جامعہ بلوچستان کے اساتذہ،افسران اور ملازمین کو تاحال پچھلے تین مہینوں کی تنخواہوں کی ادائیگی نہیں کی گئی اور وہ پچھلے تین سالوں سے مسلسل اپنے بنیادی حق مکمل تنخواہ، پروموشن، اپ گریڈیشن، ٹائم اسکیل سمیت جامعہ کے ایکٹ کے پالیسی ساز اداروں میں منتخب نمائندگی کے لئے احتجاج پر مجبور ہیں۔
اس سلسلے میں جمعرات کو بھی جامعہ بلوچستان میں مکمل طور پر تالا بندی رہی اور تمام امتحانات کا بائیکاٹ اور ٹرانسپورٹ بھی بند تھی۔ جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے ایک بہت بڑی احتجاجی ریلی نکالی جو جامعہ کے مین گیٹ کے سامنے سریاب روڈ پر دھرنے میں تبدیل ہوگئی اور مظاہرین نے سریاب روڈ کو کئی گھنٹوں تک بلاک کیا۔
احتجاجی دھرنا پروفیسر ڈاکٹر کلیم اللّٰہ بڑیچ کی صدارت میں ہوا، دھرنے سے پروفیسر ڈاکٹر کلیم اللّٰہ بڑیچ، شاہ علی بگٹی، نذیر احمد لہڑی، فرید خان اچکزئی، نعمت اللّٰہ کاکڑ اور حافظ عبدالقیوم نے خطاب کیا۔
دھرنے میں بڑی تعداد میں خواتین اساتذہ نے بھی شرکت کی۔ مقررین نے کہا کہ قدرتی وسائل و دولت سے مالا مال صوبہ کئی دہائیوں سے پورے ملک کو گیس ،کوئلہ، کرومائیٹ و دیگر قیمتی وسائل مہیا کررہا ہے لیکن بدلے میں صوبے کو محرومی کے سوا کچھ نہیں ملا۔
انہوں نے کہا کہ صوبے کی پرانی اور بڑی یونیورسٹی کے اساتذہ، افسران اور ملازمین اپنے بنیادی حق تنخواہ سے بھی محروم ہیں۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ نا وفاقی حکومت اور نا صوبائی حکومت نے اس بابت سنجیدگی کا مظاہرہ کیا۔
مقررین نےکہا کہ جامعہ بلوچستان کو ایک تجربہ گاہ بنادیا گیا ہے اور جامعہ پر قصداً ایسے نااہل اور صوبہ دشمن وائس چانسلر مسلط کئے جاتے ہیں جو صرف لوٹ کھسوٹ اور جامعہ کی بربادی کے لئے آتے ہیں۔
مقررین نے صوبائی حکومت پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ان کے پاس دوسرے پروجیکٹس کے لئے تو خطیر رقم موجود ہے لیکن جامعات کے لئے مطلوبہ فنڈز نہیں۔
انہوں نےکہا کہ یا تو صوبے کی تمام جامعات بند کر کے نیلام کر لے یا جامعات کو چلانے کی ذمہ داری لے۔
مقررین نے اعلان کیا کہ بروز جمعہ کو بھی احتجاجی ریلی اور سریاب روڈ کو بلاک کر کے دھرنا دیا جائے گا اور جامعہ بلوچستان اور تمام سب کیمپسز کی مکمل تالا بندی اور امتحانات کا بائیکاٹ کیا جائے گا۔
Comments are closed.