شوکت صدیقی اردو کے شہرہ آفاق ناول و افسانہ نگار تھے جو ’خدا کی بستی‘ کی وجہ سے عالمی شہرت رکھتے ہیں۔ وہ سماجی اور سیاسی شعور بیدار کرنے کے لیے کوشاں رہتے تھے، انہوں نے جرائم کی دنیا کی عکاسی کرتے ہوئے غریب، مجبور و مظلوم انسانوں کی کہانیاں پیش کی ہیں۔ ان کا نظریہ تھا کہ ملک میں اصل خرابی جاگیرداری ہے اور وہ جاگیرداری کے خاتمہ کو ملک کی ترقی کے لئے ناگزیر سمجھتے تھے۔
ان خیالات کا اظہار مقررین نے جامعہ کراچی کے شعبہ اُردو کے زیر اہتمام شوکت صدیقی کے صدسالہ یوم ولادت کی مناسبت سے کلیہ فنون وسماجی علوم جامعہ کراچی کی سماعت گاہ میں منعقدہ صد سالہ شوکت صدیقی کانفرنس کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
مقررین میں پروفیسر محمد علی منظر، اقبال خورشید، کاشف رضا، نگار صدیقی، کاظم پاشا، ڈاکٹر صدف تبسم، ڈاکٹر تہمینہ عباس، ڈاکٹر تنظیم الفردوس، ڈاکٹر جعفر احمد اور محمود شام شامل تھے۔
صدر شعبہ اُردو پروفیسر ڈاکٹر عظمیٰ فرمان نے خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے عہد حاضر کے سماجی اور طبقاتی مسائل کے حل کے لئے شوکت صدیقی کی تحریروں کی معنویت اجاگر کی، انہوں نے مہمانوں کی آمد کاشکریہ بھی ادا کیا۔
اس موقع پر رئیسہ کلیہ فنون و سماجی علوم جامعہ کراچی پروفیسر ڈاکٹر نصرت ادریس نے کہا کہ شوکت صدیقی کے دونوں ڈرامے خداکی بستی اور جانگلوس ان کی شخصیت کے مکمل آئینہ دار ہیں۔
انہوں نے سماجی اور سیاسی موضوعات پر قلم اُٹھایا اور بطور صحافی اپنے آپ کو منوایا۔ یہ محض دانشور اور ادیب ہی نہیں بلکہ عوامی ادیب ہیں جس کا قاری دیار غیر میں بھی موجود ہیں۔ شوکت صدیقی نے اپنی تحریروں میں پاکستان کے تہذیبی مسائل، جاگیرداروں، وڈیروں اور اشرافیہ کی کھل کر مذمت کی۔ عوامی زندگی کے مسائل اور ان کے حالات ان کی تحریروں میں نظر آتے ہیں اور ایسی ہی دانشور کی تحریروں سے سماج عدل کی طرف پیش رفت کرتا ہے۔
شوکت صدیقی کی صاحبزادی نگار صدیقی نے کہا کہ میرے والد صحافت میں رہے، لیکن ادب وہاں پر بھی ان پر غالب رہا، انہوں نے ہمہ وقت کمزور طبقے کا ساتھ دیا جس کی نمایاں جھلک ان کی تحریروں میں نظر آتی ہے۔
پاکستان اسٹڈی سینٹر جامعہ کراچی کے سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر جعفر احمد نے اپنی تقریر میں ادب کے ذریعے زندگی، اس کی حقیقت اور مسائل کو سمجھنے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت ہمارے نوجوانوں کو شوکت صدیقی جیسے مصنفوں اور لکھاریوں کو پڑھنے کی عادت ڈالنی چاہیے۔
دیگر مقررین نے کہا کہ ان کی تحریروں کی کلیدی اساس سماجی حقیقت نگاری ہے اور ایک صحافی ہونے کے ناطے وہ ملک کے معروضی حقائق سے بخوبی آگاہ تھے۔ شوکت صدیقی کی زبان و بیان نہایت سادہ اور روز مرہ کی ہے، وہ ثقیل اردو نہیں لکھتے بلکہ عوامی زبان لکھتے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ شوکت صدیقی کا دوسرا بڑا ناول جانگلوس ہے جس کو پنجاب کی الف لیلیٰ بھی کہا جاتا ہے جس میں جاگیردارانہ نظام کی طبقاتی کشمکش کی سفاکی نظرآتی ہے۔ انہوں نے ادب برائے ادب نہیں بلکہ زندگی کی اصل حقیقت کو لکھنے کے قائل تھے۔
معروف صحافی اور دانشور محمود شام نے اپنے خطاب میں اُردو صحافت اور فکشن نگاری میں شوکت صدیقی کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور کہا کہ ان کی خوبی یہ ہے کہ ان کے ہاں تحریر، نظریہ اور طرز زندگی ایک ہوگئے، اسی لئے ان کی تحریر کی اثر پذیری کا کوئی جواب نہیں۔
کاشف رضا نے کہا کہ اپنے زمانے کا حال لکھنا بڑا مشکل ہوتا ہے لیکن شوکت صدیقی نے جس خوبصورتی سے اپنے تحریروں میں معاشرے کی عکاسی کی ہے وہ لائق تحسین اور قابل تقلید ہے۔
اقبال خورشید نے کہا کہ شوکت صدیقی معاشرے کا درد رکھنے والے تھے جس کا اندازہ ان کی تحریروں سے لگایا جاسکتا ہے۔ انہوں نے طلبہ کو مخاطب کرتے ہوئے انہیں شوکت صدیقی کے ناول پڑھنے کا مشورہ دیا۔
Comments are closed.