جاپان میں بچوں کی کمی پر بند سکولوں کو نئی پہچان کیسے دی گئی
- مصنف, فاطمہ کماتا
- عہدہ, بی بی سی نیوز
جاپان میں شرح پیدائش میں کمی سے نہ صرف سالانہ اوسطاً 450 سرکاری سکول بند ہوئے ہیں بلکہ کئی سکولوں کے کلاس روم بھی خالے پڑے ہیں۔
حکومتی اعداد و شمار کے مطابق 2002 سے 2021 تک 8580 پرائمری سکولوں میں تدریسی عمل ختم کیا گیا۔
ان میں سے 74 فیصد میں اب بھی سکول کی سہولیات دستیاب ہیں۔ تقریباً 5,500 کو کمیونٹی سینٹر کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے یا ہاسٹل، آرٹ گیلری، ایکویریم اور یہاں تک کہ شراب بنانے والی بریوری کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
بقیہ بند سکول طلبا کی کمی یا خراب سہولیات کی وجہ سے غیر استعمال شدہ پڑے ہیں۔
سکول منہدم کرنا جاپانیوں کے لیے ایک تکلیف دہ فیصلہ ہے جو سکول کو صرف نصابی سرگرمیوں تک محدود نہیں سمجھتے۔
کنڈائی یونیورسٹی میں اپلائیڈ سوشیالوجی کے پروفیسر تکاہیرو ہیسا کہتے ہیں کہ جاپان میں سکول کو کمیونٹی کے قیام میں اہم حصہ دار سمجھا جاتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’جاپان میں سکولوں کے کھیل کے میدان اور جمنیزیم اکثر چھٹیوں کے دوران اور شام کو سکول بند ہونے کے بعد بھی کھلے رہتے ہیں تاکہ کمیونٹی کی سطح پر سرگرمیوں کو فروغ دیا جائے۔‘
قدرتی آفات جیسے زلزلے اور ٹائفون کے دوران انھیں پناہ گاہوں کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
جاپانیوں میں سکول کے ماحول کو کافی اہمیت دی جاتی ہے۔
جاپان کی اوساکا یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر توہرو موریوکا نے جنوبی برازیل میں ان علاقوں کا مطالعہ کیا جہاں تارکین وطن بسے ہوئے ہیں۔ انھیں معلوم ہوا کہ اطالوی اور جرمن تارکین وطن کے لیے کمیونٹی کا مرکز گرجا گھر ہے جبکہ جاپانیوں کے لیے سکول ہی کمیونٹی کے مراکز ہیں۔
چیلنج
کمیونٹی کے اس احساس کو برقرار رکھنا آج جاپان کے لیے ایک چیلنج ہے۔
2010 میں ’سب کے لیے سکول بند‘ کا منصوبہ اپنایا گیا جس سے حکومت سکول انفراسٹرکچر کا فائدہ اٹھاتے ہوئے آبادی کے مختلف عوامل پر اثر انداز ہوتی ہے۔
ہیسا کے مطابق ’آبادی میں کمی کے ساتھ نکتہ یہ ہے کہ نئی سہولیات کی تعمیر کے بجائے دستیاب مقامی وسائل کا مؤثر استعمال کیا جائے۔‘
نصف صدی میں جاپان میں ابتدائی سکولوں میں داخلہ لینے والے طلبہ کی تعداد آدھی رہ گئی ہے۔
اس وقت پرائمری سکولوں میں تقریباً نو ملین بچے داخل ہیں جبکہ اس سطح کے 28,000 سرکاری سکولوں کا نیٹ ورک موجود ہے۔
جاپان کی تاریخ میں دو بار اس میں اضافہ ہوا۔
1958 میں 40,000 پرائمری سرکاری سکولوں میں 18.6 ملین بچے زیرِ تعلیم تھے۔ ایسا پہلے بیبی بوم (1947-1949) کے دوران ہوا۔
1981 کے دوسرے بیبی بوم (1971-1974) میں بھی پرائمری سکولوں اور ان میں زیر تعلیم بچوں کی تعداد بڑھی
تب سے کلاس روم میں بچوں کی شرح کم ہوئی ہے۔
گذشتہ سال پہلی بار جاپان میں پیدائش کی تعداد 800,000 سے نیچے آگئی۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مزید سکول بند ہو جائیں گے۔
سکولوں کی نئے انداز میں بحالی
جاپان میں تعلیم، کلچر، کھیل، سائنس اور ٹیکنالوجی کی وزارت نے اپنی ویب سائٹ پر ایک پوسٹ کے ذریعے ہر مقامی حکومت کی طرف سے بند سکول کی سہولیات کے بارے میں معلومات فراہم کی ہیں۔ سکول میں دلچسپی رکھنے والے لوگوں کی تجاویز کا جائزہ لیا جاتا ہے۔
سہولتیں استعمال کرنے کی اجازت ان کو دی جاتی ہے جو مقامی کمیونٹی کی مدد کرنے، علاقائی بحالی کو فروغ دینے اور روزگار پیدا کرنے کے لیے پُرعزم ہوں۔
کلاس روم، فرنیچر، جِم اور یہاں تک کہ سوئمنگ پول جیسی جگہیں دستیاب ہیں جس میں بجلی، گیس اور سیوریج جیسی سہولتیں بھی ملتی ہیں۔
اگرچہ جاپان میں آدھے سرکاری سکول 30 سال سے زیادہ پرانے ہیں، اسی طرح کی عمارت کو شروع سے بنانے میں وقت لگے گا اور بہت زیادہ رقم (1.3 بلین ین، تقریباً 9 ملین امریکی ڈالر) خرچ ہوگی۔
پروفیسر ہیسا کی رائے میں بند سکولوں پر قبضہ صرف معاشی وجوہات کی بنا پر نہیں ہونا چاہیے۔
سکول کی عمارتوں اور مقامی لوگوں کا آپس میں ایک تعلق ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ایک سکول کو دوبارہ تیار کرنا، جو یادوں کی جگہ ہے اور ایک کمیونٹی کی جگہ بنانا، جہاں لوگ اکٹھے ہو سکیں، ایک اہم اقدام ہے۔
ان خالی جگہوں کو بحال کرنے کا طریقہ خطے کے دوسرے علاقے میں مختلف ہوتا ہے۔
ایچی پریفیکچر کے شہر شنشیرو میں سوگاموری ایلیمنٹری سکول کیفے ٹیریا کو 2014 میں مقامی اجزا پر مبنی پکوان پیش کرنے والے ریستوران میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔
2008 میں شمالی صوبے ہوکائیڈو کے گاؤں نیپاکو، جس میں 5000 لوگ آباد ہیں، کا ایک سکول میوزیم بنا دیا گیا۔
یہ سب اس وقت شروع ہوا جب ایک آرٹ کولیکٹر نے رہائشیوں کی درخواست پر عمارت خریدی جو علاقے کو زندہ کرنا چاہتے تھے۔
انھوں نے پرانے سکول میں فرانسیسی ہم عصر مصور جیرارڈ ڈی میکیو کے 200 سے زیادہ فنپاروں کے ساتھ ساتھ رینی لالیک (1860-1945) کی 150 پینٹنگز کی نمائش کی۔
کماموٹو پریفیکچر میں کیکوچی شہر، جس کی آبادی 46,000 تھی، یہاں 137 سال پرانے سکول کو بریوری بنا دیا گیا۔
باہر سے عمارت اب بھی ایک سکول کی طرح نظر آتی ہے۔ لیکن اندر سکول جیسا کچھ بھی نہیں۔ کیفے ٹیریا میں سٹیمرز اور کولر لگائے گئے ہیں جہاں کوشیکی نامی ٹینک میں چاولوں کو بھاپ دی جاتی ہے۔
پرنسپل اور نرس کے دفاتر اور اساتذہ کے کمروں میں شراب تیار ہوتی ہے۔
فلنگ اور لیبلنگ لائنیں گلیاروں سے گزرتی ہیں۔
کمپنی کے مطابق سکول کی عمارت کے منفرد ڈھانچے، جس میں کلاس رومز کی قطاریں ہیں، نے مشروب بنانے کے عمل کو مؤثر کر دیا ہے۔
کمپنی کا کہنا ہے کہ ملازمین کا تعلق اصل میں کیکوچی سے ہے اور تمام خام مال، پانی اور چاول، اسی علاقے سے ہیں۔
ایک اور تبدیلی کوچی پریفیکچر کے موروتو کے ماہی گیری گاؤں میں ہوئی، جہاں 13,000 باشندوں میں سے نصف کی عمریں 65 سال سے زیادہ ہیں۔
وہاں 17 سال قبل بند ہونے والا پرائمری سکول ایکویریم میں تبدیل کر دیا گیا ہے تاکہ سیاح اس کی طرف متوجہ ہوسکیں۔
آپ کو 25 میٹر کے آؤٹ ڈور پول میں ہیمر ہیڈ شارک اور کچھوے تیرتے ہوئے ملیں گے اور سمندری جانوروں اور مچھلیوں کی 1000 قسمیں کلاس رومز میں تھیم والے ٹینکوں میں ڈسپلے پر نظر آئیں گی۔
نیشیزو، شیزوکا پریفیکچر میں 65 سال کے استعمال کے بعد بند سکول کی عمارت کو نوجوانوں کے ہاسٹل میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔
سکول میں 1941 میں اپنے عروج پر 241 طالب علم تھے اور 1973 میں بند ہونے پر صرف 45 نے داخلہ لیا تھا۔ مگر سکول کی علامات اب بھی یہاں عیاں ہیں۔
متبادل استعمال
کمیونٹی کی بات سننے کے بعد ہر سکول کی قسمت کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔
فوجیساوا شہر کے ایک سرکاری سکول کے سابق ڈائریکٹر نے عمارتوں کو بحال کرنے کے کئی امکانات درج کیے، چاہے ان کا مقام کچھ بھی ہو۔
مشرقی جاپان میں اگلے 30 سالوں میں آنے والے ایک بڑے زلزلے کے امکان کے پیش نظر، جیسا کہ ماہرین نے پیش گوئی کی ہے، انھوں نے سکول کی سہولیات کو عارضی رہائش، سامان ذخیرہ کرنے اور کھانا پیش کرنے کے لیے استعمال کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔
جاپانی آبادی کی بڑھتی عمر سے درپیش چیلنج سے نمٹنے کے لیے بہت سی دوسری تجاویز بھی ہیں۔ خیال ہے کہ 2050 تک آبادی کی 40 فیصد عمر رسید ہوگی۔
وہ سکول جو کبھی بچوں کی آوازوں سے چہکتے تھے اب ویران ہیں مگر انھیں مردہ حالت سے دوبارہ زندہ کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔
Comments are closed.