’جاسوس غبارہ‘ تنازعے کے بعد انٹونی بلنکن کے دورۂ چین کے دوران کن امور پر بات چیت ہو گی؟
- مصنف, اینتھونی زرچر
- عہدہ, دورِۂ چین پر امریکی وزیرِ خارجہ کے ہمراہ
امریکی وزیرِ خارجہ انٹونی بلنکن کا اتوار کو پہلا دورہ چین ایک ایسے موقع پر ہو رہا ہے جب دونوں ممالک کے روابط میں پانچ ماہ قبل ’جاسوس غبارے‘ کے باعث تناؤ پیدا ہوا تھا۔
ان کا اس سے قبل دورہ چین بھی اسی غبارے کے باعث منسوخ کر دیا گیا تھا حالانکہ چین کا مؤقف ہے کہ یہ غبارہ دراصل موسم کی مانیٹرنگ کے لیے فضا میں تھا اور اس دوران یہ براعظم امریکہ کی جانب سرک گیا تھا۔ اس غبارے کو آخر کار امریکی طیارے کی مدد سے تباہ کر دیا گیا تھا۔
انٹونی بلنکن اپنے دورے کے دوران چین کے اعلٰی خارجہ حکام سے ملاقاتیں کریں گے لیکن تاحال یہ معلوم نہیں ہے کہ ان کی چینی صدر شی جن پنگ سے بھی ملاقات ہو گی یا نہیں۔ خیال رہے کہ شی جن پنگ کو جمعے کو مائیکروسافٹ کے بانی بل گیٹس کے ساتھ بیجنگ میں دیکھا گیا تھا۔
دونوں عالمی طاقتوں کو ایک دوسرے کے لیے جہاں خدشات کی ایک لمبی فہرست موجود ہے جن میں اعلٰی سطح کے اختلافات موجود ہیں وہیں ایسے شعبے بھی ہیں جن میں باہمی تعاون کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔
انٹونی بلنکن کے دورہ چین کے دوران وہ تین موضوعات کیا ہیں جو سب سے زیادہ اہمیت کے حامل ہیں، آئیے آپ کو بتاتے ہیں۔
تعلقات میں بہتری کی کوشش
بلنکن کے دورے کا پہلا مقصد تو کسی بھی قسم کے سفارتی تعلقات دوبارہ سے استوار کرنا ہے۔
گذشتہ ماہ سرد مہری کی اس کیفیت میں اس وقت بہتری دیکھنے کو ملی تھی جب امریکی اور چینی حکام کی ویانا میں ملاقات ہوئی تھی۔
تاہم بلنکن بائیڈن انتظامیہ کے سب سے سینیئر عہدیدار ہیں جو چین کا دورہ کر رہے ہیں اور یہ سنہ 2018 کے بعد سے کسی بھی امریکی وزیرِ خارجہ کا پہلا دورہ چین ہے۔
امریکی صدر کے ڈپٹی اسسٹنٹ اور کوارڈینیٹر برائے انڈو پیسیفک امور کرٹ کیمبل نے دورے سے قبل دی گئی بریفنگ میں کہا کہ یہ بات چیت کا بہترین موقع ہے کیونکہ اس سے بذاتِ خود کشیدگی میں کمی آتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’ہم ان اختلافات کو عالمی ترجیحات پر آگے بڑھنے کی راہ میں حائل نہیں ہونے دیں گے جو ہمیں تقسیم کر سکتے ہیں۔ ان ترجیحات کے لیے ہمارا ایک ساتھ کام کرنا ضروری ہے۔‘
تاہم چین کی جانب سے بلنکن کے دورے پر ردِ عمل کچھ حد تک سرد ہے۔
بدھ کی رات چین کے وزیرِ خارجہ کن گینگ اور انٹونی بلنکن کے درمیان ٹیلی فون کال کا جو سرکاری اعلامیہ چین کی جانب سے جاری کیا گیا ہے اس کے مطابق چینی وزیرِ خارجہ نے بلنکن سے کہا ہے کہ’یہ بہت واضح ہے کہ (دونوں ممالک کے روابط میں حالیہ تناؤ کے حوالے سے ) قصور کس کا ہے۔‘
اطلاعات کے مطابق مسٹر کن کا کہنا ہے کہ ’امریکہ کو چین کے خدشات کا احترام کرنا چاہیے، چین کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی سے گریز کرنا چاہیے اور چین کی خودمختاری، سکیورٹی اور ترقی کو مقابلے کے نام پر سبوتاژ کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔‘
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ انھیں اس دورے سے کسی قسم کی بڑی پیش رفت سامنے آنے کی امید نہیں ہے۔ دورے کے دوران ہونے والے اجلاسوں میں سامنے آنے والی سب اہم پیش رفت یہی ہو گی کہ یہ اجلاس منعقد ہوئے ہیں۔
امریکی دفترِ خارجہ کے سینیئر وسطی ایشیا کے سفیر ڈینیئل جے کرٹنبرگ نے کہا ہے کہ کسی بڑی پیش رفت کی امید نہ رکھیں اور نہ ہی دونوں ممالک کے آپس کے تعلقات میں کوئی بہت بڑی تبدیلی رونما ہو گی۔
اگر ان میٹنگز کے نتیجے میں امریکی اور چینی حکام کے درمیان مزید رابطے عمل میں آتے ہیں تو دونوں ممالک آئندہ روابط میں بہتری کی امید کر سکتے ہیں۔
تجارتی تنازعات میں نرمی
صدر بائیڈن کے چین سے روابط کا آغاز ہی تنازع سے ہوا کیونکہ وہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے چین پر لگائی جانے والی تجارتی اقدامات واپس لینے میں ہچکچاہٹ کا شکار تھے۔
ان میں چینی مصنوعات کی درآمدات پر لگائے جانے والے اربوں ڈالر کے ٹیرف بھی شامل ہیں۔ کچھ شعبوں میں تو صدر بائیڈن نے مزید سختی سے کام لیا ہے اور امریکہ کی چین کو کمپیوٹر چپ برآمد کرنے پر پابندیاں لگائی ہیں تاکہ امریکہ سب سے جدید الیکٹرانک ٹیکنالجی کے حوالے سے برتری برقرار رکھ سکے۔
چین نے اس کے ردِ عمل میں امریکی کمپنی مکرون کی چپس کی درآمد پر پابندی عائد کر دی ہے۔ کیمبل نے چین کے خدشات تسلیم کیے لیکن یہ بھی کہا کہ امریکی نے جو اب تک اقدامات اٹھائے ہیں وہ اس کی تفصیل بھی بتا سکتے ہیں اور ان کا دفاع بھی کر سکتے ہیں جس سے یہ معلوم ہو سکے گا کہ آئندہ اس حوالے سے کیا ہو سکتا ہے۔
اگر کمپیوٹر ٹیکنالوجی دونوں ممالک کے درمیان سخت مقابلے کی وجہ بنا ہوا ہے تو منشیات کی سمگلنگ ایک ایسا موضوع ہے جس پر مل کر کام کیا جا سکتا ہے۔
امریکی چین میں بننے والے کیمیکل مصنوعات کی برآمدات کو محدود کرنا چاہتا ہے جو فیناٹینل بنانے میں استعمال ہوتے ہیں۔ یہ ایک ایسا سنتھیٹک اوپیؤڈ ہے جو ہیرؤن سے کئی گنا طاقتور نشہ ہے۔
امریکہ میں منشیات بمشول فیناٹینل کے بے جا استعمال سے ہونے والی اموات کی تعداد گذشتہ سات برسوں میں تین گنا بڑھ گئی ہے۔
کرٹنبرک کہتے ہیں کہ ’یہ امریکہ کے لیے اہم اور فوری مسئلہ ہے۔‘ تاہم یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس سے بہت سارے چیلنجز جڑے ہیں۔
جنگ کے امکانات کو زائل کرنا
غبارے کے تنازع کے بعد یہ خبریں سامنے آئی تھیں کہ چین روس کو اسلحہ فراہم کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہے جو فوری طور پر یوکرین جنگ میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔
امریکی حکام گذشتہ کچھ ماہ کے دوران ان الزامات کا دوبارہ ذکر سے گریزاں ہیں۔ یوں اسے دونوں ممالک کے لیے ایک اہم مسئلہ ختم کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جو یوکرین روس جنگ کو امریکہ اور چین کی پراکسی جنگ میں تبدیل کر سکتا تھا۔
تاہم بلنکن کی جانب سے چینی حکام کو دی گئی ان وارننگز کو دہرایا جا سکتا ہے کہ اگر چین نے روس کی مالی یا عسکری مدد کرنے کی کوشش کی تو اس کے نتائج اچھے نہیں ہوں گے۔
امریکی اور چینی جنگی بحری بیڑے آبنائے تائیوان اور بحیرہ جنوبی چین میں آمنے سامنے ہیں۔
چین اس علاقے پر اپنی حاکمیت کا خواہاں ہے جبکہ امریکہ کا کہنا ہے کہ یہ بین الاقوامی سمندری حدود ہیں۔
بلنکن اور ان کی ٹیم کا کہنا ہے کہ اس دورے میں ان کا ہدف دونوں ممالک کے درمیان تناؤ سے ’خطرہ نکالنا‘ ہے اور اس کے لیے دونوں ممالک کے درمیان بات چیت ہی بہترین ذریعہ ہے۔
اس سے زیادہ حاصل کرنا مشکل ہو گا اور بڑے پیمانے پر باہمی تعاون کی امید بھی نہیں رکھی جا سکتی کیونکہ صدر بائیڈن کے لیے سنہ 2024 کے صدارتی انتخابات سے پہلے چین مخالف بیانیہ اہم ہو سکتا ہے۔
دونوں ممالک کے اس دورے کے بعد سامنے آنے والا تسلی بخش نتیجہ یہی ہو گا کہ پھر سے بات چیت کا راستہ کھل سکے گا جو کسی بھی قسم کی عسکری تنازع سے بچنے میں مدد دے گا۔
Comments are closed.