمانوں کی تعداد صرف 2 لاکھ ہے۔ننانوے فیصد جاپانی شہریوں کی لاشوں کو بدھ مت یا شنتو روایت کے مطابق نظرِ آتش کر دیا جاتا ہے۔ مگر اس معاملے میں مسلمان مشکلات کا شکار ہیں۔ مذہبِ اسلام میں مر جانے والوں کو جلانے کی مُمانعت ہے تاہم اس کے برعکس مسلمان عام طور پر 24 گھنٹوں کے اندر میت کو دفن کر دیتے ہیں۔ جاپان میں بعض خاندان اپنے مرنے والوں کو مناسب اور اسلامی طریقے سے دفن کرنے کے لیے سینکڑوں کلومیٹر تک کا سفر کرنے پر مجبور ہیں۔ 2001 میں پی ایچ ڈی کرنے کے لیے جاپان پہنچنے والے طاہر عباس خان کہتے ہیں کہ ’یہ سوچ کر ہی راتوں کی نیند اُڑ جاتی ہے کہ اگر مُجھے اپنے کسی قریبی کی تدفین کرنی پڑ گئی تو میں کیا کروں گا۔‘پاکستانی نژاد یونیورسٹی لیکچرار اب ایک جاپانی شہری ہیں اور اپنی کمیونٹی میں سرگرم ہیں جہاں انھوں نے بیپو مسلم ایسوسی ایشن قائم کی ہے۔

،تصویر کا ذریعہRyoko Sato

طویل جدوجہد

ڈاکٹر خان کا کہنا ہے کہ انھیں اس بات کی کوئی خاص فکر نہیں ہے کہ ان کے اپنے جسم کے ساتھ کیا ہوتا ہے لیکن وہ دوسروں کے درد کے بارے میں سوچ کر پریشان ہو جاتے ہیں۔اُن کا کہنا ہے کہ ’آخری رسومات وہ واحد اور آخری چیز ہے جو آپ کسی جانے والے اپنے پیارے شخص کے ساتھ کر سکتے ہیں۔ اگر میں اپنے کسی رشتہ دار یا دوست کی باعزت طور پر تدفین کرنے میں ناکام رہا تو میں نارمل زندگی نہیں گزار سکوں گا۔‘ جنوبی کیوشو جزیرے پر واقع اوئتا پریفیکچر میں پہلی مسجد 2009 میں قائم کی گئی تھی لیکن اُس کے بعد سے سنہ 2000 تک مسلم کمیونٹی کے لیے اپنے پیاروں کی تدفین کے لیے قبرستان کی زمین کا حصول مُشکلات کا شکار رہا۔محمد اقبال خان اپنی اہلیہ کے ہمراہ 2004 میں پاکستان سے جاپان آئے تھے۔ انھوں نے ٹوکیو کے قریب کار برآمد کرنے کا کاروبار شروع کیا اور بعد میں انھوں نے اسے دوسرے شہر فوکواوکا منتقل کر دیا۔ 2009 میں جب ان کے بچے کی دورانِ حمل وفات ہوئی، تو ان کے پڑوس میں کوئی ایسی جگہ یا قبرستان نہیں تھا کہ جہاں وہ اپنے بچے کی تدفین کر سکتے۔ اقبال اُس مُشکل وقت اور صدمے کی حالت کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’ہم نے اپنے وفات پا جانے والے بچے کی میت کو ایک چھوٹے سے ڈبے میں رکھا اور گاڑی میں یاماناشی کا سفر کیا، جو یہاں سے 1000 کلومیٹر دور ہے۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ’میرے ساتھ اس سفر میں میرے چار دوست تھے ہم سب نے باری باری گاڑی چلائی اور اپنی منزل پر پہنچے۔‘وسطی جاپان میں یاماناشی قبرستان ایک ایسی جگہ ہے کہ جسے مسلمان اور عیسائی دونوں ہی استعمال کرتے ہیں، جو جاپان میں دوسری اہم مذہبی اقلیت ہے، جو آبادی کا صرف ایک فیصد ہے۔اقبال کہتے ہیں کہ ’میں اس صدمے کے دوران اپنی بیوی کے ساتھ رہنا چاہتا تھا لیکن یہ ممکن نہیں تھا، یہ وقت انتہائی مُشکل تھا۔‘،تصویر کا ذریعہTahir Abbas Khan

تعلقات میں بہتری کی کوشش

ڈاکٹر خان کی ایسوسی ایشن نے بیپو میں مسیحی قبرستان کے کنارے زمین کا ایک پلاٹ خریدا۔ اس کے ساتھ والی زمین کے مالک لوگوں نے ’این او سی‘ دیا، لیکن 3 کلومیٹر دور رہنے والی قریب ترین برادری نے اس پر اعتراض کیا۔ ڈاکٹر خان کہتے ہیں کہ ’انھوں نے کہا کہ لاشوں کو دفنانے سے زیر زمین پانی کے ساتھ ساتھ جھیل کا پانی بھی آلودہ ہو جائے گا، جسے آبپاشی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔‘سات سالوں میں کچھ بھی آگے نہیں بڑھا ہے، جس کی وجہ سے کمیونٹی کے ممبران کو متبادل تلاش کرنے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔ ڈاکٹر خان کا کہنا ہے کہ ’کچھ مسلمان تارکین وطن نے اپنے اہل خانہ کی لاشوں کو وطن واپس بھیج دیا ہے۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ’ٹرمینل کینسر میں مبتلا دیگر افراد اپنے آخری دن اپنے آبائی ملک میں گزارنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔‘ تاہم، میت کو گھر لے جانے میں تفصیلی کاغذی کارروائی شامل ہوتی ہے اور لامحالہ تدفین میں تاخیر ہوتی ہے۔ اسلام قبول کرنے والی ایک جاپانی ریوکو ساتو کے لیے یہ آپشن نہیں ہے، جو کیوشو جزیرے پر رہتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اگر آپ جاپان کے قوانین پر عمل نہیں کرتے تو اپنے ملک واپس چلے جائیں۔ دوسروں کا کہنا ہے کہ میت کو ہمسایہ ممالک لے جائیں جہاں تدفین کی اجازت ہے۔‘ وہ کہتی ہیں ’میرے شوہر نے اپنی آدھی سے زیادہ زندگی جاپان میں گزاری ہے۔ انھوں نے بہت پہلے جاپانی شہریت حاصل کی تھی اور وہ مقامی طور پر پیدا ہونے والے جاپانیوں کی طرح اپنی ٹیکس ذمہ داریوں کو پورا کر رہے ہیں۔‘ ان کی اولاد جاپان میں ہی رہے گی تو آپ کے خیال میں ان کی موت کے بعد ان کا جسم کہاں ہونا چاہیے؟ساتو کا کہنا ہے کہ تدفین کی مخالفت کے پیچھے ’ثقافتی تعصب‘ ہے۔ ساتو کہتی ہیں کہ ’کچھ لوگ تدفین کے بارے میں اس طرح سوچتے ہیں جیسے یہ کوئی خوفناک یا شرمناک چیز ہو، حالانکہ چند نسلوں پہلے جاپان میں تدفین بہت عام تھی۔‘انھوں نے کئی آخری رسومات میں شرکت بھی کی ہے۔وہ کہتی ہیں کہ ’اگر تدفین کی خواہش کو خود غرضی کہا جاتا ہے تو کم از کم مجھے اپنے مردہ جسم کے بارے میں خود غرض ہونے دیں۔‘لیکن ڈاکٹر خان کی یونیورسٹی ریٹسومیکان ایشیا پیسفک یونیورسٹی میں سوشیالوجی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر شنجی کوجیما کہتے ہیں کہ ’اس کی وجوہات زیادہ پیچیدہ ہیں۔ انھوں نے اس مسئلے پر تحقیق کی ہے اور بیپو مسلم ایسوسی ایشن کو مشورہ دیا ہے۔‘انھوں نے کہا کہ اس بات کا تعین کرنے والا عنصر یہ نہیں ہے کہ آپ مسلمان ہیں یا نہیں۔ ڈاکٹر کوجیما نے بی بی سی کو بتایا کہ مقامی کمیونٹی کی سیاست کس طرح کام کرتی ہے اور صحیح انسانی نیٹ ورک یا کنکشن ہونا ہی نتائج کا تعین کرتا ہے۔اُن کے مطابق ’بہت سے ڈویلپرز، جاپانی غیر مسلم، تاریخی طور پر مخالفت کا سامنا کرتے رہے ہیں۔ یہ میرے گھر کے صحن (نمبی) میں نہیں ہے۔‘،تصویر کا ذریعہTahir Abbas Khan

ایک ممکنہ حل

ڈاکٹر خان کا کہنا ہے کہ ’جاپان میں مسلمانوں کے 13 قبرستان ہیں جن میں ہیروشیما میں حال ہی میں تعمیر کیا گیا ایک قبرستان بھی شامل ہے۔‘اقبال وہاں سوگواروں کے ساتھ ہیں۔ ہیروشیما میں وہ تمام سہولیات موجود ہیں جن کی ہمیں ضرورت ہے۔ وہ کہتے ہیں ’ہمارے پاس اپنے آپ کو صاف (وضو) کرنے کے لئے پانی کی سہولیات ہیں اور مقامی برادری ہمارے لئے حلال کھانا فراہم کرتی ہے۔‘انھوں نے اراکین پارلیمنٹ، متعلقہ وزارتوں اور مقامی حکام سے اپیل کی ہے کہ وہ اس مسئلے کو حل کریں۔ اب، مقامی حکام نے بیپو میں مسلم کمیونٹی کے لیے 79 تدفین کی جگہوں کے لیے زمین مختص کی ہے، جس سے ایک نئی اُمید پیدا ہوئی ہے۔وہ کہتے ہیں کہ ’یہ صرف ایک مذہبی معاملہ نہیں ہے، یہ ایک بنیادی انسانی حق ہے۔‘اُن کا مزید کہنات ہے کہ ’ہم مفت میں کچھ نہیں مانگ رہے ہیں۔ ہم اس کے لئے ادائیگی بھی کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن اہم چیلنج منصوبہ بندی کی اجازت حاصل کرنا ہے۔‘وہ کہتے ہیں کہ ’یہودیوں اور برازیل سے آنے والے حالیہ مسیحی تارکین وطن جیسی دیگر چھوٹی برادریاں بھی اس سب کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔ اقبال کہتے ہیں کہ ’اس کا بہترین حل یہ ہے کہ جاپان کے تمام تر اہم علاقوں میں ایک قبرستان قائم کیا جائے جہاں وہ سب اپنے پیاروں کی تدفین کر سکیں جو ایسا کرنا چاہتے ہیں۔‘ تاہم، اس بات کا امکانات اب بھی بہت کم ہیں کہ حکومت اس معاملے میں مداخلت کرے گی۔لیکن ڈاکٹر خان اُمید نہیں چھوڑ رہے وہ کہتے ہیں کہ ’ہم کسی میت کو نظر آتش نہیں کریں گے۔ یہ ممکن ہی نہیں ہے۔ مرنے والوں کی تدفین کے لیے جو کچھ بھی کرنا پڑے گا ہم کریں گے۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}