gay hookup apps nz denver hookup airbnb dailydot hookup app bbw hookups app hookup hotshot mature cougar hookup in louisiana

بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

’جاسوسی کی صلاحیتوں‘ کے لیے مشہور انڈین نژاد چندانی کو سی آئی اے میں کون سا اہم عہدہ ملا؟

نند مول چندانی: سی آئی اے کے نئے چیف ٹیکنالوجی افسر کون ہیں اور امریکہ کا خفیہ ادارہ کیسے کام کرتا ہے؟

  • ابھینو گویل
  • نمائندہ بی بی سی

نند مول چندانی

،تصویر کا ذریعہALEX WONG/GETTY IMAGES

،تصویر کا کیپشن

نند مول چندانی اپنی رازداری اور جاسوسی کی صلاحیتوں کے لیے مشہور ہیں

امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم جے برنز نے انڈین نژاد امریکی شہری نند مول چندانی کو ایجنسی کا پہلا چیف ٹیکنالوجی آفیسر مقرر کیا ہے۔

اتوار کو سینٹرل انٹیلیجنس ایجنسی (سی آئی اے) کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں اس تقرری کا اعلان کیا گیا۔ اعلامیے کے مطابق نند مول چندانی کا نجی اور سرکاری محکموں میں 25 سال سے زائد عرصے کام کرنے کا تجربہ ہے۔

وہ سلیکون ویلی کے ساتھ ساتھ امریکی محکمہ دفاع میں بھی کام کر چکے ہیں۔ سی آئی اے میں شمولیت سے قبل نند مول چندانی وزارت دفاع میں جوائنٹ آرٹیفیشل انٹیلیجنس سینٹر کے چیف ٹیکنالوجی آفیسر اور ایگزیکٹیو ڈائریکٹر تھے۔

نند مول چندانی کون ہیں؟

نند مول چندانی کے لنکڈ ان پروفائل کے مطابق انھوں نے دارالحکومت دہلی میں قائم بلیو بیلز انٹرنیشنل سکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کی ہے۔ سنہ 1987 میں دہلی کے اسی سکول سے 12 ویں جماعت پاس کرنے کے بعد نند مول چندانی گریجوئیشن کے لیے امریکہ چلے گئے جہاں انھوں نے امریکہ کی کارنیل یونیورسٹی سے کمپیوٹر سائنس اور ریاضی میں ڈگریاں حاصل کیں۔

سنہ 2018 میں انھوں نے سٹینفورڈ سے مینجمنٹ میں ماسٹر آف سائنس اور ہاورڈ یونیورسٹی سے پبلک ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز کی ڈگریاں حاصل کیں۔

نند مول چندانی نے بہت سے کامیاب سٹارٹ اپس کے بانی ہیں۔ وہ Oblix، Determina، OpenDNS اور Scale Extreme کے شریک بانی اور سی ای او بھی رہے ہیں۔

نند مول چندانی جو اپنی رازداری اور جاسوسی کی صلاحیتوں کے لیے مشہور ہیں وہ اب سی آئی اے میں چیف ٹیکنالوجی آفیسر کا عہدہ سنبھالنے جا رہے ہیں۔

اپنی تقرری کے بعد مول چندانی نے کہا: ’میں سی آئی اے میں شامل ہونے پر فخر محسوس کر رہا ہوں اور ایجنسی کے تکنیکی ماہرین کی ناقابل یقین ٹیم کے ساتھ کام کرنے کا منتظر ہوں جو پہلے سے ہی عالمی معیار کی انٹیلیجنس صلاحیتیں فراہم کرتے ہیں۔۔۔‘

سی آئی اے کو امریکہ کی پہلی ’لائن آف ڈیفنس‘ بھی کہا جاتا ہے۔ سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ یہ ایجنسی کیسے کام کرتی ہے اور دنیا بھر میں اس کے بارے میں اتنی دلچسپی کیوں ہے۔

سی آئي اے

،تصویر کا ذریعہGetty Images

سی آئی اے کیا ہے؟

سینٹرل انٹیلیجنس ایجنسی کا قیام سنہ 1947 میں عمل میں آیا تھا اور یہ امریکی حکومت کا ادارہ ہے۔

سی آئی اے عالمی مسائل اور انفرادی ممالک سے متعلق انٹیلیجنس جمع کرتی ہے جسے صدر، قومی سلامتی کونسل اور دیگر اداروں کے ساتھ شیئر کیا جاتا ہے۔ یہ انٹیلیجنس معلومات امریکہ کی قومی سلامتی سے متعلق فیصلے کرنے میں مدد فراہم کرتی ہیں۔

اس میں دہشت گردی سے لڑنا، جوہری اور غیر روایتی ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکنا، ملک کو غیر ملکی جاسوسوں سے بچانا اور دوسرے ممالک کی جاسوسی کرنا شامل ہے۔

سی آئی اے کا ہیڈ کوارٹر امریکی ریاست ورجینیا میں ہے۔ اس وقت ولیم جے برنز سی آئی اے کے ڈائریکٹر ہیں۔ ڈائریکٹر کا انتخاب امریکی صدور کرتے رہے ہیں، جس کے لیے سینیٹ کی منظوری درکار ہوتی ہے۔ سی آئی اے کا ڈائریکٹر نیشنل انٹیلیجنس کے ڈائریکٹر کو رپورٹ کرتا ہے۔

امریکی بجٹ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

سی آئی اے کا بجٹ کتنا ہے؟

مواد پر جائیں

پوڈکاسٹ
ڈرامہ کوئین
ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

امریکہ میں قومی انٹیلیجنس پروگرام کے لیے سالانہ بجٹ پاس کیا جاتا ہے۔ یہ رقم امریکہ کی 16 مختلف انٹیلیجنس ایجنسیاں مل کر خرچ کرتی ہیں۔ ان میں سے ایک سی آئی اے بھی ہے۔

سنہ 2020 میں نیشنل انٹیلیجنس پروگرام کے لیے 62.7 ارب امریکی ڈالر کا بجٹ منظور کیا گیا تھا۔ اگر انڈیا کی کرنسی میں بات کی جائے تو یہ بجٹ تقریباً 4 لاکھ 80 ہزار کروڑ روپے ہے جبکہ پاکستنی کرنسی میں اسے تقریبا دس لاکھ کروڑ روپے تصور کر سکتے ہیں۔

اس انٹیلیجنس بجٹ میں ملٹری انٹیلیجنس پروگرام شامل نہیں ہے۔ اس کے لیے علیحدہ رقم دی جاتی ہے جو کہ 20 ارب امریکی ڈالر سالانہ سے زیادہ ہے۔ دنیا میں 100 سے زائد ممالک ایسے ہیں جن کی جی ڈی پی امریکی نیشنل انٹیلیجنس پروگرام کے بجٹ سے کم ہے۔

امریکہ کبھی نہیں بتاتا کہ اس نے کس خفیہ ادارے کو کس کام کے لیے کتنی رقم دی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

سنہ 2013 میں امریکی اخبار ’واشنگٹن پوسٹ‘ نے ایڈورڈ سنوڈن کے حوالے سے امریکی انٹیلیجنس بجٹ کے بارے میں بہت سے دعوے کیے تھے۔ اخبار نے دعویٰ کیا تھا کہ سنہ 2013 میں یہ بجٹ 52.6 ارب ڈالر تھا۔ اس میں سی آئی اے تنہا تقریباً دو لاکھ کروڑ روپے کے برابر رقم خرچ کرتی ہے۔

اخبار کے مطابق سی آئی اے انسانی جاسوسی پر تقریباً پانچ ارب ڈالر یعنی تقریبا 70 ہزار کروڑ روپے سے زیادہ خرچ کرتی ہے۔ اس میں سے ایک ہزار کروڑ روپے سے زیادہ تو صرف دنیا بھر میں پھیلے اس کے جاسوسوں کو جعلی شناخت دینے میں خرچ ہوتے ہیں۔

پاکستان کے ایبٹ آباد میں سی آئی اے کا خفیہ آپریشن

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

پاکستان کے ایبٹ آباد میں سی آئی اے کا خفیہ آپریشن

سی آئی اے خفیہ آپریشنز

دنیا کا سب سے مہلک حملہ 11 ستمبر 2001 کو ہوا تھا۔ شدت پسندوں نے دو امریکی مسافر طیاروں کو نیویارک میں موجود ورلڈ ٹریڈ ٹاور کی دو فلک بوس عمارتوں سے ٹکرا دیا تھا۔ اس حادثے میں سینکڑوں لوگ مارے گئے تھے۔

شدت پسند تنظیم القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو اس حملے کے بعد سی آئی اے نے دریافت کیا تھا، جس کے بعد امریکہ نے دو مئی سنہ 2011 کی صبح ایک خصوصی آپریشن میں اسامہ کو پاکستان میں ہلاک کر دیا تھا۔

القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی گرفتاری سے لے کر مختلف ممالک میں حکومتوں کو گرانے تک سی آئی اے نے اہم کردار ادا کیا ہے۔

ایران میں تختہ الٹنے کا عمل

امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے نے پہلی بار باضابطہ طور پر اعتراف کیا کہ سنہ 1953 کی ایرانی بغاوت میں اس کا بڑا کردار تھا۔ اس بغاوت میں ایران کے جمہوری طور پر منتخب وزیر اعظم محمد مصدق کو معزول کر دیا گیا تھا۔

دستاویزات کے مطابق سی آئی اے نے بغاوت کی تیاری کے لیے ایرانی اور امریکی میڈیا میں مصدق مخالف خبریں شائع کرنا شروع کیں۔ اس بغاوت نے شاہ محمد رضا پہلوی کی حکمرانی کو تقویت بخشی، جو ایران سے باہر رہتے ہوئے مصدق کے خلاف اقتدار کے لیے لڑ رہے تھے۔

رضا شاہ پہلوی بغاوت کے بعد ایران واپس آئے اور امریکہ کے قریبی اتحادی بنے۔

صدام حسین

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

صدام حسین

سی آئی اے نے ’اصلی‘ صدام حسین کی شناخت کی

جب امریکہ نے سنہ 2003 میں عراق کے سابق صدر صدام حسین کو پکڑا تو امریکہ اس بات کی تصدیق کرنا چاہتا تھا کہ وہ شخص صدام حسین ہی تھا۔ اس وقت یہ افواہ تھی کہ بہت سے جعلی صدام حسین موجود ہیں۔

اس کام کی ذمہ داری نکسن کو سونپی گئی جو سنہ 1988 میں سی آئی اے میں شامل ہوئے تھے۔ نکسن اس وقت عراق میں تھے۔ نکسن نے کچھ دیر صدام حسین سے بات کی اور اس حقیقت کی تصدیق کی کہ وہ واقعی صدام حسین ہی ہیں۔

سنہ 2011 میں سی آئی اے چھوڑنے والے نکسن نے کہا کہ ان کے ذہن میں صدام کو پہچاننے میں کوئی پس و پیش یا تردد نہیں تھا۔

خفیہ مشنز میں کبوتروں کا استعمال

کبوتروں کا پیغام رسانی کے طور پر استعمال ہزاروں سال پرانا ہے۔ لیکن، انھیں جاسوسی کے کام میں استعمال کرنے کا پہلا استعمال پہلی عالمی جنگ میں دیکھا گیا۔

سرد جنگ کے دوران سی آئی اے نے کبوتروں کو تربیت دی اور انھیں جاسوسی کے لیے تیار کیا۔

کبوتر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

کبوتروں کو سویت یونین کے حساس علاقوں میں پہنچایا گیا اور خفیہ طریقوں سے تصویریں کھینچنے کی تربیت دی گئی۔

آپریشن ’ٹکانہ‘ کے دوران بہت سے دوسرے جانوروں کے استعمال کا بھی پتا چلتا ہے۔ فائلوں سے پتہ چلتا ہے کہ سی آئی اے نے ایک کوے کو عمارت کی کھڑکی پر 40 گرام وزنی چیز رکھنے کی تربیت دی تھی۔

سنہ 1960 کی دہائی کی فائلوں سے پتہ چلتا ہے کہ سی آئی اے نے دوسرے ممالک کی بندرگاہوں کی جاسوسی کے لیے ڈولفن کا بھی استعمال کیا۔ ڈولفن کو مغربی فلوریڈا میں دشمن کے جہازوں پر حملہ کرنے کے لیے تربیت دی گئی تھی۔

مزید پڑھیے

اس کے ساتھ ڈولفن کو سمندر میں جوہری آبدوزوں کا پتہ لگانا یا تابکار ہتھیاروں کی شناخت کرنا بھی سکھایا گیا۔

سنہ 1967 سے سی آئی اے اپنے تین پروگراموں پر $600,000 سے زیادہ خرچ کر رہی ہے۔ اس میں ڈالفن، پرندوں، کتوں اور بلیوں کا جاسوسی کے لیے استعمال شامل ہے۔

جیل میں تفتیش

،تصویر کا ذریعہBBC RECONSTRUCTION

سی آئی اے پر قیدیوں کے ساتھ ‘بدسلوکی’ کے الزامات

سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کے دور میں سی آئی اے پر قیدیوں کے ساتھ ناروا سلوک کا الزام لگایا گیا تھا۔

امریکی سینیٹ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سی آئی اے قیدیوں سے پوچھ گچھ کے لیے خفیہ جیل کا استعمال کرتی ہے۔

قیدیوں سے پوچھ گچھ کے ان کے طریقوں میں مشتبہ افراد کو انتہائی ٹھنڈے پانی میں ڈبو کر رکھنا اور قیدیوں کا سر دیوار سے مارنا شامل ہے۔

امریکی سینیٹ کی یہ رپورٹ سی آئی اے کی سرگرمیوں کی تحقیقات کے لیے سنہ 2009 میں شروع کی گئی تفصیلی تحقیقات پر مبنی ہے۔

ایک اہلکار نے بتایا کہ انھیں القاعدہ کے مشتبہ ملزم ابو زبیدہ سے 83 مرتبہ ٹھنڈے پانی (واٹر بورڈ) میں ڈبونے سے پہلے ہی تمام اہم معلومات مل چکی تھیں۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.